جمیل خان
نندیتا داس نے گجرات، ہندوستان کے فسادات پر ایک فلم ’’فراق‘‘ بنائی تھی۔ 2009ء میں ریلیز ہونے والی یہ فلم ہم نے اسی برس دیکھ لی تھی، کہ ایسی فلمیں جن سے ہندوستان دشمنی کے جذبات پر تیل چھڑکنے میں مدد ملتی ہو، کیبلز والے فوراً ہی دکھانا شروع کردیتے ہیں۔
کل اتفاقاً یہ فلم نو برس بعد ہمارے سامنے آئی تو ہم نے دوبارہ زیادہ گہرائی اور توجہ سے دیکھی۔ 2002ء میں ہوئے مسلمانوں کے اس قتل عام اور اجتماعی ریپ کے واقعات کو پوری حساسیت کے ساتھ اس فلم کے ذریعے دیکھنے والے کے دل و دماغ پر نقش کرنے کی کو شش کی گئی ہے۔
نہ تو اس میں مسلمانوں کو اس قتلِ عام کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی گئی ہے اور نہ ہی فسادات کی ابتداء کے حوالے سے کوئی ایسا تاثر دیا گیا ہے کہ اس سے مسلمانوں پر کوئی انگلی اُٹھ سکے، بلکہ زندہ بچ جانے والے افراد کا ڈر، خوف اور اپنے پیاروں کو اپنے سامنے مرتے لٹتے ہوئے دیکھنے کی اذیت بلکہ خواتین کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعات کا تذکرہ، املاک لوٹے جانے، پولیس کی جانبداری، مقامی گجراتی ہندوؤں میں سے کچھ کی تعصب پسندی کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے۔
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، کراچی و حیدرآباد میں ایسے کئی قتل عام دیکھ چکے ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والے قتل عام کے اندوہناک اور جگر کو چھلنی کردینے والے چشم دید واقعات پڑھے ہیں بلکہ بعض پر تو تحقیقی کام میں بھی شریک رہے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ اخباری نوعیت کے کام تھے، چنانچہ خبر کو خبر دبادیتی ہے اور لوگ بھول جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر پنجاب میں مسیحی بستیوں پر حملے، قتل عام ، لوٹ مار اور آتشزنی کے دل دہلادینے والے واقعات…. خبر کو خبر دبادیتی ہے، اب کسے یاد ہوگا؟ لیکن جن پر گزری ہے، وہ تو شاید ایک دو نسل تک بھلا نہ پائیں۔
کہانی، افسانہ اور آج کے دور میں سب سے زیادہ دیرپا اثر کرنے والی جدید صنفِ لطیف فلم کے مناظر، مکالمے، کردار بُھلائے نہیں بھولتے۔کیا ہمارے ملک میں ہونے والے ایسے ان گنت قتل عام کے واقعات پر کبھی کوئی فلم بنانے کی ہمت کرے گا؟ لاہور میں جب ملک کا پہلا مارشل لاء لگا، تو اس سے قبل احمدیوں کا قتل عام کیا گیا تھا، ختم نبوت کے محافظوں نے ان کی املاک لوٹ لی تھیں اور بعض جگہ تو زندہ انسانوں کو گھروں کے ساتھ نذرآتش کردیا گیا تھا۔
کوئٹہ کے شیعہ ہزارہ کے ساتھ دو دہائیوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس پر کوئی ڈرامہ کوئی دستاویزی فلم الیکٹرانک میڈیا پر دکھائی گئی ہے؟
ہم نے تو نہیں دیکھی…. کیا کوئی ادیب، شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار ان کے دکھوں کا اندازہ نہیں کرسکا؟
ملک میں شیعہ کافر کے نعرے کے ساتھ برپا ہونے والے قتل و غارتگری کے کتنے ہی واقعات اب تو ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہوچکے ہیں۔
کراچی میں تو ایسے ڈاکٹروں کو بھی قتل کردیا گیا، جو مسلکی لحاظ سے سنی تھے، لیکن نام ان کے جعفر، حسن، حسین، علی، رضوی وغیرہ تھے۔ اگر کوئی ان مقتولوں کی گنتی کرنے بیٹھے تو معلوم ہو کہ تعداد سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے۔
برادرِ محترم حُرعباس نقوی گزشتہ روز کراچی کے قبرستان ’’وادیٔ حسین‘‘ گئے، اور وہاں کی ایک وڈیو بھی پوسٹ کی۔ انہوں نے تحریر کیا ….’’آج شیعہ بھائیوں کے قبرستان ’وادیِ حُسین‘ کراچی جانے کا اتفاق ہُوا۔ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہر تیسری قبر دہشت گردی کے شکار شہید کی تھی اور بعض جگہ تو چھ چھ، آٹھ آٹھ اکھٹی قبریں شہداء کی تھیں۔ حیرت اور بڑھی جب دیکھا کہ %90 شہید پچیس سال کی عمر تک کے تھے…!‘‘۔
ہر قبر کے ساتھ نامعلوم کتنی روح فرسا داستانیں ہوں گی؟
پاکستان کی تاریخ کا آغاز ہی قتل و غارتگری سے ہوا تھا اور ستر برس میں اس کی تاریخ خون آلود ہے۔ ہم کراچی کی بات کریں تو ہم یہاں تیس برس تک خانہ جنگی دیکھ چکے ہیں۔نجانے ہمارے صحافی، مؤرخ اور دانشور کراچی کے ان تیس برسوں کو خانہ جنگی یا قتل عام کیوں نہیں لکھتے؟
انہیں کسی نے بتایا نہیں کہ کراچی کے علاقے مواچھ گوٹھ میں واقع ایدھی کے قبرستان میں ڈھائی لاکھ بے نام قبریں موجود ہیں، جن میں دفن لاشوں کی شناخت نہیں ہوسکی، چنانچہ ان کے کتبوں پر نمبر درج ہیں، اور ان نمبروں کا رجسٹروں میں اندراج ہے، جہاں ان کی موت کی تاریخ لکھی ہے اور ان کی ناقابلِ شناخت اور خون آلود تصاویر چسپاں ہے۔
ان تیس برسوں میں بہت سے برس ایسے بھی گزرے ہیں، جب ہم نے ہر دوسرے تیسرے دن موت کو اپنے اردگرد رقصاں دیکھا ہے۔ اپنے کانوں کے قریب سے گزرتی ہوئی گولیوں کی سنسناہٹ سنی ہے۔ کتنے ہی بم دھماکوں سے بال بال بچے ہیں۔
فراق فلم کے ایک کردار خان صاحب ہیں، جو کلاسیکی موسیقی کے بلندپایہ استاد ہیں، ان کے شاگردوں میں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ وہ فسادات سے دل گرفتہ ہیں، لیکن وہ ہردم ایک ہی بات کرتے ہیں کہ یہ مت کہو کہ مسلمان مررہے ہیں، یہ کہو کہ انسان مر رہے ہیں۔
ہماری فکر بھی ہر حال میں یہی رہی۔ ہمارے سامنے کے بچے بھائی بن گئے…. بھتہ، لوٹ مار ان کا پیشہ بن گیا، اور پھر بعض کو ان کے اپنے ہی رہنماؤں نے یا رینجرز نے بے دردی سے مار ڈالا۔
ہم نے شیعہ سنی فساد بھی دیکھا ہے، جب سنی اکثریت کے علاقوں میں شیعہ گھروں کو لوٹ لیا گیا تھا، اور جو سامان لوٹ کر لے جانا ممکن نہ تھا، انہیں توڑ پھوڑ دیا گیا۔
ہمیں وہ وقت بھی یاد ہے جب پشتون مہاجر فساد کے دوران اپنی بستی پر حملے کی افواہ کے بعد گھر چھوڑ کر نکلنا پڑا تھا، اور وہ وقت بھی نہیں بھولتا جب بلوچ مہاجر فساد کے دوران خوف کے عالم میں ہم بھرا پرا گھر اللہ کے آسرے پر چھوڑ کر نکلے تھے۔
نہ تو عام پشتون سے ہمارا کوئی جھگڑا تھا، نہ ہی بلوچ کے ساتھ کوئی اختلاف…. یہ تو چند غنڈوں کی لڑائی تھی، جو اُن میں بھی تھے اور ہم میں بھی….!۔
ہمارے اردگرد کے کتنے ہی نوجوان اُٹھالیے گئے، اور ان کا آج تک پتہ نہیں چل سکا۔ ان کا قصور کیا تھا؟ یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا۔
ہم ان حالات میں بھی اپنی اس فکر کو ترک نہ کرسکے، کہ کسی بھی قوم کا فرد پہلے انسان ہے، اس کے بعد وہ پنجابی، پٹھان، بلوچ، سندھی، ہندو، شیعہ یا مسیحی…. یہی وجہ تھی کہ ہماری ہر ایک سے سلام دعا برقرار رہی۔
جب ہمیں معلوم ہوا تھا کہ ہمارے محلے میں مونگ پھلیاں اور خشک میوے فروخت کرنے والے خان کو فسادات کے دوران قتل کردیا گیا ہے اور اس کا ٹھیلہ لوٹ لیا گیا ہے تو ہمارے گھر میں کئی دن تک باقاعدہ سوگ کی سی کیفیت رہی، اس لیے کہ رات کے وقت جب وہ گھنٹیاں بجاتا ہماری گھرکے سامنے سے گزرتا تو ہم اپنی بڑی بیٹی کے لیے تل کے لڈّو خریدا کرتے تھے۔
اس کے قتل کی خبر سن کر بیٹی رو پڑی تھی۔
ہمیں وہ دن بھی یاد ہے جب سائٹ ایریا میں حبیب بینک چورنگی پر ولیکا مل کی جانب جانے والے پل پر پولیس کی گاڑیاں کھڑی تھیں اور کسی کو اورنگی ٹاؤن جانے نہیں دیا جارہا تھا۔
ہم اپنے مرحوم چچا کے ساتھ ان کی گاڑی میں بیٹھے تھے اور ہمیں پیپلز اسٹیل ملز جانا تھا، ایک گھنٹے تک ہم وہیں کھڑے رہے اور پھر واپس لوٹ گئے۔
رات کو بی بی سی پر سیربین میں بتایا گیا کہ علیگڑھ کالونی پر حملہ ہوا ہے اور سینکڑوں لوگوں کو ہلاک کردیا گیا ہے، گھروں کو نذرآتش کردیا گیا ہے۔
غوث علی شاہ اس وقت سندھ کا وزیراعلیٰ تھا۔ سندھ کی انتظامیہ کو اس حملے کی خبر تھی یا پھر انہوں نے ہی اس حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ واللہ اعلم….!۔
مرنے والا کوئی بھی ہو، انسان ہوتا ہے، مارنے والے کے دل میں انسانیت کی رمق ختم ہوجاتی ہے۔ اگر مارنے والاآپ کی قوم کا فرد ہے تو جان لیجیے کہ وہ انسان نہیں ہے، آپ اس کا ساتھ دے کر انسانیت کے درجے سے گر جائیں گے۔
مرنے والا بھی انسان ہے، آپ کی قوم کا فرد نہیں ہے اور آپ اس کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں یا اس کے لیے جواز تراشتے ہیں تو بھی آپ حیوانی شعور سے بھی پست شعور کے حامل ہیں۔
♦
One Comment