منیر سامی
یہ حقیقت جلی حرفوں میں دیواروں پر لکھی ہے کہ سیاسی جمہوری طور پر پاکستان اپنے قیام سے اب تک وہیں ہے جہاں اول روز تھا۔ اس کے نظامِ حکومت میں اب تک کوئی ایسی تبدیلی نہیں آئی جس پر ناز کیا جا سکے اور اور اقوامِ عالم کے سامنے سر فخر سے بلند کرکے کہا جا سکا کہ ’ہم بھی ہیں’!۔ سالہا سال سے براہِ راست فوجی آمریتوں کے وقفہ میں بالواسطہ فوجی آمریت کا دور آجاتا ہے جس میں نام نہاد سیاسی جمہوری نظام کا چرچا کرنے کی کوشش ہوتی ہے .لیکن نتیجہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات ہوتا ہے۔
ہم بار بار کچھ غیر مرئی ہاتھوں کا چرچا سنتے ہیں، یہ سنتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نام کا کوئی آسیب ہے. جو عوام کے سر پر سوار ہے اور انہیں ہر دم ہراساں کرتارہتا ہے، ایسا آسیب کہ جس کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ بعض سیانے یہ سمجھاناچاہتے ہیں کہ یہ آسیب دراصل پاکستان کی افواج ہیں, جن کے اربابِ حل و عقد نہیں چاہتے کہ پاکستان میں جمہوری سیاسی نظام نافذ ہو اور عوام اپنے وطن پر حکمرانی کر سکیں۔
لیکن اس کے برخلاف بعض اہلِ دانش کا ایک اقلیتی گروہ ،وہ بھی ہے ،جو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ یا مقتدرہ، چند مراعات یافتہ گروہوں کا ایک گٹھ جوڑ ہے۔ اس مختصر سے گروہ میں پاکستان کے جاگیر دار، بہت ہی طاقتور سرمایہ دار، افسر شاہی ،اعلیٰ عدلیہ ، اور بعض مذہبی رہنما شامل ہیں۔بڑے خبر رساں اداروں یا میڈیا کا تعلق بھی ان ہی سے ہوتا ہے۔ پاکستان کی افواج کے اعلیٰ افسران بھی اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور یہ کہ پاکستان کی افواج اسی گروہ کی نمائندہ اور محافظ ہیں۔ وہ ایک طرف تو دفاعِ پاکستان کا آئینی منصب ادا کرتی ہیں ، اور دوسری جانب مقتدرہ کو بھی تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ مقتدرہ نے مجبوراً ان کو مراعت میں حصہ دار بنا رکھا ہے۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارے اہلِ سیاست کون ہیں۔ ذرا بھی سنجیدگی سے غور کریں تو اندازہ ہو جائے گا کہ ان میں سے بھی اکثر مقتدرہ ہی کے نمائندے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جو افراد پہنچتے ہیں وہ چاہے وہ ہوں جنہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ کہا جائے، یا وہ جو صرف ڈگری یافتہ ہیں واضح طور پر قبائل، برادریوں، زمینداروں ، سرمایہ داروں ، ہی میں سے آتے ہیں یا ان کے وظائف یافتہ ہوتے ہیں۔ ان میں سے صرف مٹھی بھر وہ ہوتے ہیں جو کبھی کبھار اپنی آزاد خیالی یا دوسروں سے بہتر سیاسی شعور رکھنے کی بنا پر کبھی کبھی جمہوری روایات کی بات کرتے ہیں۔ لیکن ان کی کمزور آواز اکثریت کی چیخ و پکار میں دب جاتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ جب وقفہ وقفہ سے پاکستان میں کوئی نام نہاد جمہوری حکومت آبھی جاتی ہے تو بھی مقتدرہ کے نمائندوں کے زیرِ اثر کوئی بھی دور رس حقیقی جمہوری فیصلہ نہیں کرتی۔کیوں کہ جمہوری فیصلے لا محالہ قومی وسائل کو عوام کے حق میں استعمال کرنے کے فیصلے ہوتے ہیں۔ ان فیصلوں کے نتیجہ میں مقتدرہ کی مالی مراعات کم ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ مقتدرہ کسی بھی طور اپنی مالی مراعات میں کمی برداشت نہیں کر سکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی بھی سیاست دان انفرادی طور پر یا دوسروں کے ساتھ مل کر ایسی پالیسی سازی کرنا بھی چاہے، جس سے قوم اور وطن کو حقیقی فائدہ پہنچے تو اسے آیئنی حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل ہی ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے۔ اس پر مالی خیانت یا کرپشن کے الزامات لگتے ہیں، اور جب بھی موقع ملے یا تو براہِ راست عسکری اقدام سے یا اعلیٰ عدلیہ سے نہایت کمزور فیصلے کروا کے اس کو حکمرانی سے معزول کر کے یا تو قید کردیا جاتا ہے یا ناکارہ بنا دیا جاتا ہے۔
یہ وہ عوامل ہیں جن پر غور کرنے سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہماے ہاں کچھ بھی نیا کیوں نہیں ہے۔ لیکن آج کل ہمارے اعلیٰ عدالتی نظام میں ایک مضحکہ خیز تبدیلی آئی ہے۔ وہ یہ کہ ہمارے منصفِ اعلیٰ اب انتظامی معاملات میں براہِ راست دخل اندازی کر رہے ہیں، جس کے نتیجہ میں انتظامیہ نہ صرف یہ کہ زچ ہو چکی ہے بلکہ عملاً مفلوج ہوتی جارہی ہے۔ اعلیٰ عدالتی نظام کچھ ایسا بن گیا ہے، کہ ہمارے منصفِ اعلیٰ ایک مطلق العنان شخص کی طرح عدالت کے سیاہ و سفید کے مالک بن چکے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ آئین کی تفہیم کا منصب رکھتی ہے سو اب یہ ہورہا ہے کہ منصفِ اعلیٰ کی صوابدید پر حکمرانوں کو معزول کیا جانے لگا ہے۔ اور سیاست دانوں کو ایک طویل مدت کے لیے نا اہل قرار دینے کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
انتظامی معاملا ت میں دخل اندازی کی مثالوں میں وہ فیصلے شامل ہیں جن میں پاکستان میں موبائل فون کے استعمال پر نافذ ٹیکس ، بیک جنبشِ قلم ختم کر کے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ ایک نیاعجیب و غریب اعلان یہ ہے کہ پاکستان کے دریاو ں پر بند بنانے کے منصوبوں کے لیئے عوام سے چندہ جمع کیا جائے، یا پانی کے استعمال کے نرخ مقرر کرکے عوام سے بند بنانے کے لیئے رقم وصول کی جائے۔ اس طرح سے منصفِ اعلیٰ نہ صرف انتظامی مداخلت میں دخل دے رہے ہیں جو کسی بھی عدالت کا منصب نہیں ہے بلکہ ان سیاسی معالات میں بھی دخل دے رہے ہیں جن کے فیصلے کرنے کا حق آئینی طور پر صرف پاکستان کے صوبوں کو حاصل ہے۔
لیکن سچ پوچھیں تو نیا یہ بھی نہیں ہے۔ ہماری عدالتیں پہلے بھی نظریہ ضرورت کے تحت من مانیا ں کرتی رہی ہیں۔ یہی من مانی اب بھی جاری ہے۔ یہ سب جب ہی بدلے گا جب نظامِ ِ حکمرانی واقعی غریب عوام کے ہاتھوں میں ہوگا۔ لیکن ہنوز دلی دور است۔ ہمارا آپ کا فرض ہے کہ ہم تمام تر مشکلات کے باجود عوامی حکمرانی کی کوشش کرتے رہیں۔
♦