عوامی نیشنل پارٹی کے جلسے میں منگل کے روز ہونے والے خود کش حملے میں مرنے والوں میں سے گیارہ افراد کو پشاور میں سپرد خاک کردیا گیا۔ دوسری طرف مرنے والوں کی تعداد 21 ہو گئی ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے جلسے میں منگل 10 جولائی کو یہ خودکش حملہ اس وقت ہوا جب عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہارون بشیر بلور انتخابی مہم کے سلسلے میں پشاور کے علاقہ یکہ توت میں ایک کارنر میٹنگ میں شریک تھے۔ جونہی انہیں تقریر کے لیے اسٹیج پر بلایا گیا اس وقت دھماکہ ہوا جس میں ہارون بشیر بلور سمیت اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق اکیس افراد جان بحق جبکہ باسٹھ زخمی ہیں۔
اس واقعے پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تین دن تک اس سانحے کا سوگ منائیں گے جبکہ اس کے بعد انتخابی سرگرمیاں جاری رکھی جائیں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گرد عوامی نیشنل پارٹی کو میدان سے باہر رکھنا چاہتے ہیں وہ پیٹھ پر وار کرنا چھوڑ دیں اور سامنے آ کر مقابلہ کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے میدان نہیں چھوڑیں گے۔ اسفندیار ولی کے مطابق پہلے بھی عوامی نیشنل پارٹی کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی کوششیں کی گئیں لیکن اس میں بھی انہیں ناکامی ہوئی، تین روزہ سوگ کے بعد پارٹی کا اجلاس بلائیں گے اور اس میں آئندہ کا لائحہ عمل تیار کر کے کارکنوں کو اس کے مطابق انتخابات میں حصہ لینے کا کہیں گے
ملک بھر کے سیاسی جماعتوں کے قائدین نے ہارون بلور پر ہونے والے خود کش حملے کی مذمت کرتے ہوئے الیکشن کو پرامن اور شفاف بنانے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ سیاسی کارکنوں، پارٹی رہنماؤں اور عوام کی ایک بڑی تعداد ہارون بلور کی رہائش گاہ پہنچ گئے۔
اس خود کش دھماکے بعد پشاور بھر کی فضا سوگوار رہی۔ زیادہ تر بازار بند رہے جبکہ تاجر تنظیموں سمیت پشاور بار کونسل نے بھی تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے بھی اس سانحے کے حوالے سے ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سابق مرکزی صدر افراسیاب خٹک اور مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار نے میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا، ’’یہ سانحہ ہمارے لیے بھولنے کا نہیں ہے لیکن اے این پی کبھی بھی دہشت گردوں کے سامنے نہیں جھکے گی۔ دہشت گردوں کی کوشش ہے کہ اے این پی کو میدان سے ہٹا دیں لیکن ہم ان کی اس کوشش کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ الیکشن میں حصہ لیں گے اور عوام سے یہی اپیل کریں گے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف اے این پی کا ساتھ دیں ہم اس واقعے کی فوری تحقیقات اور حقائق عوام کے سامنے لانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے ہارون بشیر بلور کو گزشتہ عام انتخابات میں بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس دھماکے میں 17 افراد جان بحق ہوئے تھے جبکہ ان کے والد بشیر احمد بلور کو اسی طرح دسمبر دو ہزار بارہ میں ایک خود کش حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
پشاور پولیس کے سربراہ قاضی جمیل کے مطابق، ’’یہ ایک خود کُش دھماکا تھا اور حملہ آور پہلے سے ہی جلسہ گاہ میں موجود تھا۔‘‘ بم ڈسپوزل اسکواڈ کے سربراہ شفقت ملک کے مطابق اس دھماکے کے لیے دس کلو گرام بارود استعمال کیا گیا۔
پولیس کے انسپکٹر جنرل محمد طاہر نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انوسٹی گیش ٹیم تشکیل دی ہے جو سات دن کے اندر رپورٹ تیارکرے گی۔ ادھر پولیس نے پشاور بھر میں سیکورٹی سخت کردی جبکہ علاقے میں سرچ آپریشن بھی جاری ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پشاور کے حلقہ پی کے 78 میں انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ادھرخیبر پختونخوا کے نگران وزیر اعلٰی جسٹس ریٹائرڈ دوست محمد خان نے کابینہ کے ہنگامی اجلاس کے دوران واقعے کی فوری تحقیقات کرنے اور جلد سے جلد رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سوشل میڈیا میں اس دھماکے کی شدید مذمت کی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا میں جنازے کی ویڈیو گردش کررہی ہے جنازے میں شریک ہزاروں افراد یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے۔
پیپلز پارٹی کےر ہنما فرحت اللہ بابر نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ہارون بلورکی شہادت کی ایف آئی آرجناب ثاقت نثار کے خلاف درج کیا جانا کیاجانے چاہیے کیونکہ انہوں نے ایک شہید کے بیٹے سے سیکیورٹی واپس لے کر دراصل دہشت گردوں کو موقع فراہم کیا کہ آجاوجس باپ کو شہید کیا تھااس کے بیٹے کو بھی شہید کر دو۔
سلمان حیدر نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے فخر سے ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ حفاظت جن کی ذمہ داری ہے وہ کم بخت شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔۔۔
DW/News Desk