عظمیٰ ناصر
سنہ1980کی دہائی سے پاکستانی سماج میں اہل دانش،اہل زبان اور اہل نظر کیلئے زمین تنگ کر دی گئی دور ضیائیت میں سماج سے سوال کرنے کی سکت چھیننے کیلئے پوری طاقت کا استعمال کیا گیا ۔بولنے والوں کو جس میں سیاسی کارکن ،وکلاء ،شاعر،صحافی،اہل دانش او ر اساتذہ شامل تھے کو جیلوں اور کوڑوں کی صعوبتوں سے گزارا گیا آمر ضیاء نے اپنے دور جہالت میں نظریاتی وار شروع کر دی تاکہ آئندہ سوال کرنے والے پیدا ہی نہ ہو ں۔
اس کیلئے بڑے سلیقہ کے ساتھ مذہب کا استعمال کیا گیا،درس گاہوں کو بھی سوچ اور پروگریسیو نظریے کی مقتل گاہ بنا دیا گیا۔نصاب سے لیکر معلم تک سب کو اس کام کیلئے استعما ل کیا گیا۔لسانی اور علاقائی تعصب کی پنیری بھی لگائی گئی اور آہستہ آہستہ ایشیاء سرخ ہے سرخ ہے ،ایشیاء سبز ہے سبز ہے کے نعرے لگانے والے بڑے تحمل اور دلیل سے اپنے اپنے نظریات کی پرچار کرنے والے گالی اور گولی کے کلچر سے آشنا ہوئے اور یوں یہ سلسلہ چلتے چلتے ‘پین دی سری تک آن پہنچا‘۔
سوال کرنے والا زیر عتاب ٹھہرا تعلیم کے میدان سے لیکر سیاست تک نو سپیس لکھ دیا گیایہ سلسلہ 1980سے چلا ہے اور آج تک چلتا آرہا ہے ۔چند روز پہلے پروفیسر حسن ظفر بھی اسی سلسلہ کی نذرہو گئے۔ پروفیسر حسن ظفر عارف کا شمار پاکستان کے ذہین ترین پروفیسرز میں ہوتا تھا ۔وہ ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم (لندن)کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر بھی تھے، انہوں نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ سے ماسٹرز ،برطانیہ سے ڈاکٹریٹ اور امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
حسن ظفر زمانہ طالب علمی سے سوال کرنے اور سوال کرنے کیلئے طلبا کو اکسانے کے عادی تھے وہ ترقی پسند تحریک کے سرگرم کارکن رہے جامعہ کراچی میں فلسفہ کے لیکچرار بھرتی ہونے کے بعد ترقی پسند تحریک سے منسلک ہو گئے ۔کراچی یونیورسٹی میں انہوں نے ٹیچرز سوسائٹی کے قیام میں اہم رول ادا کیا۔وہ ایم آر ڈی تحریک میں بہت سرگرم اور پیش پیش رہے اور پھر اسی جرم میں انہیں نوکری سے نکال دیا گیااور کافی عرصہ جیل میں بھی رہے۔ ان کی سیاسی وابستگی کچھ عرصہ پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ سے بھی رہی اور ان کا آخری سیاسی پڑاؤ ایم کیو ایم لندن تھا ایم کیو ایم میں بھی انہیں اشتعال انگیز تقاریر کرنے پر پابند سلاسل کیا گیا۔
اپریل 2017میں وہ انسداد دہشت گردی کی عدالت سے رہا ہوئے اور پھر شاید حسن ظفر سے اور ان کے سوالوں سے خوفزدہ قوتوں نے انہیں زندگی سے ہی رہائی دینے کی ٹھان لی ۔حسن ظفر روایت سے ہٹ کر استاد تھے اور اپنے طلباء اور طالبات کو بیچ چوراہے میں لے کر بیٹھ جاتے اور ان کی سوچ پر جمی روایتی خوف کی تہہ کو کھروچتے رہتے وہ مارکس کے شیدائی تھے اور مارکسزم کے کیپسول نوجوانوں میں بانٹتے رہے مگر تعجب ہے اس سماج پہ جس کا ہم حصہ ہیں یہاں طاقت رکھنے والے سوالوں سے خوفزدہ ہیں ، روشنی سے خوفزدہ ہیں۔
شاید وہ جانتے ہیں سوال کی روشنی اتنی تیز ہوتی ہے کہ ان کے چہروں پر چڑھے ماسک کے اندر کتنے بھیانک چہرے ہیں ان سے آنے والی نسلوں کو آگاہ کر سکتی ہے۔ اس لئے ہر سوال کرنے والے کو مار دیا جائے مگر کیا ایسا سماج کبھی ترقی کر پائے گا جو سوال سے ڈرتا ہے ، جو شاعر سے ڈرتا ہے ،جو سوال کر کے صدیوں سے سوچ پر جمی روایتی تابعداری کا زنگ اتارنے والے پروفیسر سے ڈرتا ہو۔جو بے نظیر جیسی نڈر اور بے باک سیاستدان سے ڈرتا ہو، جو تعلیم کی شمع جلانے والی ملالہ سے ڈرتا ہو،جو کچی آبادیوں کے غریبوں کے حقوق کے لئے بات کرنے والی پروین رحمن سے ڈرتا ہو،جو چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اپنے کیفے ٹیریاپر بٹھا کر فلسفہ بیان کرنے والی سبین سے ڈرتا ہو ، جو کسی مظلوم کی آواز بننے والے راشد رحمن سے ڈرتا ہو ،جو بھر دو جھولی یا مصطفی کا ورد کرنے والے امجد صابری سے ڈرتا ہو، جو اقلیتوں کے حقوق کی بات کرنے والے شہباز بھٹی سے خوفزدہ ہو، جو ایک روشن خیال سلمان تاثیر سے ڈرتا ہو۔
مجھے یقین ہے کہ ایسا سماج ایک دائرے میں بند ہو جاتا ہے ہم نہ صرف معاشی بلکہ نظریاتی بحران کا بھی شکا ر ہو چکے ہیں۔اور ہمارے ماہرین معاشی بحران سے نکلنے کے گر تو بتاتے ہیں نئی نئی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں مگر نظریاتی بحران سے نکالنے کیلئے کوئی آگے آنے کو تیا ر نہیں جو آگے بڑھتا ہے اسے مار دیا جاتا ہے۔ 72سالہ حسن ظفر سے آخر کسی بھی قوت کو کیا خطر ہ تھا کہ اسے اتنی بے دردی سے مار کر پھینک دیا گیا کیا وہ 72سالہ شخص بڑی قوت کو ہلانے کی سکت رکھتا تھا یا اس کا جرم صرف اپنی پسند نا پسند تھا یا حسن ظفر کے قتل سے و ہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر اس نگر میں رہنا ہے تو ہماری مرضی سے رہنا ہوگا ورنہ تشدد شدہ لاش ملے گی،یا گھر والے تصویر اٹھائے ڈھونڈتے پھریں گے التجا کریں گے زندہ نہیں تو مردہ ہی واپس لوٹا دو۔دفنا کے دل کو تسلی تو دے لیں۔
کیا کوئی بابا رحمتے سوال کرنے والوں کو بچا پائے گایا صرف دودھ اور میڈیکل کالجز پر ہی ساری توجہ مرکوز رہے گی۔کیا بابا رحمتے حسن ظفر کے بیہمانہ قتل پر سوموٹو ایکشن لے گا اور قاتل کو ڈھونڈے گا یا پھر مجبوریوں کے قصے سنا کر خاموش ہو جائے گا ۔آخر کب تک یہ سلسلہ چلے گا کیا ہم اپنے بچوں کو ورثہ میں وہی خوف دیں گے جو 1980سے ہمارا نصیب ہے ہم نصیحت کریں گے سوال نہیں کرنا جو ہو رہا ہے ہونے دوجو دیکھو اس پہ مٹی پاؤکی پالیسی اپناؤ ورنہ تمہارا انجام بھی مشال اور حسن ظفر جیسا ہوگا۔
یا ہم اس روایت کو توڑنے کیلئے آگے بڑھیں گے ہم سوال کرنے والے کی قدر کریں گے اور سوال سے ڈرنے والوں کو یہ باور کروائیں گے کہ سوال کا جواب دینا سیکھو زبان پر خوف کے تالے لگانے سے نہ تو یہ سماج پنپ سکتا ہے اور نہ ہی تمہاری فرعونیت ،کیا 72سالہ پروفیسر کو مارتے ہوئے ایک لمحے کو بھی کسی جنگجو کے دل میں یہ خیال نہیں آیا ہوگا کہ ایک معلم کو مارنے کے بعد میں اپنے بچوں کو کیسا سماج دے پاؤں گا کیا لاٹھی اور گولی کی سرکار ہی میری آنے والی نسلوں کو ورثے میں ملے گی ۔
♦