ترکی میں نظام خلافت کا آغاز

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے نئی مدت کے لیے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اپنی کابینہ کا اعلان کر دیا ہے، جس میں انہوں نے اہم وزارتیں اپنے انتہائی قریبی ساتھیوں اور رشتہ داروں کے سپرد کی ہیں۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے پیر کی شام بطور سربراہ مملکت اپنی حلف برداری کے محض چند گھنٹے بعد اپنی نئی کابینہ کا اعلان کر دیا۔ نئی ملکی کابینہ صرف سولہ ارکان کے ساتھ کافی چھوٹی ہے۔ گزشتہ کابینہ میں وزراء کی تعداد چھبیس تھی۔ صدر ایردوآن نے متعدد وزارتیں اپنی قریبی معتمد رہنماؤں اور رشتے داروں کو دی ہیں۔

وزیر خارجہ کا عہدہ دوبارہ مولود چاوُش اولو کو دیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ بیرات البیراک کو بنایا گیا ہے، جو ایردوآن کے داماد ہیں۔ ترکی میں نئے صدارتی نظام حکومت کے تحت چونسٹھ سالہ ایردوآن کو بے تحاشا اختیارات مل گئے ہیں اور وہ پارلیمان کی منظوری کے بغیر بھی وزراء نامزد کر سکتے ہیں۔

رجب طیب ایردوآن گزشتہ قریب پندرہ برسوں سے اقتدار پر براحمان ہیں۔ تاہم حال ہی میں متعارف کرائے گئے نئے دستور کے مطابق ترکی کا پارلیمانی طرز حکومت تبدیل کر کے اسے صدارتی نظام حکومت میں بدل دیا گیا ہے، جس کے بعد صدر رجب طیب ایردوآن کے پاس غیرمعمولی اختیارات آ گئے ہیں۔

آئین کی شقوں میں تبدیلیوں کے بعد اب ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو جو اضافی اختیارات حاصل ہوں گے ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔

۔نئی وزارتیں تشکیل دے کر ان کی کارکردگی پر بھی نظر رکھ سکیں گے۔ اس کے علاوہ اب وہ پارلیمان کی منظوری کے بغیر سرکاری افسروں کو معطل کر سکیں گے۔

۔صدر ججوں اور دفتر استغاثہ کے بورڈ کے چار ارکان تعینات کر سکیں گے جب کہ ملکی پارلیمان بورڈ کے سات ارکان تعینات کرے گی۔

۔صدر ملکی بجٹ بنا سکیں گے اور ملکی سکیورٹی پالیسی کے بارے میں بھی فیصلہ کر پائیں گے۔

۔پارلیمان کی منظوری کے بغیر صدر ایردوآن ملک میں چھ ماہ تک کی مدت کے لیے ایمرجنسی نافذ کر پائیں گے۔

۔صدر ایردوآن کو ملکی پارلیمان تحلیل کرنے کا اختیار بھی حاصل ہو گا۔ تاہم اس صورت میں قبل از وقت صدارتی انتخابات بھی کرانا ہوں گے۔

نئی صدارتی مدت کے لیے حلف اٹھانے کے چند ہی گھنٹوں بعد دارالحکومت انقرہ میں ایردوآن نے نئی کابینہ کا اعلان کیا، جس میں ترکی کی وزارت خزانہ کا قلم دان اپنے داماد بیرات البیراک کے سپرد کیا گیا۔

اس نئی کابینہ میں ’مارکیٹ دوست‘ وزراء کی کمی کی وجہ سے ترک کرنسی لیرا کی قیمت میں اچانک شدید کمی واقع ہوئی، تاہم بعد میں لیرا دوبارہ مستحکم ہو گیا۔

ترکی میں سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مصطفیٰ کمال اتاترک ترکی کے مضبوط ترین رہنما تھے، تاہم اب کمال اتاترک کے بعد ایردوآن وہ واحد ترک رہنما ہیں، جنہیں اس حد تک اختیارات حاصل ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اتاترک نے ترکی کو ایک سیکولر جمہوری ریاست بنایا تھا تاہم حالیہ کچھ عرصے میں ایردوآن ایک مرتبہ پھر ترکی میں ’اسلامی اقدار‘ کے فروغ کا باعث بنے ہیں۔ جب کہ ملک کی سیکولر اشرافیہ کے مقابلے میں ایردوآن دور میں کئی ملین افراد کو غربت سے بھی باہر نکالا گیا ہے۔

یردوآن نے پیر کے روز کابینہ کے لیے ناموں کے اعلان کے بعد کہا، ’’ہم وہ نظام پیچھے چھوڑ رہے ہیں، جس کی وجہ سے ترکی کو سیاسی اور اقتصادی بحران کا سامنا رہا اور ترک عوام کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑی۔‘‘

اس نئے نظام کے تحت ملک سے وزیراعظم کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے، جب کہ صدر کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ پارلیمانی منظوری کے بغیر ہی کابینہ کے وزراء کا انتخاب کر سکتے ہیں جب کہ انہیں یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ کسی بھی سرکاری ملازم کو برطرف کر سکتے ہیں۔

ایردوآن کا موقف ہے کہ سن 2016ء میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں طاقت ور صدارتی نظام انتہائی ضروری ہے، تاکہ اقتصادی نمو اور سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔ تاہم ترکی کے مغربی اتحادی ممالک ایردوآن کی جانب سے مخالفین کے خلاف سخت اقدامات کے تناظر میں ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ ترکی تیز رفتاری سے آمرانہ طرز حکومت کی جانب بڑھ رہا ہے۔

DW

One Comment