انور عباس انور
نواز شریف آیا بھی اور جیل چلابھی گیا،بیوقوف اور نااہل انتظامیہ نے سارا دن پاکستان کو اذیت میں مبتلا رکھا۔ روڈ بلاک کرکے عام عوام جن میں محنت کش طبقہ کی اکثریت سارا دن خوار ہوئی۔ کئی باراتیں جو لاہور کے گرد و نواح میں آنی تھیں اور لاہور سمیت دوسرے شہروں سے دوسرے شہروں پہنچنا تھیں، ذلیل کردی گئیں۔خواتین ،بچوں اور بوڑھوں کو کئی کئی کلومیٹر پیدل چل کر شادی کے مقامات تک پہنچنا پڑا۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟
نواز شریف اور اسکی بیٹی لاہور سے کیا اکھاڑ کر ساتھ لے گئے؟ باقی صوبوں کی تو میں بات نہیں کرتا کہ وہاں کی نگران کابینہ کے کپتان کیسے ہیں،لیکن پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر ایسی شخصیت تشریف فرما ہے جو صاحب علم اور استاد ہے۔کالم نگار بھی ہیں اور اپنے طالب علموں کو لیکچرز اور کالموں میں اخلاقیات کا سبق پڑھاتے ہیں، جمہوریت کے تقاضوں کو اپنا موضوع بناتے ہوئے سابق حکمرانوں کی دھجیاں بکھیرتے رہے ہیں۔نہ جانے کرسی پر بیٹھتے ہی ان کے نظریات ،افکار اور سوچ کو کیا ہوا؟ جلسے جلوسوں کو جمہوریت کا خاصہ لکھنے والے ’’ ڈاکٹر پروفیسر سید حسن عسکری‘‘ فاشسٹ حکمران میں کیوں تبدیل ہوگئے؟
سرکاری ذرائع کے مطابق ’’لاہور میں چڑیا نے بھی پر نہیں مارا‘‘ حکومت کے پس پردہ ہدایتکاروں کے مطابق لاہور سارا دن پرامن اور پرسکون رہا۔ سوائے چند اکا دکا واقعات کے لاہور کے شہریوں اور ملک کے باسیوں نے قانون اور امن پسند ہونے کا ثبوت دیا ہے اور شہر سمیت پنجاب کے امن کو افراتفری میں تبدیل کرنے کے خواہش مند عناصر کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔
کچھ ایسا ہی تاثر سرکاری میڈیا نے دیا ہے۔مگر غیر سرکاری میڈیا نے لاہور سمیت پورے پنجاب کی جو صورتحال اپنے ناظرین کو دکھائی ہے اس نے نگرانوں کے تمام دعوؤں کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے اور حکمرانوں ،ان کے سرپرستوں اور حواریوں( یہاں پاکستان تحریک انصاف مراد نہ لی جائے) کو آئینہ دکھایا ہے۔
دیگر صوبوں سے قافلوں کی آمد کو روکنے کے لیے پنجاب کی سرحدیں بند کردی گئیں اور پنجاب کے داخلی راستے بھی رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردئیے گئے، موبائل فون سروس بھی بند رکھی گئی۔ جس سے لوگوں کی پریشانی میں اضافہ ہوا۔ میں یہاں ایک مثال پیش کرنا چاہوگاکہ میرے قریبی عزیز کی بیٹیوں کی شادیاں تھیں۔ باراتیں مریدکے پہنچنی تھیں ۔باراتوں کی آمد کا وقت شام سات بجے تھا ،اور مجھے اپنی فیملی کے ساتھ مریدکے پہنچنا تھا۔ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ ہم شرقپور شریف سے مریدکے کس طرح پہنچ پائے۔ اور باراتیں بدو خاکی کوٹ عبدالمالک تحصیل فیروزوالا اور گجرانوالہ سے پہنچنی تھیں ۔سو وہ پہنچ تو گئیں مگر انتہائی ذلیل ہو کر۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی لاہور آمد پر نگرانوں اور اداروں کی بوکھلاہٹ دیکھ کر عوامی اور انقلابی شاعر جناب حبیب جالب کی وہ مشہور زمانہ نظم یاد آ گئی جو انہوں نے جنرل ضیا اور ان کے رفقائے کار کی جانب سے بینظیر بھٹو کے خلاف اقدامات کیے گئے، نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے
پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے
ڈرے ہوئے ہیں مرے ہوئے ہیں لرزیدہ لرزیدہ ہیں
ملا،تاجر،جنرل جیالے، ایک نہتی لڑکی سے
آزادی کی بات نہ کر، لوگوں سے نہ مل،یہ کہتے ہیں
بے حس ظالم،دل کے کالے، ایک نہتی لڑکی سے
دیکھ کے اس صورت کوجالب ساری دنیا ہنستی ہے
ملوانے کے پڑے ہیں پالے ایک نہتی لڑکی سے
پنجاب کی شاہراہوں اور لاہور کی گلی محلوں میں سارا دن سکیورٹی فورسز اور ن لیگی کارکنوں کے درمیان ہاتھاپائی کے مناظر دنیا بھر کو دکھا کر قومی کی برادری میں پاکستان کی جگ ہنسائی کروائی گئی۔ ایسا سب کچھ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ بقول پاکستان تھریک انصاف نگران حکومت نے اپنے ناتجربہ کاری اور نااہلی کا ثبوت دیا ہے۔یہ نااہل اور ناتجربہ کار نگرانوں کا انتخاب کس نے کیا ؟ برحال نگرانوں نے اپنی صوابدید پر یا کسی کے مشوروں پر جو کچھ کیا اس کی ضرورت نہیں تھی۔ نیب نے بھی دبئی اپنی ٹیم بھیج کر قومی خزانے پر بوجھ ڈالا۔ مجرم خود اپنی گرفتاری دینے آرہا ہے تو اسکا اپنی دھرتی پر استقبال کریں (ہتھکڑیاں لگائیں ) بیرون ملک جانے کا پنگا کیوں لیا۔ کیا دبئی پر پاکستان کی عمل داری ہے ؟جو وہاں جا کر اپنی مرضی کرسکتا تھا؟
ماضی میں بھی بہت سارے ایسے واقعات ہوئے۔حکمرانوں نے پابندیا ں لگائیں ،عوام کو جمع نہ ہونے دیا مگر اس وقت بھی سیاسی اور جمہوری کارنوں کی فتح ہوئی اور آج بھی جمہوریت کامیاب اور سرخرو ہوئی۔ حکمرانوں اور اداروں کے حصے میں خفت کے سوا کچھ نہیں آیا۔
بات تو اتنی مختصر سی تھی کہ نواز شریف نے آنا تھا اور گرفتار ہونا تھا سو وہ پاکستان آیا اور گرفتار ہوگیا۔ جمعہ کے روز جو تماشا لگا یا لگایا گیا اسکا فائدہ نواز شریف اور ن لیگ کو ہوا۔ نواز شریف پاکستان پہنچنے پر جو مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے وہ اس نے عوامی اجتماع سے خطاب کرنے کے بغیر ہی حاصل کرلیے۔جرنیل ، نگران حکومت اور ان کے ایڈوائزر ہار گئے اور سزا یافتہ مجرم جیت گیا۔یہی سیاست دان کا خاصا ہوتا ہے۔
نواز شریف کی آمد کے حوالاے سے ’’جمعہ ‘‘کو بڑادن کہا گیا۔ اسی جمعہ کے دن وقفے وقفے سے خود کش دھماکوں نے واقعی بڑا دن بنا دیا۔ بنوں اور مستونگ میں مجموعی طور پر 132 انسانوں کو موت کی نیند سلادیا گیا اور کوئی دو سو کے قریب بے گنا زخمی ہوکر ہسپتالوں میں موت سے پنجہ آزمائی کررہے ہیں۔ اس ہفتے میں یکہ توت پشاور اور مستونگ کے دھماکوں میں اب تک 150 افراد لقمہ اجل بنے۔
ذمہ دار کون ہے ؟ عمران خان اسکی ذمہ داری بھی نواز شریف پر ڈال رہا ہے۔ کتنی بے حسی ہے پی ٹی آئی کی قیادت کی کہ مستونگ میں سو سے زئد افراد ماردئیے گئے لیکن اس نے اپنی انتخابی مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ ہے سیاسی بالیدگی؟ ملک بھر میں مستند دہشت کالعدم تنظیموں کے امیدوار انتخاب بھی لڑ رہے ہیں۔نگرانوں کے حواس پر چھایا ہوا ہے کہ ن لیگ کو سیاسی میدان سے کیسا باہر نکالنا ہے اور ایک جماعت کو اسلام آباد کیسے لانا ہے۔
♥
One Comment