بیرسٹر حمید باشانی
انسان کا حال اس کے ماضی کا عکس ہوتا ہے۔ انسان آج کیا ہے؟ کون ہے؟ کیا کرتا ہے؟ کیوں کرتا ہے؟ یہ سار ی تفصیل جان کر ایک سیانا آدمی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس شخص کا ماضی کیسا گزرا ہوگا۔ اس طرح ایک انسان کا آج دیکھ کر اسکے مستقبل کے بارے میں بہت کچھ بتا یا جاسکتا ہے۔ کل آج کے فکر و عمل کا ثمر ہی تو ہوتاہے۔
انسان نے ماضی میں جو کچھ بھی کیا ہوتا ہے، اس کی زندگی کا جزو لاینفک بن جاتا ہے۔ اچھا برا سب اس کے پورٹ فولیو کا حصہ بن جاتا ہے۔ آج کے دور میں کسی سے کوئی معاملہ کرنے سے پہلے اس کے ماضی کے بارے میں جاننا ضروری سمجھا جاتاہے۔ ہمارے ہاں ابھی تک زبانی کلامی ماضی کے بارے میں کہنا سنناچل جاتا ہے، مگر مغرب میں کسی بھی کام کے لیے ماضی تحریری طور پر پیش کرنا پڑتا ہے۔
آپ ایک گیس سٹیشن پر گاڑیوں میں گیس ڈالنے کا کام ڈھونڈ رہے ہوں، یا ملک کا وزیر اعظم بننا چاہتے ہوں آپ کو اپنا ماضی تاریخ در تاریخ پوری صفائی سے لکھ کر پیش کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ماضی اہم ہے، یہ ہماری زندگی کا حصہ ہے، اور سائے کی طرح ہمارے ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔
اسی طرح آپ کا خاندانی پس منظر بھی اہم ہے۔ ہمارے ہاں تو سب کچھ خاندانی پس منظر ہی سمجھا جاتا ہے۔ مغرب میں جمہوریت اور مساوات کے ابھرتے ہوئے نئے تصورات کے تحت کچھ عرصہ پہلے تک خاندانی پس منظر کو غیر متعلق سمجھا جانے لگا تھا۔ مگر حالیہ برسوں میں یہاں ایک نئی سوچ ابھری ، یا پرانی سوچ پلٹ آئی ۔ اب یہاں کچھ حلقوں میں یہ خیال کیا جانے لگا ہے کہ خاندانی پس منظر اہم ہے۔ اور اس کی وجہ انسان کا ڈی این اے ہے۔
کچھ سائنسدانوں نے لوگوں کو بتا دیا ہے کہ انسان کی شخصیت اور کردار پر ڈی این اے کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے، چنانچہ اب کچھ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے اہم ملازمیں کے خاندانی پس منظر کے بارے میں جاننا ضروری سمجھتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک امیدوار کے باپ یا دادا کا کیا پیشہ تھا۔ اگر کئی قانونی ممانعت کی وجہ سے یہ سوال براہ راست نہیں کیا جا سکتا، تو دیگر ذرائع سے بلواسطہ اس کا جواب ڈھونڈ لیا جاتا ہے۔
گویاماضی اہم ہے۔ مگر سیاست میں اس کا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے؟ یعنی کیا کسی سیاست دان کے موجودہ نظریات، خیالات یا کردار کو اس کے ماضی کے آئینے میں دیکھنا درست ہو گا۔ مثال کے طور پر اگر ایک سیاست دان ماضی میں ڈکٹیٹر شپ کا حصہ یا حامی رہا ہو اور اب وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی لڑائی لڑنا چاہے تو کیا اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ یا اگر کسی سیاست دان کے آبا و اجداد نوآبادیاتی قوتوں کے کاسہ لیس رہے ہوں تو کسی آزادی یا خودمختاری کی لڑائی میں اس کے اس خاندانی پس منظر کے باوجود اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟
یہ وہ سوال ہے جو پاکستان کی سیاست میں کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ موجود رہا ہے۔ آج کل یہ سوال ایک بار پھر نواز شریف کے حوالے سے زیر بحث ہے۔
ان کے ناقدین کی رائے یہ ہے کہ ان کی سیاست کی ابتدا چونکہ آمریت پسندوں کے سائے میں ہوئی ہے ۔ وہ ہیت مقتدرہ کا بہت قریبی حصہ رہے ہیں، اس لیے وہ عوام کے حق حکمرانی کی بات نہیں کر سکتے۔ اور اس کو نظریاتی انداز میں ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ ایک سرمایہ دارانہ خاندانی پس منظر کے ساتھ، ملک کی ہیت مقتدرہ کے کندھوں پر سوار ہونے والا شخص ایک نئے دور کا جدید انقلابی اور ترقی پسندانہ بیانیہ لیکر کیسے سامنے آ سکتا ہے؟
میرے خیال میں یہ سوال نظریاتی اور اصولی طور پر غلط ہے۔ دنیا کی تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ خود پاکستان میں بھی اکا دکا ہی سہی، مگر ہیں۔ جب ذولفقار علی بھٹو قومی لیڈر کے طور پر سیاسی افق پر ابھرے ، اور انہوں نے سوشلزم اور جمہوریت کا نعرہ لگایا، تو جہاں یہ بات ایک طرف ہیت مقتدرہ کے لیے پریشان تھی، وہاں یہ بات کئی دانشوروں کے لیے حیران کن اور نا قابل یقین تھی۔
بھٹو خاندانی طور پر ایک نواب اور جاگیر دار تھے۔ وہ خاندانی طور پر حکمران طبقات میں شامل رہے تھے۔ ان کے والد کئی دوسرے سیاسی عہدوں کے علاوہ ریاست جونا گڑھ کے دیوان اور وزیر اعظم رہ چکے تھے۔ لاڑکانہ سکھر اور جیکب آباد میں بھٹو خاندان کی دولاکھ پچاس ہزار ایکڑ زمین تھی۔ سندھ کا گورنر جنرل، اور بعد ازاں صدر پاکستان سکندر مرزا لاڑکانہ میں آکر شکار کھیلتا تھا اور بھٹو خاندان کے آبائی گھر المرتضی میں قیام کرتا تھا۔ اسی گھر میں میں بھٹو خاندان کی میزبانی کا لطف اٹھانے اور ان کی شکار گاہوں میں شکار کھیلنے جنرل محمد ایوب بھی آئے۔
چنانچہ بھٹو صاحب نے سیاست کا آغاز کسی عام آدمی کے طور پر نہیں کیا۔ وہ برکلے اورٓآکسفورڈ سے ہوتے ہوئے مختصر عرصے میں پاکستان کے کم عمر ترین وزیر بنے۔ سیاسی اور فوجی ہیت مقتدارہ کا رازدان بن کر وزرات خارجہ تک پہنچے۔ ملک کے سب سے بڑے ڈکٹیٹر ایوب خان کو وہ ڈیڈی تک کہنے میں عار نہیں سمجھتے تھے ، اورخود ایوب کے لیے ایک وقت میں وہ سب سے قابل بھروسہ آدمی تھے۔ خاندانی پس منظر ، دولت، طاقت، اقتدار سب کچھ اس شخص کو میسرتھا۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ذولفقار علی بھٹو کو اپنی طبقاتی وابستگی اور مراعات چھوڑ کر روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لیکراس آگ میں کودنے کی کیا ضرورت آن پڑی تھی، جو ان کی اقتدار سے محرومی، قیدو بند اور بلاخر موت پر منتج ہوئی۔
تاریخ میں اس سوال کا جواب اہل فلاسفہ ، ماہرین نفسیات اور سیاسیات کئی بار دے چکے۔ یہ لوگ کہتے ہیں شعور کے علاوہ یہ انسان کا ڈی این اے ہے، جو اسے ایسے کام کرنے پر اکساتا ہے۔ اور ڈی این اے بہت پیچھے سے شروع ہوتا ہے۔ کئی صدیاں اور کئی نسلیں پہلے ۔ ظاہر ہے بھٹو صاحب کا ڈی این اے سر شاہنواز بھٹو یا ان کے دادا میرمرتضی بھٹو سے نہیں شروع ہوتا۔ اس کے لیے کئی پیڑیاں پیچھے جانا پڑتا ہے۔ اگر کوئی تحقیق کرے، تو ہو سکتا ہے کئی پیڑیاں پیچھے جا کر بھٹو خاندان میں کوئی انقلابی، کوئی سر پھرا ، کوئی منصور حلاج جیسا نکل آئے۔ بھٹو صاحب کے طفیل پاکستان کے لوگوں کو شائد روٹی ، کپڑا اور مکان تو نہ مل سکا، مگر پہلی دفعہ ان کے کانوں میں عوام کے حق حکمرانی کے الفاظ ضرور گونجے، جو ایک حکمران کے لبوں سے نکلے تھے۔
آج انتخابات کا شور ہے۔ کچھ سیاست دان جو وزارت عظمی پر نظر یں گاڑے بیٹھے ہیں، جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ مگر بد قسمتی سے کبھی نہ کبھی، کئی نہ کئی، کسی نہ کسی شکل میں ان کا تعلق کسی نہ کسی آمریت یا آمریت پسند سے جڑتا ہے۔کوئی کسی آمر کے جعلی ریفریڈم میں اس کا حامی تھا، کوئی اس کی مجلس مشاورت یا وزارت میں تھا۔
کیا ان سیاست دانوں کا یہ عمل یا لغزشیں قابل معافی ہیں۔ یا پھر وہ تاحیات اپنے منہ سے جمہوریت اور انسانی حقوق کا زکر کرنے کے قابل نہیں رہے؟ اور اس باب میں کوئی لڑائی لڑنے کا حق نہیں رکھتے۔ ایسا ہو تو پھر سیاست کی نگری ہی ویران ہو جائے۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں، اور یقیناًہیں، تو پھر صرف کسی ایک سیاست دان کو یہ کہہ کر مسترد کر دینا کہ وہ اسٹبلشمنٹ کی پیداوار ہے قرین انصاف نہیں ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ماضی اہم ہے۔ یہ ساری زندگی آپ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے، مگر یہ آپ کو مستقبل میں کوئی بڑا اور نیک کام کرنے سے نہیں روک سکتا۔ کوئی اگر ماضی میں ہیت مقتدرہ کا ساتھی رہا تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ مستقبل میں جمہوریت اور عوام کے حق حکمرانی کی کوئی لڑائی نہیں لڑ سکتا ہے۔ اگر آج کسی کے ذہن میں شعور کا کوئی دریچہ کھل گیا، سوچ نے کوئی بڑی کروٹ لے لی، اور عوام کے حق حکمرانی کی کوئی واضح تصویر کسی کے دل میں بس گئی، تو وہ ماضی کا بوجھ اتار کر پھینک سکتا ہے۔ ایک نئے سفر کا آغازکر سکتا ہے۔ دیر آئید درست آئید۔
♦