ولید بابر
گاؤں کافی بڑا ہے۔ہر طرف گھما گہمی کا عالم ہیں۔لوگ اپنے کاموں میں مگن ہیں۔کوئی ہل جوت رہا ہے تو کوئی مٹی کے برتن بنانے میں مصروف ہے۔کوئی ٹانگہ ہانپ رہا ہے اور کوئی چرخا کاٹ رہا ہے۔کھلی فضاء میں بیڑ کے درخت کے نیچے بچے ایک دونی ایک دو دونی چار کا رٹا مار رہے ہیں۔کرسی پر گھر کے ستائے استاد جی خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ نہر پر دوشیزئیں کپڑے اور بال سوکھا رہی ہیں اور قریبی جنگل میں کوئی چرواہا معطر کن آواز میں بانسری کے سُر بکھیر رہا ہے۔گاؤں کی زندگی مشقت انگیز مگر پر سکوں ہے۔
یکا یک سنتری خطرہ خطرہ ہوشیار ہوشیار خطرہ خطرہ ہوشیار ہوشیار کی بآواز بلند صدا لگتا آگے بھاگ رہا ہے۔گاؤں کے لوگ خوف کے مارے گھروں کو دوڑتے ہیں۔بیل دھوپ میں کھڑے ہیں’برتن ٹوٹ چکے’تانگہ سرپیٹ بھاگ رہا ہے’بچوں کی کتابوں کے ورک ہوا میں آڑ رہے ہیں،استاد جی کرسی کی نیچے ہیں،دوپٹے اور بال ہوا میں بکھیر گئے ہیں، بانسری کے سُر اچانک خاموش، زندگی جامد۔
سنتری بیڑ کے درخت کے نیچے کھڑا ہے۔جا ہ و جلال چہرہ غصے سے سرخ ہے۔آنکھیں انگارے برساتی،لہجہ کرخت اور الفاظ سخت۔دشمنوں نے ہمارے گاؤں پر قبضے کا منصوبہ بنایا ہے،گاؤں خطرے میں ہے ہم میں سے کوئی محفوظ نہیں،ہمارے پاس جوابی کاروائی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔صاحب بہادر نے فرمایا ہے کے جبرال کو دشمن کی نقل و حرکت کے لیے بھیج دیا ہے۔ جب تک ہم ہیں کسی پر کوئی آنچ نہیں آ سکتی۔دشمن طاقتور ہے اور تعداد میں زیادہ مگر آپ لوگوں کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں،ہم اس کےدانت کھٹے کر دیں گے۔
صاحب بہادر نے حکم دیا ہے کے دوران جنگ ہمارے قیام و طعام کے مناسب انتظام کے لیے نقدی،اناج اور ہتھیاروں کا فوری انتظام کیا جاوے ،دوران جنگ بوقت ضرورت افرادی قوت تیار رکھی جائے اور گاؤں کی سرحد سے تمام لوگوں کو فی الفور نقل مکانی کروا کے سرحد کو خالی کر دیا جائے۔
خوف زدہ لوگوں کی آنکھوں میں زندگی لوٹ آئی۔گھر میں جو نقدی،زیور اور اناج تھا لا کر سنتری کے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔سنتری کو مال سمیٹ کر لے جانے کے لیے دو گدھوں کی ضرورت پڑی جس کا انتظام بھی گاؤں والوں نے خود کر لیا۔گاؤں والے جتھوں اور ٹولیوں میں بیٹھے اللہ اور صاحب بہادر کا شکر بجا لا رہے ہیں۔دیکھا میں نہ کہتا تھا صاحب بہادر کے ہوتے ہمیں کوئی میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا۔اللہ صاحب بہادر کو ہماری بھی زندگی دے۔
نقدی،زیور اور زمیں کھو کر بھی زندگی پا لینے کی جو خوشی ہوتی ہے وہ گاؤں والوں کی آنکھوں میں ہی دیکھی جا سکتی ہے۔
گاؤں والے روز روٹی صاحب بہادر کو دینے جاتے ہیں۔جنگ کی تھکاؤٹ دور کرنے کے لیے گیت سنگیت کا انتظام بھی ہے۔گاؤں والے بزدل دشمن کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے متمنی ہیں مگر پیش ُِ خطرہ انھیں ایک مخصوص حد سے آگے جانے کی اجازت نہیں کہ صاحب بہادر کو اپنے لوگوں کی زندگی سے عزیز کوئی شے نہیں۔روز کی پسپائی گاؤں والوں کے ذہنوں کو پریشان کر رہی ہے مگر ریڈیو پر صاحب بہادر اور کمپنی کی شجاعت کی خبریں گاؤں والوں کے کانوں اور ذہنوں کو راحت بخش رہی ہیں۔
آج جنگ کا ساتواں دن ہے۔ جنگ بندی کا اعلان ہو چکا ہے۔گاؤں والے صاحب بہادر کو شاباشی دینے سرحد پر آ گے ہیں ۔مگر یہ کیا صاحب بہادر کی سپاہ تو اپنے علاقے سے کافی پیچھے ہے؟ گاؤں والوں کے ذہنوں میں سوالات ہیں صاحب بہادر غصے میں کہتے ہیں یہ جنگی حکمت عملی ہے یہاں سے بہتر طور سے دشمن پر نظر رکھی جا سکتی ہے اور ہاں دشمن کافی قریب ہے اس جگہ رہنا خطرہ سے خالی نہیں اس لیے آپ لوگ یہ جگہ خالی کر کہ پیچھے چلے جاؤ۔صاحب بہادر نے سرحد سے ملحقہ علاقہ اپنے کنٹرول میں رکھ لیا یوں گاؤں والے اپنی اراضی سے محروم ہو گئے۔ جنگ کی تھکاؤٹ نے صاحب بہادر کو چڑ چیڑا بنا دیا ہے اس لیے صاحب بہادر کے تھوڑا کہنے کو بہت سمجھ لیا گیا۔
نقدی’اناج اور زمیں کھو کر بھی وطن کی حفاظت کی جو خوشی ہوتی ہے وہ گاؤں والوں کی آنکھوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
گاؤں کے لوگ اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔
سنتری آتا ہے۔بیڑ کے درخت کے نیچے کھڑا ہے۔جاہ و جلال چہرہ ۔۔۔۔۔۔دشمن نے ہمارے گاؤں پر حملے کا منصوبہ بنایا ہے۔۔۔۔۔۔۔صاحب بہادر نے کہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
نقدی،زیور،اناج سنتری کے پاؤں میں ڈھیر ہیں مگر گدھوں کا انتظام نہیں ہے۔سنتری کو اپنے گدھے منگوانے پڑے ویسے بھی صاحب بہادر کے پاس گدھوں کی کمی نہ ہے۔
اب کی بار لڑائی دوسرے گاؤں کے لوگوں سے سنا ہے بلکہ صاحب بہادر کو مشرقی حصے کے اپنے ہی لوگوں پر شک ہے کہ وہ دشمن سے ملے ہوئے ہیں۔نقدی،اناج اور زمین دینے سے انکاری نہیں ہیں مگر اپنے بچوں کے لیے روٹی بھی مانگ رہے ہیں۔عجیب لوگ ہیں حالت جنگ میں انھیں اپنے بچوں کی فکر ستائے جا رہی ہے۔صاحب بہادر کو کامل یعقین ہے اس کے پیچھے دشمن کی سازش ہے اور یہ غدار دشمن کے ہاتھوں بیعت کر چکے ہیں اس لیے سبق سکھانا لازم ہے۔گاؤں والے لڑائی دیکھ رہے ہیں بالکل خاموش تماشائی کی طرح انھیں اپنے گاؤں کے دوسرے حصے کے لوگوں کا مرنا ناگوار گزر رہا ہے مگر وہ چپ ہیں آخر وہ دوسرے حصے کے لوگ ہیں ان کہ لیے ہم کیوں صاحب بہادر کی ناراضگی مول لیں؟
صاحب بہادر اور کمپنی جاں فشانی سے لڑ رہے ہیں۔ یہ پانچ لوگ رافع حاجت کے لیے آئے تھے پر گولی نے کام تمام کر ڈالا۔ بیس لوگ بازار آئے ہیں مگر چال ڈال سے جاسوس لگ رہے ہیں گولی نے ساری اکھڑ نکال لی۔ آج تو صاحب بہادر کو عجیب خیال آیا۔صاحب بہادر کو شکار کا بہت شوق ہے جنگ میں شکار کا وقت کہاں میسر اس لیے گاؤں کے سو دو سو افراد کو پکڑ کر لائن میں کھڑا کر دیا۔صاحب بہادر تجربہ کرنا چاہتے ہیں کہ ایک گولی کتنے سروں کو چیر سکتی ہے۔ “ٹھا” کی آواز اور درجن بھر لوگ زمیں پر تڑپ رہے ہیں۔ صاحب بہادر فاتحانہ قہقہہ لگا کر بندوق جمعہ خان کو دیتے ہوئے کہتے ہیں “لے تو بھی شوق پورا کر لے کیا یاد کرے گا” ایک اور ٹھا کی آواز اور درجن لوگ پھر زمین پر۔تیس خواتیں کی آبرو ریزی اور تین چار بچے بن باپ کے پیدا ہو گئے۔
گاؤں کے لوگ اب ٹولیوں میں جمع ہو رہے ہیں۔ کھسر پھسر کر رہے ہیں ۔ آنکھوں میں نفرت اور دلوں میں انتقام ہے۔انھیں یقین ہو چلا ہے کہ مزاحمت میں زندگی اور مصلحت میں موت ہے۔ اب اگر صاحب بہادر کے اہلکار گاؤں کے لوگوں کی کھوپڑیوں پر تجربہ کرنا چاہیں تو گاؤں والے جتھوں کی صورت واپس حملہ کرتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ایک کمزور بلی دیوار کے ساتھ لگ جائے اور فرار کا کوئی راستہ نہ پا کر اپنی پوری قوت کے ساتھ حملہ کرتی ہے۔
حد درجہ خوف انسان کو بے خوف بنا دیتا ہے۔
گاؤں والے جوابی وار کر رہے ہیں۔ نہتے جذبوں کے آگے مضموم عزائم دم توڑ رہے ہیں پسپائی اختیار کر رہے ہیں ایک پل میں صاحب بہادر کے تمام دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے تمام دھمکیاں ہوا ہو گیئں اور صاحب بہادر 90 لوگوں کو چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ گاؤں والوں نے آئندہ صاحب بہادر کی کسی ممکنہ حماقت سے بچنے کے لیے درمیان میں بھاڑ لگا دی ہے۔جو لوگ پہلے ساتھ تھے اب دو حصوں بلکہ دو گاؤں میں بٹ چکے۔
صاحب بہادر نے واپس آ کر بتایا دیکھا میں نہ کہتا تھا وہ دوسرے گاؤں والوں سے ملے ہوئے ہیں اب یقین آیا کہ نہیں؟ میری تو کوئی بات آپ لوگ مانتے نہیں۔ وہ میں تو ان غداروں کو سبق سکھانے والا ہی تھا کہ ان کی مدد کو وہ دوسرے پڑوسی گاؤں والے آ گئے۔ہاں ہاں وہی جن کا میں نے کہا تھا سب سازش ان ہی کی ایما پر ہو رہی ہے۔ہاں یار وہی جس کی شہ پر شیر بنے ہیں وہ دراصل میں تو دونوں کو خوب دھول چٹاتا مگر آپ کو تو پتہ ہے وہ تعداد میں ذیادہ تھے اور ہمارا سامان بھی تو ختم ہو گیا تھا اب چھوڑو بھی ان باتوں کو یہ باتیں آپ جیسے عام آدمی تھوڑی سمجھ سکتے ہیں۔
صاحب کو اپنے لوگ بہت پیارے ہیں اس لیے گاؤں کے انتظام سنبھالنے اور اپنی ہاتھ ہمراہی کے لیے صاحب نے فیصلہ کیا کہ گاؤں کے چوہدریوں کی کمیٹی بنائی جاوے جس کا وہ خود سر پنچ ہو اور ساتھ ہی ساتھ ایک پنچائت کا انتخاب بھی عمل میں لیا جائے۔ پنچائت اور سر پنچ بظاہر تو طاقت ور دیکھائی دیتے مگر عملی طور پر صاحب جو حکم کان میں سرگوشی میں دیتے دونوں انگشت بدندان عمل کرتے پھر بھی صاحب کا بھروسہ نہ پا سکے حتی کے صاحب کو یقین دلانے کے لیے صاحب کے قید 90 رکنی کمپنی کو منت سماجت کر کے چوہدری صاحب واپس گاؤں لے آیا اور بدلے میں کشپ میر نامی ملازم گروی رکھ دیا اور کشپ میر کی اراضی جو پہلے دو حصوں میں تقسیم تھی اس پر مستقل باڑ قائم کر دو حصوں بلکہ سرحدوں میں تقسیم کر لی۔
صاحب بہادر جو ہر حماقت کے بعد نئی حماقت کرنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں نے چھ سات دن کے آرام کے بعد چوہدری کو ہی قید کر لیا اور تمام انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔پنچائت کے کان میں سرگوشی فرما کر سرپنچ کو دنیا سے رخصت کر دیا مگر پھر بھی سکون میسر نہ آیا۔ اس دوران صاحب بہادر کبھی تنے تنہاہ اور کبھی گاؤں کے کسی بھی بندے کو اٹھا کر چوہدری کی پھگ سر پر رکھ دیتے اور جب اس سے بھی دل بھر جاتا تو واپس خود ہی مختیار کل بن کر گاؤں کے کاموں کو سرانجام دیتے۔
مشرقی حصہ سے محرومی کے بعد صاحب بہادر نے اب کی بار دور کے مغربی گاؤں والوں سے تعلقات استوار کر لیے اور انکی مدد کے لیے اپنے شمال مغربی علاقے کے باسیوں کے گھروں میں وہ آگ لگائی جس سے اپنے علاقے (جنوبی)بھی محفوظ نہ رہے۔اپنے علاقے میں بارود اور نشے کا وہ اودھم مچا جو اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا بچے یتیم،خواتین بیواہ اور والدین بے گھر ہو گئے مگر بقول شاعر
لگا کے آگ شہر کو ،یہ بادشاہ نے کہا
اٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت
جھکا کے سر سب ہی شاہ پرست بول اٹھے
حضورشوق سلامت رہے ،شہر اور بہت
صاحب بہادر سرپنچ کے امیدوارں کے درمیان اپنی بجآوری کے لیے مقابلہ کرواتے اور دونوں متوقع امیدوار صاحب کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے دوسرے پر ایسے ایسے الزامات لگاتے اور القابات سے نوازتے کے کان کی لوئیں بھی سرخ ہو جاتی مگر صاحب کو پھر بھی کسی پر اعتبار نہ آیا اور تین تین دن کی دو دو باریں دینے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ نالائق لوگ چوہدراہٹ کے قابل ہی نہیں یوں بادل نخواستہ ایک بار پھر گاؤں کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھا لی۔ یوں صاحب بہادر لمبے عرصے تک سرپنچ کے فرائض سرانجام دیتے رہے اور اکثر صاحب بہادر اپنی مدت ملازمت میں بھی خود ہی توسیع کر لیتے اور اپنی عرضی میں لکھ دیتے میں صاحب بہادر گاما چوہدری گاما کی مدت ملازمت میں تین سال مزید توسیع کر رہا ہوں ۔اس طرح صاحب بہادر گاؤں کے کلی معاملات میں مختیار کل رہے اور بوقت ضرورت کسی چوہدری کو اپنے ساتھ ملا لیتے اور چوہدری کی پگ اپنے کسی وفادار کے سر پر رکھ دیتے۔
جب سرپنج کے امیدوار چوہدریوں نے بھانپ لیا کے آپسی لڑائی کا فائدہ انھیں کم اور صاحب بہادر کوزیادہ ہوتا ہے تو اب کی بار آپس میں ایکا کر لیا اور اس بات پر آمادہ ہو گئے کے آپسی لڑائی میں ثلالثی کے لیے صحب بہادر کو منصف نہ کیا جائے گا صاحب بہادر تو دس دن تک آنکھیں پھاڑ کر منصفی کا انتظار کرتے رہے مگر جب کوئی شکایت موصول نہ ہوئی تو پہلے پہل پنچائت کے کان میں سرگوشی کی ذرہ سرپنجوں کو اوقات تو دیکھاؤ اور پنچاہتیوں نے فلفور دو سرپنجوں کو گاؤں کے سامنے بے عزت کرتے ہوئے گھر کی راہ دیکھا دی پھر بھی جب صاحب بہادر کو منصفی لے لیے نہ بلایا گیا تو صاحب بہادر نے تیسرے چوہدری کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کر لیے تیسرا چوہدری پہلے دو چوہدریوں کا ویری ہے ۔
صاحب بہادر نے فیصلہ کیا کے اپنے بندے کو سرپنج بنانے کے لیے گاؤں کے لوگوں سے رائے لینا بھی ضروری ہے تاکہ کل کلاں کسی کو کوئی اعتراض نہ ہو اس لیے صاحب بہادر نے فیصلہ کیا کے کے گاؤں کے تینوں چوہدریوں کے درمیان مقابلہ ہو گا اور جو جیت جائے گا وہی صاحب بہادر کی پہلو نشینی کے لائق ہو گا۔صاحب بہادر نے جب اپنے پہلوان کو مقابلے میں کمزور پایا تو دونوں پہلوانوں کے بازو اور پاؤں کوتوال سے بندھوا لیے اور پھر بھی جب اپنے پہلوان کی جیت یقینی بنانے کے لیے پنچایتیوں کی خدمات مستعار لی ہیں۔
پنچایتی صاحب بہادر ٹکر کے پہلوان کے بازو باندھ کر مقابلے کا حکم دیتے ہیں اور امپائر بھی تب ہی سیٹی بجاتا ہے جب صاحب بہادر کے پہلوان کا سکور ہو پھر بھی کوئی ڈھیٹ قسم کا پہلوان مقابلے میں ہار نہ مانے تو اس جرم پر کوتوال کے حوالے کر دیا جاتا ہے یکطرفہ مقابلے میں بھی اپنی یقینی جیت کے لیے وقفے وقفے سے خطرہ خطرہ ہوشیار ہوشیار کا ورد بھی جاری ہے۔
سنتری دوڑتا ہوا آرہا ہے مگر گاؤں کے لوگ اپنے کاموں میں مشغول ہیں۔کوئی ہل جوت رہا ہے تو کوئی مٹی کے برتن بنانے میں مصروف ہے۔کوئی ٹانگہ ہانپ رہا ہے اور کوئی چرخا کاٹ رہا ہے۔کھلی فضاء میں بیڑ کے درخت کے نیچے بچے ایک دونی ایک دو دونی چار کا رٹا مار رہے ہیں۔کرسی پر گھر کے ستائے استاد جی خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ نہر پر دوشیزائیں کپڑے اور بال سوکھا رہی ہیں اور قریبی جنگل میں کوئی چرواہا معطر کن آواز میں بانسری کے سُر بکھیر رہا ہے۔
♥