کیا پاکستان کو سنگاپور بننا چاہیے؟

بیرسٹر حمید باشانی

سنگاپور ایک کامیاب ملک ہے۔ ایک سگھڑ اور تکمیل شدہ سماج ہے۔ جس تیز رفتاری سے سنگاپور نے اپنے لوگوں کا معیار زندگی بلند کیا، اس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ صرف چالیس سال کے مختصر عرصے میں یہ ملک ایک غریب، پسماندہ اور پچھڑے ہوئے تیسری دنیا کے ملک سے بدل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو گیا ۔ صرف یہ ہی نہیں ، بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں سے بھی ان محدودے چند کی فہرست میں، جن کو بیشتر ترقی یافتہ ممالک بھی حسد اور رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

دنیا میں ہر جگہ انسان کی پانچ ناگزیر بنیادی ضروریات ہیں۔ یہ ضروریات خوراک، رہائش، صحت، تعلیم اور روزگار ہیں۔ سنگاپور نے نا صرف ان ضروریات کو بدرجہ اتم پورا کیا، بلکہ بعض شعبوں میں وہ کامیابی دکھائی، جو امریکہ اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے لیے باعث حیرت تھی۔ ساٹھ کی دھائی میں قومیں آزادی چاہتی تھیں، ملک خود مختاری مانگتے تھے، اور عوام نقلاب چاہتے تھے، مگر سنگاپور کے رہنماوں کی سب سے بری خواہش تھی کہ وہ آزادیا خود مختار قوم کے بجائے ملائیشیا سے الحاق کر کے اس کا مستقل حصہ بن جائیں۔ مگر بد قسمتی یا خوش قسمتی سے ملائشیا کی پارلیمنٹ نے1965 میں صفر کے مقابلے میں ایک سو چھبیس ووٹوں سے سنگاپور کو انتہائی ذلت سے ملائشیا سے زبردستی باہر نکال دیا۔ آنسو اور ہچکیوں میں سنگاپوری رہنما لی کان ییو نے اعلان کیا کہ سنگاپور اب ایک خود مختار ملک ہے۔ لوگوں نے جشن نہیں بنایا، ماتم کیا۔ 

آج سنگاپور دنیا میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کے لیے دنیا کی چندبہترین جگہوں میں سے ایک ہے۔ پیدا ہونے کے لیے یہ بہترین جگہ اس لیے کہ یہاں بچوں میں اموات کی شرح امریکہ اور برطانیہ سے بھی کم ہے۔ یہاں کا نظام تعلیم قابل رشک ہے۔ حساب اور سائنس کی تعلیم میں یہاں کا معیار تعلیم دنیا کے چار بہترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ صرف بچوں کے لیے ہی نہیں بڑوں کے لیے بھی یہ رہنے کی ایک بہترین جگہ ہے۔ سنگاپور میں نوے فیصد لوگوں کے پاس رہنے کے لیے اپنا گھر ہے۔ یہاں تک کہ کم آمدانی والے لوگوں میں بھی تقریبا اسی فیصد لوگ اپنے گھروں کے مالک ہیں۔ ہمارے کچھ سیاست دان اور دانشور پاکستان کو سنگاپور بنانے کی بات کرتے رہتے ہیں۔ اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ سنگاپور کی اس حیرت انگیز ترقی کا راز صرف تین لفظوں میں پوشیدہ ہے۔ وہ لفظ جو ہمارے ہاں بے معنی اور بے اعتبار بنا دئیے گئے ہیں۔ 

ان میں پہلا لفظ میرٹ ہے۔ میرٹ کا مطلب ہم سے زیادہ کون جانتا ہے؟ مگرایک بار پھر بیان کرنے میں حرج کیا ہے۔ میرٹ کا سادہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنا نظام چلانے کے لیے ملک اپنے بہترین شہریوں کو ان کی قابلیت کی بنیاد پرچنتا ہے۔ ہمارے ہاں میرٹ کی نفی پرائمری سکول سے شروع ہو کر اعلی ملازمتوں کے امتحانات تک پھیلی ہوئی ہے۔ امتحانات میں نقل اور دوسرے غیر قانونی ذارئع سے اعلیٰ نمبر لینے سے لیکر رشوت ، شفارس اور اقربا پروری کے ذریعے ملازمتوں کی تقسیم ایک عام چلن ہے۔ سنگاپور جیسا میرٹ کا نظام اپنانے کے لیے نظام تعلیم، نصاب تعلیم، پڑھائی اور امتحانات کے طریقہ کار میں انقلابی یعنی بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ نظام میں ان بنیادی تبدیلیوں کے بعد اس کے اثرات ظاہر ہونے کے لیے کم ازکم بیس برس درکار ہوں گے۔ 

دوسرا لفظ ہے عملیت پسندی۔ عملیت پسندی کو بھی ہم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ ہمارے پاس اس تصورسے دور بھاگنے اور اس عمل سے بچے رہنے کا ستر سالہ تجربہ ہے۔ عملیت پسندی کی فلسفے میں تعریف یہ ہے کہ کسی بھی نظریے یا عقیدے کو اس کی عملی کامیابی کے نقطہ نظر سے دیکھنا۔ سنگاپور میں عملیت پسندی کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ سنگاپور کا ایک رہنما ڈاکٹر گوکنگ اکثر کہا کرتاتھاکہ سنگاپور کو کسی ایسے مسئلے کا سامنا ہو ہی نہیں سکتا، جس کا دنیا میں کوئی نہ کوئی حل پہلے ہی نہ ڈھونڈا جا چکا ہو۔ ہمیں اس حل کی نقل کر کہ اسے سنگاپور کے حالات کے مطابق اپنانا چاہیے۔ 

لیکن نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت پڑتی ہے۔ بقول شخصے دانش کو سمجھنے کے لیے دانش کا ہونا ضروری ہے۔ عقل دانش کے لیے ایک ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے، جو ہمارے نظام تعلیم کا الٹ ہو۔ ہماراطرز تعلیم رٹے پر قائم ہے، جو طالب علموں کے عقل و دانش کے سوتے خشک کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ سنگاپورکے طالبعلم علم ریاضی اور سانئس میں ترقی یافتہ دنیا کے بیشتر ممالک سے آگے ہی نہیں ، بلکہ پرابلم سالونگ اور کریٹیکل سوچ میں وہ کئی عالمی مقابلے جیت چکے ہیں۔ ہمارے مدرسوں میں پڑھنے والے لاکھوں بچوں کو تو جبرا رٹے پر لگایا ہی جاتا ہے، مگر ہمارے سرکاری سکولوں میں بھی بند کتاب طرز امتحانات اور طرز تعلیم بھی رٹے کی ہی حوصلہ افزائی ہے۔ 

چنانچہ ہمارے نظام تعلیم کا ایک بڑا حصہ ایسے پڑھے لکھے لوگ پیدا کرتا ہے، جن میں سے بیشتر نہ کوئی گہری دانش کی بات سمجھ سکتے ہیں، اور نہ ہی ڈھنگ سے کسی چیز کی نقل کر سکتے ہیں۔ سنگا پور بننے کے لیے سنگاپور جیسا نظام تعلیم ایک بنیادی شرط ہے۔ کیا ہم یہ شرط پوری کر سکتے ہیں؟ ہمارے ہاں تو تعلیم پر مختلف مذہبی، معاشی اور سیاسی سٹیک ہولڈرز کا قبضہ ہے۔ سیاسی مفادات کے پیش نظر مذہبی سکولوں اور مداراس کو گرانٹس دی جاتی ہے۔ ووٹ بٹورنے اور سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے انسانی ہمدردی کی آڑ لیکر ان لوگوں کی مدد کی جاتی ہے، جو تعلیم و تربیت کے نام پر مذہب کی تجارت میں مصروف ہیں۔ 

تیسرا لفظ دیانت داری ہے۔ اس لفظ سے بھی ہم سے زیادہ کوئی واقف نہیں۔ آج کل بھی انتخابات کی وجہ سے ہماری ہر عدالت ہر شہر اور ہر گلی میں اسی لفظ کا چرچا ہے۔ یہ لفظ ہمارے قانون میں موجود ہے۔ آئین میں موجود ہے۔ نصاب میں ہے۔ واعظ و نصحیت میں اس کا تذکرہ ہوتا ہے، سیاسی تقاریر کا اہم نقطہ ہوتا ہے۔ مگر عملی زندگی میں اس کا کوئی تصور کوئی وجود نہیں ہے۔ عملی زندگی میں بد دیانتی اور کرپشن کا راج ہے۔ اور صرف ہمارے ہی نہیں تیسری دنیا کے بیشترممالک کی ناکامی کی بنیادی وجہ کرپشن ہی ہے۔ 

سکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ سنگاپور اس وقت ایک جدید آمریت سمجھا جاتا ہے ۔ اگرچہ یہاں ہر پانچ سال بعد باقاعدگی سے شفاف انتخابات ہوتے ہیں۔ مگر جیسا کہ ان سطور میں کئی بار عرض کیا کہ کسی ملک میں باقاعدگی سے الیکشن کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہاں جمہوریت ہے۔ ایران اس کی زندہ مثال ہے۔ جمہوریت کی دیگر لوازامات کا پورا ہونا ضروری ہے۔ سب سے بڑی شرط انسانی حقوق اور شہری آزادیاں ہیں ، جن کے بغیر جمہوریت محض ایک دھوکہ ہے۔ انسانی حقوق میں بھی سب سے مقدم آزادی اظہار رائے ہے۔ رائے کے اظہار کے لیے دیگر ذرائع کے علاوہ ایک آزاد پریس کی ضرورت ہے، جس کا سنگا پور میں کوئی تصور نہیں ہے۔ میڈیا مکمل طور پر سرکار کے کنٹرول میں ہے، صحافیوں کی ایک عالمی تنظیم، روپورٹرز ودآوٹ بارڈرز ، اپنی پے درپے رپورٹوں میں سنگاپور میں میڈیا پر پابندیوں کی بات کر چکی ہے۔ احتجاجی جلسے و جلوس کی اجازت بھی محدود ہے، جو اظہار کی آزادی کو مزید مشکل بنا دیتی ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ سنگاپور ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس میں فی کس آمدنی بہت اونچی ہے۔ صحت تعلیم اور روزگار جیسی سہولیات میسر ہیں۔ مگر انسانی حقوق اور شہری ازادیوں پر اس قدر قدغن کی وجہ سے آزادی پسندوں کے لیے یہ ایک سونے کا پنجرہ ہے۔ اور قیدی سونے کے پنجرے میں ہو یا لوہے کہ پنجرے میں وہ قیدی ہی ہوتا ہے۔ اس لیے جو لوگ پاکستان کو سنگاپور بنانا چاہتے ہیں وہ میرٹ، عملیت پسندی اور دیانت داری کواپنا اور اپنی جماعتوں کا شعاربنائیں۔ اور وہ سنگاپور ضرور بنائیں مگر ایسا سنگاپور، جس میں روٹی کپڑے اور مکان کے ساتھ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی بھی ضمانت ہو۔

♦ 

Comments are closed.