بیرسٹر حمید باشانی
انتخابات میں اب دس گیارہ دن باقی ہیں۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے بہت تاخیر سے اپنے انتخابی منشور جاری کیے ہیں۔ ہر ایک منشور میں بہت کچھ قابل بحث ہے۔ بہت کچھ قابل تحسین ہے اور قابل اعتراض بھی۔ ہر جماعت کے انتخابی منشور پر کئی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ مگر اب انتخاب کا ہنگامہ اپنے عروج پر ہے۔ ہمارے اردگرد اتنا شور ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہاں کوئی سنجیدہ بات نہ کہی جا رہی ہے، نہ ہی کوئی سننے کے لیے تیار ہے۔ میڈیا کے ایک بڑے حصے میں اپنی اپنی پسندیدہ شخصیات اور جماعتوں کی عظمت کے ڈھول پیٹے جا رہے ہیں۔
سیاسی جماعتیں اپنی دوڑ کا آغاز کر چکی ہیں۔ اب گھوڑے تو قانونی طور پر نہیں بدلے جا سکتے۔ مگر بیانیے بدلنے پر کوئی قانونی قد غن نہیں ہے۔ بیانیہ انتخاب والے دن بھی بدلا جا سکتا ہے۔ اور انتخابات کے فورا بعد تو ہمارے ہاں بیانیہ لازمی بدلتا ہے۔
کامیابی کا حلف اٹھانے کے فورا بعد مگر ہمارے لیڈر ایک متفکر بلکہ غمگین چہرہ لے کر سامنے آتے ہیں۔ مسکراہٹ کی جگہ مایوسی اور اداسی کے سائے ہوتے ہیں۔ پھر وہ عوام کو انتہائی درد ناک آواز میں بتاتے ہیں، کہ گزشتہ حکومت نے سب لوٹ لیا۔ سب تباہ کر دیا۔ ہمیں ورثے میں بھاری قرضوں، خالی خزانوں اور مسائل کے انبار کے سوا کچھ نہیں ملا۔ وہ ملک کو تقریبا دیوالیہ کر گئے۔ اب سمجھ نہیں آتا کہ کیا کریں؟ ۔
وہ معصومیت سے سوال پوچھتے ہیں۔ گو یا منتخب ہونے سے پہلے ان کو کوئی خبر نہ تھی کہ کتنے قرضے واجب الادا ہیں۔ خزانے میں کتنے پیسے ہیں۔ اور عوام کے مسائل کیا ہیں۔ پھر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ہم تو آپ کی خدمت کا سچاجذبہ لیکر آئے تھے۔ آپ کے مسائل دیکھ کر ہماری راتوں کی نیندیں اڑ گئیں۔ دن پریشانی میں گزرتے ہیں۔ مگر کیا کریں، ہم بے بس ہیں۔ آپ کے بے پناہ مسائل حل کرنے کے لیے جتنے بڑے وسائل درکار ہیں ، وہ ہمارے پاس ہیں ہی نہیں۔
سادہ لوح عوام یہ درد ناک کہانی سن کر اپنے غم بھول جاتے ہیں ، اور حسب معمول رہنماوں کے غم میں شریک ہو جاتے ہیں۔ فاقہ کشی کرتے ہیں، روکھی سوکھی کھا لیتے ہیں، بے روزگاری کا عذاب سہتے ہیں۔ دوائی دارو کے لیے تڑپتے ہیں۔ بچوں کو دو وقت کی روٹی نہیں دے سکتے۔ ان کو سکول پڑھانے کی سکت نہیں رکھتے۔ مگر زبان پر حرف شکایت تک نہیں لاتے ، کہ لیڈر کا غم ان کے غم سے بڑا ہے۔
یہ ایک کامیاب نفسیاتی ہتھیار ہے ، جو استعمال کر کہ لیڈر آرام سے بری الذمہ ہو سکتا ہے۔ ہر طرح کی جوب دہی سے بچ سکتا ہے۔ جب وسائل ہی نہیں ، تو مسائل کا کیا ذکر کرنا اور حل کا کیا فکر ہے ؟ یہاں ایک بنیادی سوال مگرضرور اٹھتا ہے، عوام یہ پوچھ سکتے ہیں کہ جب آپ انتخابی ریلیوں اور منشوروں میں ہمیں سبز باغ دیکھا رہے تھے، تو کیا آپ کو یہ خبر نہیں تھی کہ آپ کے پاس یہ وسائل کہاں سے آئیں گے۔
آپ کی پارٹی کے پاس ممکن ہے کوئی باقاعدہ تھنک ٹینک نہ ہو، کہ ہمارے ہاں غور فکر کا رواج ویسے بھی کم ہے ، مگر مجلس عاملہ اور سنٹرل کمیٹی تو ہر پارٹی کے پاس ہے۔ کیا آپ کے ان پارٹی اداروں میں کوئی ماہر معاشیات نہیں، یا ایسا کوئی سوجھ بوجھ والا شخص جو اپنے رہنما کو یاد دلا سکے کہ مسائل کے حل کے لیے وسائل کا ہونا ایک بنیادی شرط ہے۔ دنیا کے بیشتر مادی مسائل مادی وسائل کے بغیر حل نہیں ہوسکتے۔ کیا آپ کے پاس ایک بھی ایسا دانا ادمی نہیں ، جو آپ کو بتا سکے کہ عوام سے جان بوجھ کر جھوٹے وعدے ، اور سبز باغ دیکھا کر ووٹ لینا دھوکہ دہی، اور بدیانتی ہے، بے شک آپ اسے سیاست کا بڑا نام دے دیں۔
عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے دوسرا عام بہانہ یہ ہوتا ہے کہ جناب ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ اس بہانے کو ایک یونین کونسل کی سطح سے لیکر پارلیمان اور مرکزی حکومت کی سطح پر بڑی چابک دستی سے استعمال کیاجاتا ہے۔ کوئی اپنے ہاتھوں پر باندھی ہوئی نادیدہ ہتھکڑیاں لہراتا ہے۔ کوئی کہتا کہ ہمارے پاس تو بجٹ بنانے تک کا اختیار نہیں۔ کوئی کہتا ہے بجٹ کا ایک بڑا حصہ تو صرف ناگزیراخراجات کی مد میں اٹھ جاتا ہے، یہ ایک غریب ملک ہے۔ ہم اتنے پیسے کہاں سے لائیں، جن کی ضرورت ہے۔ گویا انتخابات میں شاندار کامیابی سے پہلے ان کو یہ بھی خبر نہیں تھی کہ بجٹ کیسے بنتا ہے، اور اس کا سانچا کیا ہے۔
سادہ سی بات یہ ہے، جو ہمارے گامے ماجھے بھی جانتے ہیں، کہ کوئی بھی حکومت کسی بھی مد میں جب کوئی پیسہ خرچ کرے گی، تو اس کے لیے بجٹ میں ایک رقم مختص کرنی پڑتی ہے۔ گزشتہ کئی دھائیوں سے پاکستان کے بجٹ کا ایک بنا بنایا سانچا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہمارے بجٹ میں کچھ سٹیک ہولدرز ہیں، جن کے لیے بجٹ مختص کرنا پڑتا ہے۔
مثال کے طور ہر دفاعی اخراجات کا اپنے ایک خاص بجٹ ہے، برس ہا برس سے اس بجٹ میں کمی کبھی نہیں ہو ئی، مگر اضافہ ضرور ہوتا رہا ہے۔ اچانک کوئی حکومت آکر اس بجٹ میں کٹوتی نہیں کر سکتی۔ یہ قدم اٹھانے کے لیے چند بنیادی شرائط کا پورا ہونا لازم ہے۔ ان میں سے ایک شرط دوسرے ممالک کے ساتھ تنازعات کا منصفانہ حل ڈھونڈنا ہوگا۔ دوسرے ممالک کے ساتھ اعتماد و بھروسے کا رشتہ قائم کرنا ہوگا۔ مکمل امن قائم کرنا ہو گا۔
مگر یہ کام اچانک حکومت میں آکر نہیں کیے جاسکتے۔ ان کاموں کا ایک مکمل خاکہ آپ کو انتخابی منشور میں پیش کرنا ہوتا ہے۔ جزئیات سمیت اپنے عوام کو بتانا ہوتا ہے کہ آپ کے دوسرے ممالک کے ساتھ کیا تنازعے ہیں۔ مثال کے طوریہ کہنا کافی نہیں کہ آپ مسئلہ کشمیر حل کریں گے۔ یہ تو ہر پارٹی ستر برس سے ہر دور میں کہتی رہی ہے۔ اس کے بجائے یہ بتانا ضروری ہے کہ آپ کے نزدیک مسئلہ کشمیر ہے کیا ؟ اوراس اس کا حل کیا ہے ؟ آپ مسائل پر عوام سے مینڈیٹ لیتے ہیں۔ اور اس مینڈیٹ کے زور پر آپ اپنی پالیسیوں میں مطلوبہ تبدیلی لاتے ہیں۔
تنازعات کے منصفانہ تصفیے کرتے ہیں۔ امن کی فضا قائم کرتے ہیں، خطروں سے بے نیاز ہوتے ہیں، تب جا کر آپ ببنگ دہل یہ کہتے ہیں کہ ملکی سلامتی اب کوئی خطرہ نہیں رہا۔
چنانچہ اب ہمیں اپنے دفاع پر اس قدر بھاری اخراجات کی چنداں ضررورت نہیں ہے۔ چنانچہ اس مد سے آپ بجٹ کاٹ کر تعلیم یا صحت پر لگاتے ہیں، سکول اور ہسپتال تعمیر کرتے ہیں۔ بھوک اور ننگ ختم کرتے ہیں۔ دفاعی بجٹ تو میں نے صرف بطور مثال پیش کیا۔ یہی فارمولہ زندگی کے ہر شعبے پر صادق آتا ہے۔ چنانچہ میں نے ان ہی سطور میں پہلے عرض کیاتھا، کہ جو لوگ آپ سے دودھ اور شہد کی نہروں کے وعدے کرتے ہیں ، ان سے پوچھا جانے کا پہلاسوال یہ ہو گا کہ وسائل کہاں سے آئیں گے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ انتخابات کے دوران ایک دیانت دارانہ اور بے لاگ مکالمے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مکالمے کے زریعے عام آدمی بھی یہ جان جاتا ہے کہ آنے والی حکومت کیا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اور اس کے لیے وسائل کہاں سے لائے گی۔ اس طرح انتخابی عمل جھوٹے وعدوں، غلط بیانیوں، اور دھوکہ دہی کے مرحلے سے نکل کر ایک ایسے مرا حلے میں داخل ہو جاتا ہے، جہاں عوام مسائل سے پوری آگہی کے بعد اپنی رائے دیتے ہیں۔ وہ امیدواروں سے غیر ضروری اور من پسند توقعات و ابستہ نہیں کرتے۔
اس طرح عوام انتخابات کے نام پر باربارجھوٹ اور فراڈ کے دائرے میں گول گول گھومنے کے بجائے، ایک حقیقی شفاف اور دیانت درانہ سیاسی اور جمہوری عمل سے گزرتے ہیں۔ اس عمل کا تسلسل بلاخر عوام کو اپنے آپ پر خود حکومت کرنے کا حق عطا کرتا ہے، جو بنی نوع انسان کا دیرینہ خواب ہے، اور جمہوریت کا اوج کمال ہے۔
♦