بلاول بھٹو کی والدہ کو قتل کر دی گئی تھیں، ان کے نانا کو ایک فوجی آمر نے پھانسی پر لگوا دیا تھا، لیکن اس خونی تاریخ کے باوجود بے نظیر کے 29 سالہ بیٹے 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے لیے بھر پور مہم چلا رہے ہیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ بلاول اپنے آپ کو پاکستان کا وزیر اعظم منتخب کروانے کے عزم سے پہلی مرتبہ انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ وہ سندھ کی عوام میں ایک مرتبہ وہی جذبہ بیدار کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو ان کی والدہ اور ان کے نانا کی قیادت میں عوام میں نظر آتا تھا۔
بلاول نے 20 فٹ بلند بلٹ پروف بس میں بیٹھے روئٹرز کو بتایا کہ ان کی والدہ کہتی تھیں کہ انہوں نے اپنے لیے اس زندگی کا انتخاب نہیں کیا تھا، انہیں یہ زندگی دی گئی تھی۔ بلاول کی رائے میں وہ بھی اپنی زندگی کے بارے میں یہی سوچتے ہیں۔
بلاول کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں انتخابات سے قبل خوف کی فضا ہے لیکن وہ نڈر ہیں۔ پاکستان میں کئی سیاسی کارکنان اور تجزیہ کاروں کی رائے میں پاکستان کی طاقت ور فوج نے انتخابات سے قبل ’خوف کی فضا‘ بنا دی ہے۔ بلاول آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ عمران خان کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں جو کہ انہی کی جماعت کے ممکنہ اتحادی بن سکتے ہیں۔
بلاول کی مہم کے دوران سینکڑوں افراد نے ان پر گلاب کی پتیاں نچھاور کیں۔ بلاول پر اعتماد بھی ہیں اور خوش بھی لیکن پاکستان میں انتخابی عمل اتنا آسان نہیں ہے۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں لگ بھگ نصف حصہ فوج نے پاکستان میں حکومت کی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون نے پاکستان کی فوج اور عدالتوں پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹایا اور یہ عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات جیتنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔
دوسری جانب عمران خان نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ وہ مسلم لیگ نون کو ایک ’کرپٹ مافیا‘ کہتے ہیں۔ پاکستان کی فوج نے بھی ان الزماات کو مسترد کیا ہے کہ وہ انتخابی عمل میں کسی قسم کی مداخلت کر رہے ہیں۔
سنہ2013 کے انتخابات میں سیکیورٹی ایجنسیوں نے پیپلز پارٹی اور اے این پی کی انتخابی مہم کو دہشت گردی کے حملوں کے خدشے میں محدود کر دیا تھا ۔ جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی اور اے این پی کےقائدین اپنی انتخابی مہم نہیں چلا سکے تھے۔گو پیپلز پارٹی پر اس دفعہ بھی دباو ہے لیکن اس بار مسلم لیگ نواز ان ایجنسیوں کا خصوصی نشانہ ہے۔
بلاول کا کہنا ہے،’’میرے خیال میں پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا خاصہ سرگرم کردار رہا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی اس کے خلاف ہے۔‘‘ بھٹو زرداری کہتے ہیں،’’یقینی طور پر یہ احساس موجود ہے کہ کہ کچھ امیدواروں پر دباؤ ہے اور کچھ سیاسی جماعتوں کی ضرورت سے زیادہ حمایت کی جارہی ہے، میرے خیال میں سب کو پاکستانی عوام پر بھروسہ کرنا چاہیے۔‘‘۔
بلاول کے قافلے کا آغاز سندھ کے تاریخی شہر ٹھٹہ سے ہوا ہے۔ اس کے بعد یہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ بھی جائے گا۔ گیلپ کے حالیہ سروے کے مطابق ملک میں صرف 17 فیصد عوام میں پاکستان پیپلز پارٹی مقبول ہے۔ پارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج بلاول کے والد آصف علی زرداری کی ساکھ کو بہتر بنانا ہے۔ پی پی پی کے کچھ اراکین کا کہنا ہے کہ آصف زرداری کے خلاف مالی بدعنوانیوں کے الزامات پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں کیوں کہ سیاسی حریف عمران خان کا سیاسی بیانیہ ہی مالی بد عنوانیوں کے خلاف ہے۔
اگرچہ بلاول وزیر اعظم بننے کے عزم سے سیاسی مہم چلا رہے ہیں لیکن بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی زیادہ سے زیادہ جیتنے والی سیاسی جماعت کی اتحادی جماعت بن سکتی ہے۔ لیکن بلاول کس جماعت کے ساتھ اتحاد بنائیں گے؟ اس بارے میں بلاول کہتے ہیں،’’عمران خان نفرت کی سیاست کر رہے ہیں، وہ شاید اس بنیاد پر انتخابات تو جیت جائیں لیکن یہ پاکستان اور پاکستان کے نوجوانوں کے لیے بہت خطر ناک ہوگا۔‘‘
بلاول کہتے ہیں کہ وہ صرف اقتدار میں نہیں آنا چاہتے بلکہ اپنی والدہ کی پالیسیوں کو ایک مرتبہ پھر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے،’’ ہمیں بی بی کا وعدہ پورا کرنا ہے، ہمیں پاکستان بچانا ہے۔‘‘ بلاول کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ فخر کی بات کیا ہوگی کہ ایک بیٹا اپنی والدہ کے نا مکمل مشن کو پورا کرنے چلا ہے۔
DW/News Desk