علتِ غائی اور سماجی نظام کا تعلق

جہانزیب کاکڑ

کسی سماجی نظام کے اندر افراد کو متحرک کرنے والی قوتِ محرکہ کیا ہے؟ یا افراد کے تعلق سے مجموعی طور پر سماج کی قوتِ محرکہ کیا ہے؟

اسکے متعلق مفکرین کے ہاں دو اقسام کی آراء پائی جاتی ہیں ایک وہ لبرل مکتبِ فکر جو ذاتی مفاد کو ہی پورے سماجی نظام کی قوتِ محرکہ قرار دیتے ہیں،اور ایک وہ اجتماعیت پسند مکتبِ فکر،جو اجتماعی مفاد کو افراد کے تعلق سے پورے سماجی نظام کی قوتِ محرکہ قرار دیتے ہیں۔مگر اس ضمن میں معلمِ اول ارسطو کے علتِ غائی کا تصور  بھی ہماری مدد کر سکتا ہے۔علتِ غائی ارسطو کے وضع کردہ اُن چار تکوینی علتوں میں سے ایک ہے جو بعد ازاں ہئیت اور مواد جیسے دو بنیادی علتوں میں سمٹا دیئے گئے۔

علتِ غائی سے مراد وہ مقصد یا غایت ہے جو تکمیلی اعتبار سے مابعد اور سبب  کے اعتبار سے اوّل ہے۔ ہر شئے اپنے مقصد یا غایت کی طرف رواں دواں ہے، یعنی مقصد یا غایت ہی کسی شئے یا نظام کی حرکت کا تعین کرتا ہے۔مثلاََ ایک مجسمہ ساز جب کسی مجسمے کو تراشتا ہے تو اس کے تکمیلی مراحل میں چار علتیں کارِ فرما ہیں۔

ایک وہ غایت و مقصد جو مجسمہ ساز کے ذہن میں تجریدی طور پر موجود  ہوتا ہے اور جسے تکمیل کے زریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ دوسری علت وہ مادہ ہے جس سے کوئی مجسمہ ساز مجسمے کو صورت بخشتا ہے۔ تیسری علت  مجسمہ ساز کے ھاتھ اور وہ اوزار ہیں جو کسی مجسمے کو تراشنے کیلئے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ اور چوتھی علت ذہنِ مجسمہ ساز کے اندر وہ ہئیت یا صورت ہے جس کے نقشے پر کسی مادے کو تراش کر مجسمہ بنایا جاتا ہے۔مگر زیرِ بحث موضوع میں علتِ غائی کو ہی سماجی قوتِ محرکہ کے طور پر استعمال کیاجائے گا۔

سماجی زندگی کی غایتی یا محرکہ قوتیں یوں تو بیشمار ہو سکتی ہیں۔ مگر انفرادی واجتماعی دو بڑی غایتی علتیں، محرکہ قوتوں کے طور پر سماجی زندگی کو رواں دواں رکھتی ہیں۔ابتدائی اشتراکی سماج کا علتِ غائی، فطرت کی اندھی قوتوں کے مقابلے میں سماج کا اجتماعی ردِ عمل تھا، جو غذا کے حصول، زلزلوں، سیلابوں، طوفانِ برق و رعد ، کے مقابلے میں سماج کے اجتماعی نظم و ضبط کو برقرار رکھتا تھا۔

ابتدائی اشتراکی سماج کے بعد جتنے بھی سماج گزرے ہیں ان سب میں قوتِ محرکہ انفرادی مفاد پر مبنی رہا۔یعنی انفرادی غایت کے بغیر سماجی زندگی کا وجود ناممکنات میں سے تھا۔مطلق نجی غایت اگر ایک طرف سماج کی اجتماعی قوتِ محرکہ سے متصادم تھی تو دوسری طرف اجتماعیت کے بغیر اس کا سکہ چل بھی نہیں سکتا تھا۔ یہی وہ حالات تھے جس نے ریاست جیسے ادارے کو وجود میں لایا۔ تاکہ حتمی تباہی سے بچنے کے لیے سماج کی انفرادی واجتماعی غایتوں  کو کسی قانون اور قاعدے کے اندر لایا جاسکے۔چونکہ قانون اور قاعدے میں رکھنے کے باوجود انفرادی و اجتماعی غایتیں یا محرکہ قوتیں حتمی ٹکراؤ کی صورت اختیار کر لیتی جس کے نتیجے میں انسانی سماج   برابر تبدیل ہوتے رہے۔

اب تک انفرادی غایت پر مبنی تین انسانی سماج گزرے ہیں۔
۔۱۔غلام دارانہ سماج
۔۲۔جاگیردارانہ سماج
۔۳۔سرمایہ دارانہ سماج

ان سب میں انفرادی غایت کی بلند اور پیچیدہ سطح کے اعتبار سے سرمایہ دارانہ سماج سب سے مختلف رہا ہے۔ جس میں پیداوار کی شکل تو اجتماعی مگر اس کے پیداوار کی غایت یا محرکہ قوت انفرادی ہے۔ انفرادی محرکہ قوت کو چھپانے، نیم ظاہر رکھنے یا اسے اجتماعی دکھانے کے لیے اگرچہ سرمایہ داری نے سوشل ویلفیئرازم، ریاستی سر مایہ داری،محدود نیشنلائزیشن جیسے معاشی وسیاسی ہتھکنڈے استعمال کیے۔ مگر ہر طریقے کے اندر موجود انفرادی غائی جوہراجتماعی سماجی محرکہ قوت کے امکان سے ٹکراتا رہا۔

بیسویں صدی کے اوائل میں جب انفرادی علتِ غائی اپنی بیش تر تضادات کے ساتھ اجتماعی محرکہ قوتوں سے فیصلہ کن ٹکراؤ میں آگیا تو اس کے نتیجے میں پہلی جنگِ عظیم کے دوران سوویت یونین میں اجتماعی غائی قوتوں کی بنیادیں رکھ دی گئیں۔ جس نے اشتراکی پیداواری قوتوں کے ذریعے فرد کی انفرادی قوتِ محرکہ کو اجتماعی غایت سے ہم آہنگ کر دیا۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے سویت یونین نے اجتماعی غایت کے نفاذ کے تحت، سرمایہ داری کی پانچ سو سالہ ترقی کے مقابلے میں، ستر سال کے قلیل عرصے میں اجتماعی غایت کی، دنیا کے سامنے ایک روشن مثال پیش کر دی۔

چونکہ سرمایہ داری کے پاس سوویت یونین کے مقابلے میں سماجی اصلاحات کے لئے وافر  تکنیکی و معاشی سرمایہ موجود تھا۔لہذا اس نے سویت سوشلزم کی اجتماعی غایت کو مات دے کر  دنیا کو  دوبارہ انفرادی غایت کی محرکہ قوت میں جھکڑ دیا۔

سوویت یونین اور دیوارِ برلن کے انہدام پر بغلیں بجانے والی سرمایہ داری دو عشروں کے مختصر عرصے میں 2008 کے عالمی مالیاتی بحران اور اب کرونا وائرس نے اسکی انفرادی غایت پر مبنی کارستانیوں کو مزید بے نقاب کردیا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ سرمایہ داری نے اپنے وجود کی بقا کے لیئے جنگوں،  اور اجتماعی وباؤں جیسی ہنگامی حالت سے نمٹنے کیلئے اجتماعی غایت کے مصنوعی نفاذ  کی ضرورت کو تسلیم کیا۔ مگر مسقل بنیادوں پر موجود غربت، جہالت، بھوک،  بیماری، ناخواندگی، عدم مساوات جیسی ہنگامی حالت کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ یہاں پر اس کی اجتماعی غایت کی محرکہ قوتیں پسِ پردہ چلی جاتی ہیں۔لیکن اس نے انفرادی علتِ غائی کی بقا کے لیئے  غیر سائنسی تلبیسات کا جو جال بچھا رکھا تھا، کرونا وائرس کی حالیہ پھیلاؤ نے حقیقی سائنسی امکانات کے سامنے اسکی ساکھ کو بے نقاب کردیا۔

ناؤم چومسکی نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو کے دوران دنیا کے اوپر ماحولیاتی تبدیلی، ایٹمی جنگ، خطرناک آمریتوں کے سائے منڈلانے کی طرف اشارہ کیا۔ اس لئے مابعد کرونا دنیا کے لیئے بالکل بنیادی قسم کے سیاسی،سماجی اور معاشی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔

اب تک کے تاریخی تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ برسرِ اقتدار طبقے نےبرضا وتسلیم اجتماعی غائی قوتوں کے لئے کبھی جگہ نہیں چھوڑی اس لئے جلد یا بدیر ایک سماجی انقلاب کے ذریعے انفرادی غائی قوتوں کی غیر سائنسی فطرت کے مقابلے میں اجتماعی غایت کی سائنسی قوت پر مبنی نظام کا قیام، عمل میں لانا از حد ضروری ہے تاکہ بحیثیتِ مجموعی انسانی معاشرہ فطرت کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکے۔

One Comment