عامر گمریانی
مارکیٹ میں پرانے مال کی نئی کھپت آ پہنچی ہے اور ہاتھوں ہاتھ بک رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک فقرہ ہر جگہ دکھائی دے رہا ہے “پہلی دفعہ کسی طاقتور کو سزا ہوئی ہے”۔ اس مال کے خریداروں کی خوشی دیدنی ہے۔ حالت ایسی ہے جیسے پہلی دفعہ کرکٹ ورلڈکپ جیت کے دوران تھی۔ ایک دوسرے کے منہ میں مٹھائیاں تک ٹھونسی گئیں۔
تین دفعہ اس ملک کے وزیراعظم رہنے والے بندے کو قوم کا پیسہ لوٹنے کے الزام میں اپنی بیٹی اور داماد سمیت سزا ہوئی ہے۔ اگر انصاف کے تقاضے پورے ہوئے ہیں تو بھی ایسی سزا ایک قوم کے لئے باعثِ شرم ہونی چاہئے، دوسری صورت میں تو جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ حیرت ہے جو ڈوب مرنے کا مقام ہے وہاں ہم بھنگڑے ڈال رہے ہیں اور پوری دنیا تماشا کر رہی ہے۔ مٹھائی خوشی کے موقعوں پر کام میں لائی جاتی ہے، گھر میت پڑی ہو تو شادیانے نہیں بجائے جاتے۔
اپنی نوعیت کی یہ پہلی سزا تو نہیں ہے لیکن مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہے تو کیا اس فیصلے سے دور دور تک کوئی امکان پیدا ہوا ہے کہ اب طاقتوروں کو بھی ان کے کئے کی سزا ملے گی؟۔ کیا کوئی دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہے کہ میاں نواز شریف واقعی طاقتور تھے؟ ارے ان کے پاس تو اتنی طاقت نہیں تھی کہ عوام سے حاصل کردہ ووٹ کے بل پر اس ملک کے فیصلوں میں اسی ملک کے آئین کا عطا کردہ اختیار ہی حاصل کرتے۔
آپ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے لیکن کہیں یہ پہلا فیصلہ آخری ہی نہ رہے۔ کرپشن کی روک تھام سے کسے انکار ہوسکتا ہے لیکن کیا میاں نواز شریف کے خلاف جو کچھ ہوا وہ نیک نیتی سے کرپشن کے سدباب کے لئے ہوا؟ اس سوال کا اثبات میں جواب بہت مشکل ہے۔
اس ملک میں طاقتور کو پہلی دفعہ سنائی جانے والی سزا مبارک ہو لیکن سارے طاقتور وزیراعظم نہیں ہوتے۔ جو جماعت طاقتور کی سزا کا کریڈٹ لے کر پھولے نہیں سمارہی اسی سے تعلق رکھنے والے ایک لیڈر کے کارندے ہاتھوں میں کلاشنکوف تھامے پرسوں ایک آدمی کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔ خوش قسمتی سے وہ صاحب مسجد میں ہوتے ہیں۔ اس کا بیٹا باہر نکلتا ہے تو بندوق بردار اس کو واضح پیغام دیتے ہیں کہ اپنے باپ کو سمجھاو ورنہ ہم سمجھا دیں گے۔ تنازعہ اور کچھ نہیں تھا بس یہ کہ وہ آدمی جگہ جگہ پانچ سالہ ناانصافی کا رونا روتے رہتے ہیں۔
ایک اور صاحب ہیں بلکہ پورا خاندان ہے جس کے کئی افراد پر قتل جیسے سنگین مقدمات ہیں۔ زبانِ خلق پر ان کے کارناموں کے قصے عام ہیں۔ کچھ سال پہلے ایک خاتون کو اس کے شوہر سمیت دن دیہاڑے قتل کیا گیا۔ مقتولہ کا اور کوئی قصور نہیں تھا اس کے سوا کہ بلیک میلنگ کی شکار ایک لڑکی کے ساتھ کھڑی ہوگئی تھی اور اس کے لئے انصاف کی متلاشی تھی۔ اس کی ضد پہ چونکہ یہ خاندان آرہا تھا لہذا اس کا قلع قمع ضروری تھا۔ شوہر بیچارہ مفت میں مارا گیا کہ قاتلوں کو خدشہ تھا کہ زندہ رہا تو کورٹ کچہری جائے گا اور خوامخواہ ٹینشن پیدا کرے گا۔ جس آدمی پر قتل کا الزام ہے وہ بھی اسی لیڈر کے بہت قریب ہے بلکہ اس کے ڈرائیور ہونے کا شرف بھی اسے حاصل ہے۔
ایسی بہت ساری مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن جانے دیں اب تو ویسے بھی طاقتوروں کو سزا دینے کا عمل شروع ہو چکا ہے امید ہے کہ جو جماعت اس کامیابی سہرا اپنے سر باندھ رہی ہے، وہ اپنی صفوں میں موجود طاقتوروں سے کمزوروں کو بچائے گی۔ سابقہ وزیراعظم اور اس کی بیٹی اور داماد کو اپنے کئے کی سزا مل چکی، اب امید ہے کہ یہ سلسلہ رکے گا نہیں، عدل کا کلہاڑا ہر طاقتور کے سر پر برسے گا۔
عدالت سارے طاقتوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی، طاقت کے سارے مراکز سے باز پرس ہوگی مگر اس سے پہلے طاقتوروں کو سزا دلوانے والی جماعت اپنے گھر سے آغاز کرے گی اور طاقتوروں کو نشانِ عبرت منائے گی۔ ہم اپنی آنکھوں سے طاقتوروں کو خوار ہوتا ہوا دیکھیں گے۔ کل کے سورج کے طلوع ہونے کا انتظار کیجئے،۔
♥