مستونگ حملے کے دو ہفتے بعد ہی بلوچستان میں ایک اور خودکش حملہ ہوا ہے۔اس حملے میں کم از کم اکتیس افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔ تین درجن سے زائد زخمی بتائے گئے ہیں۔ پاکستانی ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
تازہ ترین حملے نے پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہونے والے بم حملے کا نشانہ ایک پولیس وین بتائی گئی ہے۔ اس حملے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا مقامی میڈیا اور انتظامی و طبی حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے۔ کوسٹہ کے سول ہسپتال کے ڈاکٹر محمد جعفر نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو اٹھائیس ہلاکتوں کا بتایا ہے۔ ان میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔
ہلاک شدگان میں پولیس اہلکار اور عام شہری شامل ہیں۔ مقامی پولیس افسر عبدالرزاق چیمہ کا کہنا ہے کہ بظاہر اس حملے کا نشانہ پولیس کی موبائل وین دکھائی دیتی ہے۔ یہ حملہ کوئٹہ شہر کے مشرقی بائی پاس کے قریب ہوا ہے۔ پاکستانی ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
شدت پسند تنظیم اسلامک سٹیٹ نے اس بات کا اعتراف اپنی نیو ز ایجنسی اعماق پر جاری ایک بیان میں کیا ہے۔
یہ بم دھماکا ایسے وقت میں کیا گیا جب کوئٹہ سمیت سارے بلوچستان اور ملک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے ووٹنگ جاری ہے۔ بلوچستان کے کئی پولنگ اسٹیشنوں کو پہلے ہی حساس قرار دیا جا چکا ہے۔
بعض پاکستانی میڈیا کے مطابق یہ ایک خود کش حملہ تھا۔ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ سول ہسپتال میں اٹھارہ نعشیں پہنچائی جا چکی ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ بلوچستان صوبے میں ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے خلاف انتہا پسند سنی تنظیمیں فعال ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ قوم پرست گروپ بھی مسلح سرگرمیوں میں ملوث خیال کیے جاتے ہیں۔
مستونگ میں خود کش حملے میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت دیڑھ سو کے قریب انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
♥