ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ معاشرے میں بسنے والے دیگر لوگ ان کی فکر وبیان پر عمل کریں اور ان کے کہنے کے مطابق تمام لوگ بدل جائے مگر دوسروں کو بدلنے کی خواہش رکھنے اور سوچنے والے بذات خود اپنی سوچ واپروچ کوبدلنے کے لئے تیار نہیں ہوجاتے ۔ وہ اندرونی موسم بدلنے کی بجائے بیرونی موسم بدلنے کاہمیشہ طلب گار رہتے ہیں ۔ یہ ماننے اور سمجھنے کے باوجو دکہ وقت وزمان کے ساتھ تبدیلی اپنانے سے ماضی پرستی، توہم پر ستی اور تکراور کا بوجھ کم ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی دوسروں کوبدلنے کاخواب دیکھنے والے خود کو تکرار وتقلید کے د ائرے میں مقید رکھتے ہیں ۔
نہ جانے کیوں وہ جس تغیر و تبدل کو دوسروں کے لئے بہترسمجھتے ہیں اور اس میں اپنے لئے بنجر پن معلوم ہوتا ہے ۔ شاید اس خوف وڈر سے وہ ہرنئی تبدیلی اور جدید سائنسی طرز وفکر کو ر وکنے کے لئے ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ ان کااپنا ذاتی قدر وقیمت کم نہ ہوجائے ۔ اہل ادب وسیاست اپنی پند ونصیحت پر خود عمل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔تمام زر اور زور کے خلق کیلئے اپنے ذاتی مفادات قربان کرے ورنہ خلقی شعور سے سرشار افراد ان کو عوامی رنگ میں بدلنے میں دیر نہیں کرتے۔
بظاہر تو ہر تبدیلی ہوا کے ایک ہلکے جھونکے یاوقت کی ایک ہلکی کروٹ سے جلوہ گر ہوتی ہوئی نظرآتی ہے مگر تبدیلی چاہے انفرادی ہو یا اجتماعی کبھی اکیلی نہیں آتی۔ ہر تبدیلی کے پس منظر اور پیش نظر میں بہت سارے ظاہر و پوشیدہ مختلف عوامل کار فرما ہوتے ہیں ۔ جس طرح بہت سے سیاسی ،معاشی ، معاشرتی ، موسمیاتی اور ذاتی کاوشیں مل کر ہی ایک نئی تبدیلی کو رونما کردیتی ہے ۔ بالکل اس طرح رونما ہونے والی تبدیلی کے اثرات بھی زندگی کے مختلف معاملات اور عوامل پر اثر انداز رہتی ہے ۔ا س طرح ہر تبدیلی کے ر ونما اور اثرا نداز ہونے کے مختلف پہلو ہوتے ہیں ۔خارج اور داخل کے جدلیاتی وحدت کو سمجھنے کے بعد ہی تبدیلی کا بخوبی احاطہ کیا جاسکتا ہے ۔
محسن ہمارے ساتھ عجب حادثہ ہوا
ہم رہ گئے، ہمارا زمانہ چلا گیا
تبدیلی فطرت کاقانون ہونے کے باوجود کم نظر اور ڈرپوک لوگ نئی تبدیلی کواختیار کرنے میں جھجک اور ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں ۔ تبدیلی کے ایسے مخالف لوگ جدیدیت کے ثمرات سے محروم رہتے ہیں ۔ نئی سائنسی ایجادات وانکشافات سے بے خبر رہتے ہیں اور ان کے دشت فکر رنگ ونور کی بارش سے سیراب نہیں ہوتا ۔ ان کی یہ خود غرضانہ اورعوام دشمن حقیر مفادات اور بے مقصد مخالف ، مستقبل میں ان کی اپنی پریشانی اور پشیمانی کاباعث بن جاتی ہے حالانکہ وقت تو اپنی رفتار کے ساتھ مسلسل آگے کی طرف بڑھتارہتا ہے لیکن انسانی رویوں سے بہت سارے منفی اور مثبت رجحانات جنم لیتے ہیں ۔
بعض نئی سائنسی تبدیلیوں نے ہماری روایات وثقافت میں دو ریوں کوجنم دیں ۔ مثلاً ہماری ثقافت کامادی حصہ تو بڑی تیزی سے تبدیلی ہورہا ہے جبکہ غیر مادی حصہ عقائد، نظریات ،رسومات اور بالخصوص جاگیردارانہ ذہنیت میں تبدیلی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ مادی اور غیر مادی ثقافت میں عدم توازن سے لوگ میں ذہنی کشمکش پیدا ہوچکا ہے ۔ ہم سائنسی چیزوں مثلاً ذرائع ابلاغ ، ٹرانسپورٹر اور الیکٹرونکس کے سامان کو خرید کر روز مرہ زندگی میں استعمال کرتے ہیں ۔ جس سے وقت وتوانائی کی بچت کی جاتی ہے ۔
ہم سائنسی ایجادات اپناتے ہیں مگر جدید معاشی ،سیاسی اور سائنسی نظریات اور طرز فکر کو اختیار کرنے سے کتراتے ہیں حالانکہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی مدد سے آج کا انسان اپنی آواز سے بھی تیز رفتار کرنے کاقابل بن گیا ۔ انسان کے وجود کوٹیوب میں پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی اور پوری دنیا کے حالات و واقعات کو ایک ڈبہ ٹی وی سیٹ میں بیان کرنے اور دکھانے کاخواب شرمندہ تعبیر ہوا ۔ کئی دنوں کاکام اب چند لمحوں میں سرانجام دینا ممکن ہوا لہذا اب سائنسی ایجادات کے سائنسی فکر ونظر اختیار کرنے کاوقت آپہنچا ہے مخالفت کرنے صر ف انسانیت کاکاررواں سست روی کاشکار تو ہوسکتا ہے مگر سائنسی نظریات کی اہمیت و افادیت میں کمی نہیں آتی ۔بہتر یہی ہوگا کہ آنے والے کل میں پشیمانی کے ساتھ بدلنے کی بجائے آج ہی بدل جائے ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانی زندگی کچھ دو اور کچھ لو کے اصول کے تحت آگے بڑھتی ہے ۔ پانے اور کھونے ،مانگنے ا ور قربان کرنے اور بھول جانے اور یاد رکھنے کا سلسلہ موت تک جاری وساری رہتا ہے ۔ وقت وحالات کے ساتھ چلنے میں انسان کی آرام طلبی اور ملنساری ، یابت شکنی اور بت پرستی کی بنیاد انسانی نفسیات اور رویوں سے شروع ہوتی ہے ۔ رجعت پسند لوگ ہمہ وقت خوف وڈر طاری کرنے کے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں اپنی ماضی سے چمٹ رہنے کی تاکید کرتے ہیں ۔
نئی فکر اور نئی ایجاد کو سب کیلئے زحمت گردانتے ہیں جبکہ ترقی پسند لوگ کسی چیز کی اچھائی وبرائی کو مثبت ومنفی انسانی ضروریات کے ساتھ مربوط کرتے ہیں ۔ ماضی کارشتہ حال سے اور حال کامستقبل سے استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مایوسی کے اندھیروں میں نئی امید کی کرنیں تلاش کرنے کی جستجو کرتے ہیں اور بیلتوں سے پیوستوں کی جانب گامزن رہتے ہیں ۔ہماری بد بختی یہ ہے کہ ہم روز مرہ معاملات میں بھی خوف ولالچ کے ماتحت اظہار وبیان کرتے ہیں اپنی زندگی میں اپنے فیصلے صادر کرنے کیلئے بھی دوسروں کے اشارہ کامنتظر ہوتے ہیں ۔
مختصر یہ کہ ہماری اپنی زندگی میں بھی ہماری اپنی مرضی شامل نہیں ہوتی ۔ ہم دوسروں کے علم وذہانت کاپرچار تو کرتے رہتے ہیں مگر اپنے وجود کی حکمت وطاقت سے نا واقف رہتے ہیں جب ہم اپنی نظروں میں حقیر ہوتے ہیں تو دوسروں کی نظر کیا ہونگے ؟ دوسروں کواتنا بڑا عالم وذہین کہنے سے ہماری اپنی کج فہمی اور کم علمی ظاہر نہیں ہوتیں؟
ہمارے تمام مسائل ومشکلات میں ہمارے اپنے اعمال وافعال سے بھی زیادہ ہمارے ارباب اختیارات کی ناقص منصوبہ بندی اور استحصالی پالیسیوں کی وجہ سے ہیں ۔ وہ معاشرتی تبدیلی کی شرح کم اور زیادہ کرسکتے ہیں ۔ تعلیمی اور تحقیقی ادارے ان کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں ۔جدیدیت کے ثمرات سے محروم معاشرہ جمود ہی شکار ہوتا ہے اس کا فائدہ چند مخصوص لوگوں تک محدود رہتا ہے جبکہ ایک صحت مندانہ معاشرہ مختلف ارتقائی مراحل سے گزرنے کے ساتھ ساتھ ہرفرد کے دامن کو شعور وآگہی سے بھرتا ہے ۔
اس ضمن میں گل باچا الفت ہمیں ہردم تازہ دم اور پرُدم بننے کیلئے اپنے معروضی حالات سے سبق سکھاتے ہوئے کہا کہ بہتا ہوا پانی جتنا بھی تازہ ہوا گر اس کا بہاؤ روک دیاجائے تو پانی کا خالص پن ختم ہوجانا شروع ہوتا ہے ۔ بالکل اس طرح رنگ بدلنے لگتا ہے ، پانی کاٹھہراؤ بدبو اور بیماریاں پھیلانے کاباعث بنتا ہے اس طرح ٹھہرے ہوئے پانی میں مینڈک اور کچھو ے وغیرہ ہی خوش ہوتے ہیں ۔
بالکل اس طرح ایک باغبان چھوٹے چھوٹے پودے لگاتا ہے ۔ پھر وہی پودے وقت کے سائے دار اور پھلدار درخت بن جاتے ہیں ۔ زمین کے اندر اورباہر سونڈیوں سے بچنے کیلئے اس پودوں پر اسپرے کیاجاتا ہے ۔ اس کے غیر ضروری شاخوں کو تراشتا رہتا ہے ۔ ارد گرد جھاڑیوں کاصفایا کیاجاتا ہے ۔ اس سب کچھ کے باوجود ایک وقت متبادل درخت لگا نے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ یہ سب کچھ شر وع سے لے کر آخر تک تک بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ باغبان کااپنا باغ جنگل کی شکل اختیار کرسکتا ہے ۔لہذا باغ کے در ختوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نئے متبادل پودے لگانا بھی ضروری ہے جس کے لئے نہال خانے کو بروئے کار لایاجاتا ہے ۔
آج ہمارے سامنے یہ سوالات طے کرنا ضروری ہیں کہ ہمارے امن کدہ کو ماتم کدہ میں کیوں اور کس نے تبدیل کیا؟ثورگل اور صنوبر کے مداحوں کو جنونیت کا انجکشن کس نے لگایا؟ دنیا بھر کے محکوموں ، محروموں اور مظلوموں کی محبت میں رہنے والے باشندوں کو وحشت ودہشت کی راہ پر کس نے لگایا ؟ زندگی کے اس تسلسل سے جو اقلیتی حکمران طبقہ سبق نہیں سیکھتا اس کو معاشرے کی عظیم اکثریت خوب سبق سکھا دیتی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زندگی سے فرار اختیا کرنے کی بجائے اصل حقیقتوں کاسامنا کیاجائے ۔ میں اپنے مضمون کااختتام ان اشعار پر کرنا چاہتا ہوں ۔
میری صدا کو دبانا تو خیر ممکن ہے
مگر حیات کے مہکار کون روکے گا
فصیل آتش وآہن بہت بلند سہی
بدلتے وقت کے رفتار کون روکے گا
نئے خیال کی پرواز روکنے والے
نئے عوام کی تلوار کون روکے گا
♦