حبیب شیخ
میں کروڑوں سال پہلے وجود میں آیا ۔ تب سے میں ندیوں، جھیلوں ، دریاوں میں تیرتا رہتا ۔ کبھی بادل بن کر سیر کرتا اور اس جہاں کی خوبصورتی پر عش عش کرتا ۔ جب میرا دل چاہتا تو کسی دریا کا حصہ بن جاتا جہاں سے میں تیرتا ہوا سمندر میں گر جاتا۔ کبھی جنگات میں گرتا اور پھر بخارات میں تبدیل ہو کر دوبارہ بادل بن جاتا ۔ کبھی میں صحراوں میں برس کر انہیں سرسبز کر دیتا ۔ پھر میں کھیتوں کو سیراب کرتا ۔ کبھی برف بن کر اڑتا پھرتا اور لمبے آرام کے لئے کسی گلیشیئر کا حصہ بن جاتا۔
کبھی میں سورج کی شعاعوں کو خود میں سے گزار کر قوس قزح بناتا۔ پھر میں کبھی آسمان پر اتنی بجلی پیدا کرتا کہ اس کی ایک چمک سے بیابان اور شہر روشن ہو جاتے ۔ میرا دل مچلتا تو ایک منجدھار بن جاتا۔ مجھے آبشار بنانا بہت اچھا لگتا ہے ۔ میری آبشاروں کو عجائبات میں شمار کیا جاتا ہے ۔
جب تالابوں میں ننھے منے بچے میرے ساتھ تیرتے اور مجھ سے کھیلتے تو مجھے بہت مزہ آتا ۔ دریائوں اور سمندروں میں بڑے بڑے جہاز میرے ساتھی ہوتے اور میں ان کا بوجھ خوشی سے برداشت کرتا ۔ میرے زریعے ہی دو پیروں والی مخلوق نے دور دراز خطوں کو دریافت کیا۔ غرض کہ میں نے ہر طرح اس سیارے کی تمام مخلوقات کی زندگیوں کو پروان چڑھایا ۔
میں ہمیشہ صاف ستھرا رہتا ۔ اگر مجھے تیرنے والی ، اڑنے والی یا چلنے والی کوئی مخلوق نگل لیتی تو تھوڑی دیر بعد میں باہر آتا اور خود کو صاف کر لیتا ۔ درخت ، مچھلیاں ، پرندے ، چار پیروں والے جانور، دو پیروں والے جانور سب میرے ساتھ ہم آہنگی سے رہتے ۔
لیکن کچھ عرصہ پہلے میری کایا پلٹ گئی !۔
میں ایک دریا میں ہنستا گاتا تیرتا ہوا جا رہا تھا ۔ ابھی تھوڑی ہی دور گیا تھا تو دیکھا کہ لال اور پیلے رنگ کے مواد چند دھواں چھوڑنے والی عمارتوں میں سے دریا میں گر رہے تھے ۔ یہ بہت ہی زہریلے اور بدبودار کیمیائی مرکبات تھے ۔ انہوں نے مجھے بیمار کر دیا ۔ میں خود کو دوبارہ صحت مند نہیں کر سکا۔ بلکہ اُنہوں نے میری ہئت ہی بدل ڈالی۔ مجھے خود پتہ نہیں کہ میں کیا بن گیا ہوں ۔ لیکن اب میں شاید پانی نہیں ہوں بلکہ کوئی مہلک اور خوفناک چیز میں تبدیل ہو چکا ہوں ۔ مجھے اپنے وجود پر شرمندگی ہے ۔ اب میں اس زمین کی مخلوقات کو صرف نقصان پہنچا سکتا ہوں ۔
یہ دو پیروں والی مخلوق کیسی ہے جو خود کو اشرف المخلوقات کہتی ہے۔ اس نے مجھے بیمار کر دیا حالانکہ اس کی زندگی کا دارومدار میری صحت پر ہے!۔
♦
9 Comments