ہم نے پی ٹی وی کے دور میں میں آنکھ کھولی۔ ہمارا شعور اس کے سائے میں پروان چڑھا۔ ہم سے زیادہ کون جانتا ہے کہ پروپیگنڈا کیا ہوتا ہے۔ ہم لوگ ریاستی پروپیگنڈے کے سائے میں پیدا ہوئے، بڑے ہوئے۔ ظاہر ہے یہ ہمار انتخاب نہیں تھا۔ ہماری مجبوری تھی، یہ پروپیگنڈا ہم پر مسلط کیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا کے دور میں پروان چڑھنے والوں کو، چینل بدلنے کے لیے ہر وقت ریموٹ کنٹرول ہاتھ میں رکھنے والی نسل کو ، شائد یہ بات سمجھ میں نہ آئے کہ پروپیگنڈا مسلط کیسے کیا جا سکتاہے۔
یہ بتانے سے پہلے میں یہ بتاتا چلوں کہ پروپیگنڈا آخر ہوتا کیا ہے ۔ پروپیگنڈا کا سادہ زبان میں مطلب کسی ایک فلسفے، خیال یا چلن کو فروغ دینے کی کوشش کرنا ہے۔ لفظ پروپیگنڈا کا ہمارے ہاں غلط تلفظ بھی کیا جاتا ہے، اور اس کے غلط معنی بھی لیے جاتے ہیں۔ یعنی ہمارے ہاں عام طورپر جھوٹی اور بے سروپا باتوں کو پروپیگنڈا کہا جاتا ہے۔ شاید اس کی وجہ تاریخ میں اس لفظ کے ساتھ جڑی ہوئی غلط یادیں ہیں۔ بڑے پیمانے پر یہ لفظ شاید پہلی بار1622 میں ویٹی کن میں استعمال ہوا۔ یہاں پر عیسائی عقائد کی تبلیغ کے لیے ایک دفتر قائم ہوا۔ اس دفتر کا نام ، دفتر برائے فروغ عقیدہ، رکھا گیا۔ یہاں سے عیسائی مذہب کے مخالفین یا خود عیسائیت کے دوسرے فرقوں نے لفظ پروپیگند منفی معنی میں استعمال کیا یا اسے جھوٹ کے ساتھ جوڑا۔
سیاسی سطح پر اس اس کا زیادہ عام استعمال بیسویں صدی میں شروع ہوا۔ ریاستوں نے جنگوں کے لیے عوام سے حمایت کے حاصل کرنے یا دشمن کے خلاف بے بنیاد باتیں پھیلانے کو پروپیگنڈا کا نام دیا۔ پہلی جنگ عظیم میں اس پروپیگنڈ ے کے ذریعے امریکہ برطانیہ نے خود کو جمہوریت اورآزادیوں کا نقیب اور اپنے مخالفین کو بربریت کی علامت بنا کر پیش کیا۔ جنگ اور جنگوں سے جڑی تباہی کی وجہ سے اس لفظ کے ساتھ ایک منفی تاثر پیدا ہوا۔ مگر پروپیگنڈا کا عمل ہمیشہ موجود رہا ، یہ حکومتوں کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کی شکل میں اب بھی موجود ہے۔
جس وقت ہمیں ٹی وی دیکھنا نصیب ہوا، ہمارے سامنے صرف پی ٹی وی ہی تھا۔ یہ شائد پاکستان کی تاریخ کا سب سے کڑا وقت تھا۔ یہاں تاریخ کا بدترین مارشل لا مسلط تھا۔ حکمران پاکستان کے تمام شہریوں کو بندوق اور لاٹھی کے زور پر جنت میں لے جانے کے عزم کا ا علان کر چکے تھے۔ اس عزم کی جھلکیاں دن رات پی ٹی وی پر دکھائی دیتی تھیں۔ ٹی وی پر کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں دیکھنا اس کا اختیار دیکھنے والے کے پاس نہیں،دکھانے والوں کے پاس ہوتا تھا۔ آپ کس وقت کس فرقے کے عالم دین کا خطاب سننے پر مجبور ہیں ؟ کب نور جہاں کا میرے ڈھول سپاہیا ولا گانا سننا ہے اور کس وقت نعت شریف کی سماعت کرنی ہے یاحکومت کی توصیف پر مبنی ایک طویل پروگرام جسے خبر نامہ کہا جاتا تھا، اسے سننا ہے، یہ فیصلہ اس وقت آپ کے اختیار سے باہر ہو جاتا جب آپ ٹی وی دیکھنے کا فیصلہ کر لیتے۔
چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ پروپیگنڈا کیا ہو تا ہے، اور یہ حکمران طبقات کے ہاتھوں میں کس قدر خوفناک ہتھیار بن سکتا ہے۔ اس پروپیگنڈا کے زیر اثر ہم نے برسوں سے ساتھ والی کرسیوں پر بیٹھے ہوشمند دوستوں کے اندر سے علم و شعور کے سوتے خشک ہوتے دیکھے۔ جو سامراج دشمن مشہور تھے ان کوداڑھیاں بڑھا کر افغان جہاد میں شامل ہوتے دیکھے۔ جو جمہوریت کی خاطر لڑے تھے۔ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے لیے پس دیوار زنداں رہے تھے ، ان میں سے کچھ صف دشمناں میں جا بیٹھے۔ ریاستی سرپرستی میں کیے جانے والے اس پروپیگنڈے نے ایک پوری نسل کو کنفیوزڈ کر دیا تھا۔ مگراس پروپیگنڈے کے پورے اثرات اب ظاہر ہو رہے ہیں۔ اس کے مظاہر مختلف شکلوں میں ہمیں آئے روز دکھائی دیتے ہیں۔
ہم پی ٹی وی کے دور سے نکل گئے۔ اب ہم ریموٹ کنٹرولز، کیبل ٹی وی، ڈسک، یو ٹیوب، فیس بک، ٹوئیٹر، انسٹاگرام اور پتہ نہیں کس کس کے دور میں زندہ ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں ریموٹ ہے۔ ہماری پہنچ سوشل میڈیا ہے۔ مگر نہ جانے ہمیں کیوں لگتا ہے کہ ہمارے دور کی گھٹن، ڈر اور خوف پی ٹی وی کے دور سے زیادہ ہے۔ پی ٹی وی کے سائے ابھی موجود ہیں اور پہلے سے زیادہ گہرے ہیں۔ تب مارشل لا تھا۔ یعنی جبر کے قوانین میں سب سے بڑا قانون۔ لاٹھی گولی کی سرکار تھی۔ مگر پھر بھی ہمیں چند ایک باتوں کے سوا کئی ایسی باتیں کہنے کی آزادی تھی جو آج نہیں ہے۔
اس وقت مسئلہ ایک جابر حکومت بنام عوام تھا۔ اگر آپ حکومت کے خلاف کچھ نہ کہیں، جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات نہ کریں، اسیروں کی رہائی کا مطالبہ نہ کریں، فوجیوں کو بیرکوں میں جانے کا مشورہ نہ دیں، تو کسی کو آپ سے کوئی خاص غرض نہیں تھی۔ اس وقت تک عوام کے نام پر گلی کے غنڈے ابھی سامنے نہیں آئے تھے۔ مذہب کے خود ساختہ ٹھیکیدار کم تھے۔ غیرت، عزت و آبرو کے نام پر قتل گاہیں سجانے کا رواج نہیں چلا تھا۔ ہتک و توہین کے نام پر بندے اٹھانے اور غائب کر دینے کی ریت نہیں تھی۔ مگر ان خیالات کے لیے پروپیگنڈا ضرور ہو رہا تھا۔ اس پروپیگنڈے کے کئی ذرائع تھے۔
مگر جیسا کہ عرض کیا ایک بڑا ذریعہ ریاستی ٹیلی ویثرن تھا۔ اس کے بعد اردو کے دو تین بڑے اخبار، تین چار چھوٹے اخبار، چند ایک ہفت روزے اور چند ڈائجسٹ تھے۔ اردو کے ان دو بڑے اخبارات کے ادراتی صفحات اور نیوز رومز سے ہوشمند یا روشن خیال لوگ پہلے ہی ایک ایک کر کے نکال دیے گئے تھے۔ جو باقی تھے وہ ہمہ وقت اپنی صفائیاں پیش کرنے اور نوکری بچانے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ اس دور میں ان اخبارات میں ایڈیٹر کے نام پر بے شک کوئی روشن خیال بابا بیٹھا ہو فیصلے کہیں اور ہوتے تھے ، حکم کسی اور کا چلتا تھا۔ ان دنوں ان دو تین اخبارات کے ا دارتی صفحات پر جو کچھ چھپتا تھا وہ ایک خاص قسم کے خیالات کے پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا۔
ہفت روزوں کا یہ عالم تھا کہ ہر شمارے میں اہل اقتدار کو تاریخ اسلام کے عظیم کردار بنا کر پیش کرتے تھے۔ وہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں کے سیاسی نظریات اور اقتدار پر قبضے کی خوا ہشات کو اسلام کا عظیم پیغام قرار دیتے۔ اردو کے ڈائجسٹوں نے اس دوڑ میں اخبارات اور ہفت روزوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
ان ڈا ئجسٹوں میں کہانیاں نہیں، ایک ہوشمند سماج کو پاگل پن میں مبتلا کر دینے کے نادر نسخے ہوتے تھے۔ ہر دوسری کہانی میں غیرت کے نام پر عورت کا قتل ہوتا۔ قتل کرنے والے باپ، بھائی، چچا یا ماموں کو ایک انتہائی پاک باز، ایمان دار، دکھوں کا مارا ہواشخص بنا کر پیش کیا جاتا۔ یہ بے چارہ خاندان کی عزت ، ایمان و حیا کے نام پر اپنی بہن، بیٹی یا بہو کو موت کے گھاٹ اتارنے پر مجبور کیا جاتا۔ ہر دوسری کہانی میں ایسے کردار تخلیق کیے جاتے جو ایمان اور محب وطن کے نام پر پاکستان کے دشمنوں کو قتل کرنے کے بعد اپنی خون آلود تلوار لیکر کشمیر اور فلسطین کا رخ کرتے۔ وہ اسرائیل کے اندر گھس کر یہودیوں کے اور ہندوستان اندر جاکر کافروں کا سر قلم کرتے۔
ان کہانیوں میں ایسے لافانی ہیرو تخلیق جاتے جو کشمیر و فلسطین فتح کرنے کے بعد یورپ اور امریکہ کی طرف نکل جاتے اور کفر کی سر زمیں پر اسلام کے جھنڈے گاڑتے۔ اس طرح ابلاغ کے یہ اہم ذریعے کلی وقتی طور پر اسلام کی بالا دستی اور مقدس جہاد کے نام پر دہشت گردی اور قتل و غارت گردی کا درس دیتے رہے۔ آج ہم اپنے ارد گر جو زہر آلود فضا اور جنون دیکھ رہے ہیں، اس میں ان ڈائجسٹوں، اخبارات اور سرکاری ٹی وی کا کافی بڑا حصہ ہے۔
♦