ٹیپو سلطان کا پاکستانی شناختی کارڈ

جمیل خان

یہ کراچی یونیورسٹی کے آرٹس ڈیپارٹمنٹ کی لابی کا ایک منظر ہے۔ جہاں جماعت اسلامی کے شاہین بچوں اور عقابی نگاہ رکھنے والے تاڑو بزرگوں کا قبضہ ہے۔ یہ احمقانہ شعر بھی انہی لوگوں نے چسپاں کیا ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جس کے بانی نے پاکستان کو ناپاکستان اور بانی پاکستان کو کافراعظم قرار دیا تھا۔

جہاں تک سر سید احمد خان، محمد علی جوہر اور ٹیپو سلطان کا تعلق ہے تو ان کا برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کی جدوجہد سے کوئی واسطہ یا تعلق نہیں تھا۔لیکن عقابی نگاہ رکھنے والے تاڑو بزرگ تو محمد بن قاسم کو بھی تحریک پاکستان کا رہنما قرار دے دیتے ہیں۔

یہ برصغیر کے مسلمانوں کا احساس محرومی ہے یا پھر ان کی کم ظرفی کہ وہ بیرونی حملہ آور لٹیروں کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں اور ان کے خلاف مزاحمت کرنے والوں اور اپنی دھرتی کی حفاظت کے لیے جانیں قربان کرنے والوں کو اپنا بدترین دشمن خیال کرتے ہیں۔

سندھ کا حال پھر بھی غنیمت ہے کہ یہاں محمد بن قاسم کو لٹیرا اور راجہ داہر کو ہیرو سمجھنے والے موجود ہیں، جبکہ پنجاب میں یونانی لٹیرے الیگزینڈر کو سکندراعظم پکارنے بلکہ اسے مسلمان حملہ آور سمجھنے والوں کی اکثریت ہے۔ وہاں سکندر نام کے افراد لاکھوں مل جائیں گے لیکن پورس شاید ہی کوئی ملے، جس نے ایک حملہ آور لٹیرے کی شدید مزاحمت کی۔

اکہتر برس قبل قائم ہونے والے ایک ایسے ملک کو جو درجن بھر قومیتوں اور لسانی اکائیوں پر مشتمل تھا، کتابوں میں تو ایک قوم کا ملک قرار دیا جاسکتا ہے، حقیقت میں ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔یہ خطہ کبھی سیوستان تھا تو کبھی ملتان۔ محمد بن قاسم سے قبل یہاں بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت تھی۔ کبھی یہ مسلمان خلافت کے ظلم و ستم سے تنگ آکر فاطمی اور اسماعیلی شیعہ کی پناہ گاہ بنا رہا۔

اس خطے کو انڈیا یا ہندوستان کا نام بھی سندھ کی تہذیب سے ملا، انڈس سولائزیشن کی وجہ سے ہی برصغیر کو انڈیا کہا گیا۔

اگر زیرنظر تصویر میں موجود یہ رہنما واقعی پاکستان کے قیام سے قبل پاکستان کے شہری تھے اور عقابی نگاہ رکھنے والے تاڑو بزرگوں نے انہیں ہندوستان کے شہروں میں پیدا ہونے کے باوجود پاکستانی شہریت دے دی ہے تو پھر انہیں چاہئیے کہ ہندوستان میں بسنے والے پچیس کروڑ مسلمانوں کو بھی پاکستانی شہریت دلوائیں۔

دو قومی نظریہ کا تقاضہ تو یہی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہندوستان کے ان پچیس کروڑ مسلمانوں میں سے چند ہزار کو چھوڑ کر باقی تمام اس شہریت پر تھوکنا بھی شاید پسند نہ کریں۔

Comments are closed.