منیر سامی
ہم اور آپ اکثر پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے دور رس فیصلوں کے بارے گفتگو کرتے ہیں۔ ان فیصلوں کا پاکستان کے عوام اور سیاست پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ جن میں پاکستان کے وزیرِ اعظم کی برطرفی اور نااہلی کے معاملات بھی شامل ہیں ، اور دیگر آئینی معاملات بھی ۔ پھر ہم پاکستان کی اعلیٰ عدالت کے اعلیٰ منصف کے اس رویہ کے بارے میں تشویش کرتے ہیں جس میں فاضل منصف اپنے سامنے پیش ہونے والوں کے ساتھ بد زبانی کرتے ہیں اور درشتی سے پیش آتے ہیں۔ یا پھر کسی ذیلی عدالت کے منصف کی تذلیل کرتے نظر آتے ہیں۔
اور اب تو فاضل مصنف نے پاکستان کے دریاوں پر بند باندھنے کے لیئے چندے جمع کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس اعلان کے بعد پاکستان کی مسلح افواج کے افسروں اور سپاہیوں نے اس ضمن میں اپنی تنخواہیں وقف کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے بارے میں فیصلوں کا اختیار صر ف پاکستان کی صوبائی اور وفاقی حکومت کا استحقاق ہے۔حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کا اثر صرف پاکستان پر ہی ہوتا ہے۔ ہاں کبھی کبھی اس کے سیاسی فیصلوں یا سیاسی معاملات میں دخل اندازی کی باز گشت بین الاقوامی میڈیا تک بھی پہنچ جاتی ہے لیکن صرف ایک چھوٹی خبر کی حد تک۔
پاکستان کے بر خلاف دنیا کی بعض اعلیٰ عدالتوں میں ایسے فیصلے ہوتے ہیں جن کا اثر دنیا بھر میں انسانی حقوق، بین الاقوامی تعلقات، اور روز مرہ کی زندگی پر ہوتا ہے۔ ان عدالتوں کے فیصلوں کی نظیریں دنیا کی دیگر عدالتوں کے فیصلوں پر بھی گہرا اثر ڈالتی ہیں۔
ایسی عدالتوں میں امریکہ کی اعلیٰ عدالت یا امریکی سپریم کورٹ شامل ہے۔ امریکہ میں نو منصفوں پر مشتمل اس عدالت کے فیصلوں کی باز گشت اور ان کا اثر ہی ہے جس کے نتیجہ میں امریکی جمہوریت اور اس کے سیاسی نظام کا ارتقا ہواہے۔ اس عدالت کے فیصلے امریکہ کے آئین کی تفہیمات کے بارے میں حتمی سمجھے جاتے ہیں۔ کسی بھی آئینی فیصلہ کے بعد اس میں تبدیلی یا ردو بدل میں بیسیوں سال لگ جاتے ہیں۔ یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ امریکہ کا آئین وہاں کے شہریوں کے لیئے مذہبی صحیفوں کے بعد ایک انسانی صحیفہ جانا جاتا ہے۔ ایسا صحیفہ کہ جو امریکہ میں قانون سازی کو مذہبی صحیفوں سے دور رکھنے کا ضامن ہے۔
امریکہ کا سیاسی نظام دیگر ممالک کی طرح تین اداروں یعنی مقننہ ، عدلیہ ، اور انتظامیہ کے درمیان ایک بہت ہی محتاط توازن پر قائم ہے۔ امریکی جمہوریت ، صدارتی طرزِ حکومت پر قائم ہے۔ جہاں صدر کے حقوق اور استحقاق بہت زیادہ ہیں۔ ان اختیارات کو آمرانہ نہج پر پہنچنے سے محفوظ رکھنے کے لیئے مقننہ کے دو ایوان اور عدلیہ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ امریکہ کے عوام کو کسی ایسی مقننہ کے فیصلوں سے محفوظ رکھنے کے کے لیے جس میں اکثریت کا ظالمانہ یا غیر منصفانہ رویہ شامل ہو، امریکہ کی اعلیٰ عدالت اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ اس کا ہر فیصلہ نو رکنی مکمل بنچ کا فیصلہ ہوتا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کا چناو امریکہ کے نہایت بااختیارصدر کا ایک نہایت اہم استحقاق ہے۔ صدر کو اعلیٰ عدالتوں کے چناو کا حق حاصل ہے۔ اس میں توازن رکھنے اور اسے ایک حد تک غیر جابندارانہ بنانے کے لیے امریکی مقننہ کا اعلیٰ ایوان ، یا سینیٹ، صدر کے نامزد کردہ جج کے بارے میں نظرِ ثانی کا ذمہ دار ہے۔ وہاں کا سیاسی نظام اس طرح کا ہے کہ اکثر صدارت ایک جماعت کا ہوتا ہے ، اور اس کی مقننہ کے دو ایوان صدر کی جماعت سے مختلف جماعت پر مشتمل ہو سکتے ہیں۔ ایسا خال خال ہی ہوتا ہے کہ صدر، اور مقننہ کے دونوں ایوان ایک ہی جماعت کی اکثریت والے ہوں۔ اس طرح سے وہاں کے سیاسی نظام میں توازن اور بھی یقینی ہوجاتا ہے۔
امریکہ کی اعلیٰ عدالت کے آئینی فیصلوں کی اہمیت کی وجہ سے وہاں سپریم کورٹ کے منصف کی نامزدگی نہایت اہم ہوتی ہے۔ امریکی سپریم کورٹ کے منصفوں کی مدت تا حیات ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ یہ منصف اپنے سیاسی اور آئینی نظریات بھی رکھتے ہیں۔ ان نظریات میں بھی قدامت پرستی یا آزاد خیالی شامل ہوتی ہے۔ امریکہ میں ریپلیکن پارٹی، قدامت پرست نظریات کی جماعت ہے، اور ڈیموکریٹک پارٹی ، آزاد خیال نظریات والی جماعت جانی جاتی ہے۔ یہ دونوں جماعتیں یہ کوشش کرتی ہیں کہ اعلیٰ عدالت کے منصف ان کے نظریات کی طرف جھکاورکھتے ہوں۔
سالہا سال سے اس عدالت میں قدامت پرست اور آزاد خیال، تقریباً برابر تعداد میں شامل تھے۔ ان کے اکثر فیصلے پانچ اور چار کی اکثریت سے ہوتے رہے ہیں۔ کئی فیصلوں میں کوئی ایک جج قدامت پرستی یا آزاد خیالی کے حق میں فیصلہ کرکے توازن کو قائم رکھنے میں مدد کرتا نظر کرتا نظر آتا رہا ہے۔
فی الوقت امریکہ میں یہ صورت ہے کہ وہاں صدر، اور مقننہ کے دونوں ایوان قدامت پرست جماعت کے نمائندہ ہیں۔ دونوں ایوانوں میں قدامت پرست جماعت کی اکثریت ہے۔اس صورتِحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے،سخت قدامت پرست امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کو اعلیٰ عدلیہ میں ایک ایسے جج کو متعین کرنے کا موقع ملا کہ وہاں عدالت پانچ قدامت پرست اور چار آزاد خیال ججوں میں واضح طور پر منقسم ہو گئی۔
حال ہی میں وہاں سپریم کورٹ کے ایک ایسے جج نے ریٹائر ہونے کا اعلان کر دیا ہے جو کبھی قدامت پرست اور کبھی آزاد خیال ججوں کا ساتھ دیتے تھے۔ اس کے نتیجہ میں صدر کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اب ایک اور قدامت پرست جج کو نافذ کردیں اور عدالت میں چھ جج واضح طور پر قدامت پرست ہو جائیں۔ اس ہفتہ انہوں نے ایسے ہی ایک جج کو نامزد کردیا۔ اس نامزدگی کی مقننہ کے اعلیٰ ایوان میں توثیق یقینی ہے۔ اس نامزدگی کے بعد شدید خطرہ ہے کہ امریکہ میں انسانی ، سماجی، اور معاشرتی حقوق کے بارے میں کئی سابقہ فیصلے تبدیل ہو جائیں گے۔ یا کچھ ایسے نئے فیصلے سامنے آئیں گے جو امریکہ میں حقوق اور معاشرتی انصاف کے نظام کو قدامت پرستانہ بنا دیں۔
ان فیصلوں میں خواتین کا اسقاطِ حمل کا حق، تعلیمی اداروں میں سیاہ فاموں کے حقوق، روز مرہ کے معاملات میں مذہبی مداخلت، تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے حقوق ، غیر ملکوں کے امریکہ میں داخلے کا حق، اور ایسے ہی کئی دیگر معاملات شامل ہیں۔دنیا بھر میں آزاد خیالی ، معاشرتی انصاف، اور انسانی حقوق کے عمل پرستوں کو اس صورتِ حال پرتشویش ہے۔ اب یہ امکان بڑھ رہا ہے کہ امریکی معاشرے کا جھکاو قدامت پرستی کی طرف ہو جائے۔ جس کے نتیجہ میں دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی قدامت پرستی میں شاید اور اضافہ ہو۔
♦