تزویراتی اثاثوں  کی قربانی دینی ہوگی

آصف جاوید

امریکا نے پاکستان کی 30 کروڑ ڈالر کی امداد منسوخ کردی ہے۔ اس کا اعلان  پینٹاگون کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل کونی فاکنر کی جانب سے کیا گیا ہے۔  پنٹاگون کی جانب سے اس تجویز کی امریکی کانگریس سے منظوری کے بعد امداد  کی معطلی کا نوٹیفیکیشن ستمبر کے آخر تک پاکستان کو بھیج دیا جائے گا۔

 پاکستان کے لئے یہ بہت بری خبر ہے، کیونکہ پاکستان پر  دفاعی اخراجات کا بوجھ بہت بڑھ چکا ہے۔ اور ملک کی معیشت کی بہت نازک صورتحال ہے۔ پاکستان پہلے ہی 92 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے ڈوبا ہوا ہے۔ تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ امریکہ نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان نےمتعدّد وارننگز کے باوجود  دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ  کوئی کن کارروائی نہیں کی ہے، اس لیے 30 کروڑ ڈالر کی امداد روک لی گئی ہے۔

اس سال کے شروع میں بھی کانگریس نے پاکستان کی 50 کروڑ ڈالر کی امداد روک لی تھی، اس طرح روکی گئی امداد کی مجموعی مالیت 80 کروڑ ڈالر ہوگئی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر شدت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں پاکستان کی امداد روکنے کا اعلان کیا تھا،  پنٹاگون  کی جانب سے  پاکستان کی امداد کی معطّلی  اس ہی کارروائی کا حصّہ ہے۔ امریکہ پاکستان  کی سرپرستی میں قائم تمام دہشت گرد گروہوں، جن میں حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ  سرِ فہرست ہیں کے خلاف فیصلہ کُن  کارروائی چاہتا ہے۔

پاکستان کو 80 کروڑ ڈالر کی امداد روکے جانے کا سخت قلق ہے۔پاکستان اس رقم کو امداد نہیں بلکہ اپنی محنت  کا معاوضہ سمجھتا ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ رقم  امداد نہیں  ہےبلکہ امریکہ کے ذمہ واجب الادا ہے ، کیونکہ پاکستان کو یہ رقم  کولیشن سپورٹ فنڈز کی مد میں ملنا تھی، جو کہ نئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ  کے اس اعلان کے بعد  بند کردی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ امریکہ نے گذشتہ 15 سالوں میں پاکستان کو 33 کروڑ ڈالر دے کر بہت بڑی بیوقوفی کی ہے ۔

ڈونالڈ ٹرمپ نے برملا الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان نے ہمیں سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کا پاکستان پر  مسلسل دباو ہے ، امریکہ چاہتا ہے کہ  پاکستان ، افغانستان میں سرگرم دہشت گرد طالبان گروپوں  کے خلاف فیصلہ کُن کارروائی کر کے ان کا خاتمہ کرے اور ان کی اپنے ہاں محفوظ پناہ گاہیں ختم  کرے۔

پاکستان کی امریکی امداد پہلی بار نہیں روکی گئی ہے۔ گذشتہ 71 سالوں میں پاکستان کی فوجی امداد متعدّد بار روکی گئی ہے۔  امریکی عسکری امداد کی بندش کی وجوہات میں سرِ فہرست وجوہات انڈیا سے جنگیں ،  پاکستان کا جوہری پروگرام اور دہشت گردوں کی پشت پناہی شامل ہے۔

امریکہ کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب  امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو اور اعلیٰ امریکی فوجی افسر جنرل جوزف ڈنفورڈ اسلام آباد کا دورہ کرنے والے ہیں۔مبصّرین کے مطابق اس مرحلے پر امریکی امداد کی بندش ،پاکستان پر دباو بڑھانے کی حکمتِ عملی  کا حصّہ ہے۔ امریکہ پاکستان سے اپنی شرائط پر معاملات طے کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی نئی سول حکومت کے لئے یہ بڑا چیلنج ہے، کہ وہ کیسے امریکہ سے اپنے تعلّقات استوار کرے ؟؟؟ ۔سول حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ     پاکستان میں دفاعی اور خارجہ پالیسی  پر سول حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ پاکستان کی دفاعی اور خارجہ پالیسیاں  عسکری قیادت   کا ڈومین ہیں ۔

ملک کی معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ  فوجی امداد کی بحالی کے لئے  عسکری قیادت کو دہشت گردی کی سرپرستی ہاتھ اٹھانا ہونگے، کسی بھی قسم کی اکڑ فوں ، دہری پالیسیوں اور وعدہ خلافیوں کے پاکستان کو سخت نتائج بھگتنے ہونگے۔پاکستان کے عوام کی قسمت کا فیصلہ عسکری قیادت کی دانشمندی پر منحصر ہے۔     پاکستان کو معاشی بدحالی کے گرداب سے نکلنے اور سول حکومت کو عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لئے  عسکری قیادت   کواپنے تزویراتی اثاثوں  کی قربانی دینی ہوگی۔ 22  کروڑ عوام کا مستقبل ، تذویراتی اثاثوں سے زیادہ اہم ہے۔

Comments are closed.