وٹس ایپ کے دور میں ہندوانتہا پسندوں کی نگرانی کاعروج اور مودی

تحریر: محمد علی

ترجمہ: خالد محمود

بھارت سرکار جو اپنی ڈیجیٹل خواندگی ،آن لائن سروسز اور شناخت کے لئے بائیومیٹرک سکیم پر ناز کرتی ہے اب بھی خاص مواقع پر سرکاری مواصلات کے لئے ریڈیو گرام استعمال کرتی ہے۔ایک ریڈیو آپریٹر اپنے ٹرانسمیٹر پر خفیہ پیغام بولتا ہے جسے دوسرے سرے پراگل دیا جاتا ہے اور فوراً ایک قانونی دستاویز تیار کر لی جاتی ہے۔31دسمبر 2015کو اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر کے سپر یٹنڈنٹ جیل کو وزارت داخلہ کی طرف سے ایسا ہی ایک پیغام ملا تھا جس پر ’’ارجنٹ‘‘ لکھا ہوا تھا۔

یہ پیغام ایک مقامی جیولر کے بیٹے ووک پریمی کے متعلق تھا جس نے اپنی بائیسویں سالگرہ حال ہی میں جیل میں گزاری تھی۔2015کی گرمیوں میں ووک پریمی نے قریبی قصبے شاملی کے ایک مسلمان مزدور محمد ریاض جو ایک بچھڑا لے کے جا رہا تھا،اس پر الزام لگایا تھا کہ وہ اسے قصاب کے پاس لے جا رہا تھا۔یہ ایک سنگین الزام تھا۔کئی ہندئوں کے نزدیک گائوکشی حرام ہے اور اتر پردیش میں تو یہ غیر قانونی ہے۔ریاض پر یہ الزام اور بھی سنگین ہو گیا کیونکہ ووک پریمی،اُس مقامی بجرنگ دل ( نوجون ہندئوں کی ایک بنیاد پرست عسکریت پسند تنظیم ) کا مقامی نیتا تھا ، جس نے گائو کشی کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا تھا۔

اپنے عسکریت پسند ساتھیوں کی مدد سے ریاض کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ کر شاملی کے بازار میں پیدل چلایا گیا۔سمارٹ فونز سے لیس ایک بڑا ہجوم اکٹھا ہوگیا تھا کیونکہ پریمی نے اپنی بیلٹ سے ایک گھنٹہ تک ریاض پر اتنا تشدد کیا تھا کہ وہ بے ہوش ہو گیا تھا۔پریمی ایک جنونی کی طرح گائو کُش گائو کُش کے نعرے لگاتا رہا۔بہت جلد بازار کے کناروں پر ایک بڑی بھیڑ امڈ آئی تھی کیونکہ جلد ہی پریمی کے سرِعام تشدد کی ویڈیو وٹس اپ اور یُو ٹیوب پر نشر ہو چکی تھی۔

شاملی اور مظفر نگر گنّے کی کاشت والے نیم صنعتی علاقے ہیں جو دہلی کے شمال میں ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر ہیں اور یہ کبھی بھی میڈیا کی توجہ کا مرکز نہیں بنے۔اگر کبھی ان کی خبر آتی بھی ہے تو وہ فرقہ ورانہ تشدد پر ہی ہوتی ہے۔2013میں بھی یہاں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں پچاس لوگ مارے گئے تھے اور قریباً پچاس ہزار در بدر ہو گئے تھے۔

اتر پردیش پر اس وقت ڈیموکریٹک سوشلسٹ پارٹی کی حکومت تھی جس نے اس خطرے کو بھانپ لیا تھا کہ پریمی اسی طرح کے فسادات کی وجہ بن سکتا ہے اسے نیشنل سیکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا تھا جس کے تحت حکومت کسی بھی شخص کو نقص امن کے اندیشے سے گرفتار کر سکتی ہے۔پریمی پر فسادات پھیلانے،تشدد کرنے اور توہین آمیز نعروں کے علاوہ اور امن برباد کرنے کے سنگین الزامات تھے۔ریاض کو تو پولیس نے پہلے ہی مویشی سمگل کرنے اورجانوروں پر ظلم کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔پریمی کئی مہینے جیل میں بند رہا۔

مگر اب دہلی کی مرکزی حکومت مودی کی قیادت میں ریڈیو گرام کے ذریعے اس معاملے میں کود چکی تھی۔اور اب تو بجرنگ دل اپنی مربی کٹر دائیں بازو کی پارٹیوں بھارتیہ جنتا پارٹی،دیگرہندو ملیشیا اور راشٹریہ سویم سنگھ کے جنگجووں کے ساتھ میدان میں اتر چکی تھی جو بھارت کو جبراً ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔

ریڈیو گرام میںیہ اعلان کیا گیا تھاکہ وزارت داخلہ پریمی کو حراست میں رکھنے کے ریاستی فیصلے کومنسوخ کرنے کی خوشخبری دیتی ہے۔اور نوجوان ہندونگران کو فوراً رہا کیا جائے اگر اسے کسی اور جرم میں زیر حراست رکھنا ضروی نہیں۔اور پھر پندرہ جنوری 2015 کو مظفر نگر جیل کے باہراس سے بھی بڑا تماشا ہوا جس کا مرکزی کردار ووک پریمی تھا۔سو سے زیادہ موٹر سائیکل سوار سخت سردی سے بچنے کے لئے گرم سویٹرز پہنے سر شام ہی جیل کے باہر اکٹھے ہو چکے تھے۔مقامی شوگر ملوں سے ایک ہلکی بیمار میٹھی سوگند ہوا میں معلق تھی۔ہجوم نے پلاسٹک کے تھیلوں میں گیندے کے ہار پکڑیے ہوئے تھے اور بہت پرجوش تھے ۔دوسروں نے سمارٹ فونز سے دھوم مچا رکھی تھی جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتہا پسند ممبران اور افسران شامل تھے۔سخت سردی کے باوجود ان کے شور بہت جوشیلا تھا۔جیسے ہی سو اچھ بجے جیل کا آہنی دروازہ کھلا ہجوم خوشی سے نعرے لگانے لگا تھا۔

سلوٹوں سے بھرے کرتے میں ملبوس ایک نوجوان باہر نکلا۔جیل میں چھ ماہ کے دوران اس کی ڈاڑھی بڑھ چکی تھی۔اس نے مونچھوں کو اوپر کی طرف تاؤ دے رکھا تھا جس سے اس کا گول مٹول چہرہ زیادہ عمر کا لگتا تھا۔ہجوم اپنی خوشی پرقابو نہ پاتے ہوئے تیزی سے اس کا استقبال کرنے کو لپکا۔ایک نے آگے بڑھ کر اس کے کندھوں پر کیسری شال ڈالی اور ماتھے پر تلک لگایا۔لوگوں نے نعرے لگائے دیکھو دیکھو کون آیا ہندوؤں کا شیر آیا۔اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں اور کندھوں پر بٹھا کے رات کے اندھیرے میں گم ہو گئے۔

پریمی برابر پرجوش اور حیران تھا کہ شاید یہ کسی کی شادی کا جلوس ہے۔اس رات جب وہ گھر میں پر سکون ہو چکا تھا تو اس نے گھر والوں سے اپنا فون مانگا تاکہ یہ دیکھ سکے کہ اس کے جیل کے دنوں میں کون کون اسے پیغامات بھیجتے رہے تھے؟پریمی نے اپنی سم لینوو اے6000 میں ڈالی اور اپنا فیس بک اکائونٹ کھول لیا۔

یہ نوجوان ہندو جنگجو اور ہندوتوا کا چوکیدار سوشل میڈیا کا زیادہ شوقین نہیں تھا۔وہ کبھی کبھار اپنے کزنز سے بات چیت کرنیکے لئے فیس بک استعمال کرتا تھا۔اور زیادہ وقت سڑک پر کاروائیوں میں گذارتا تھا۔جیسے ہی اس کا اکاؤنٹ کھلا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہزاروں پیغامات اور فرینڈ ریکویسٹ اس کی منتظر تھیں۔وہ پیغامات پڑھنا چاہتا تھا مگر اس کا فون ہینگ ہو گیا اور اسے فون بند کرنا پڑا۔بعد ازاں پیغامات کی ایسی ہی یلغار اسے وٹس اپ اور ٹوِٹر پر بھی ملی جسے اس نے خال ہی چھو کر دیکھا تھا۔ان سب کو دیکھنے اور اپنی شہرت کے وسیع دائرہ کار پر عملداری میں اسے کچھ دن لگے تھے۔

اس کا محمد ریاض کو مارنا بھارت میں ایک قومی خبر تھی۔اور سوشل میڈیا سے پریمی یہی جان پایا کہ زیادہ لوگوں نے اس کا دفاع کیا ہے۔اور اب مودی سرکارکا اس کی رہائی کا حکم اسے واپس قومی دھارے میں لے آیا تھا۔اسے احساس ہوا کہ وہ اتر پردیش کے متوسط ہندو گھرانوں کا گھریلو نام بن گیا ہے اور بہت ساروں نے اس کے انتہا پسند عقیدے سے جُڑت بنائی ہے کہ ہندو دھرم خطرے میں ہے اور مسلمان اسے اسلامی ملک بنانے کی سازش کر رہے ہیں۔اس کے سراہنے والے اس سے مزید امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔

پریمی کا کہنا کہ سوشل میڈیا کی طاقت سے یہ اس کا پہلا تعارف تھا۔سوشل میڈیا کے بارے اس کے اپنے ابتدائی شکوک و شبہات تھے ۔اس کے نزدیک اس میں بُڑ بُڑ تو بہت تھی پر ایکشن نہیں تھا۔اس کے برعکس اب اس نے اس کی رفتار کو ضبط میں لانے کا عزم کر لیا۔رہائی کے بعد وہ ٹوٹر پر بھی آگیا اور اس نے لکھا میں واپس آ گیا ہوں۔میںدیکھتا ہوں کس ماں کے لعل میں اتنی جرات ہے کہ وہ گائے کو ذبح کر سکے۔اگلے سال تک وہ اتر پردیش کے بجرنگ دل کا بڑا لیڈر بن چکا تھا۔

میں نے2012سے 18 تک بھارت کے دوسرے بڑے انگریزی اخبار ہندو میں بطور سٹاف رائیٹر کے کام کیا تھا۔پہلے میں نئی دہلی میں تعینات تھا جہاں میں نے زندگی کا نصف حصہ گزارا تھا۔لیکن مئی 2014 میں، نریندر مودی کے وزیر اعظم منتخب ہوتے ہی میں نے مغربی اتر پردیش میں تبادلہ کرانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔کیونکہ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ راجدھانی کے باہر حقیقت میں کیا ہو رہا ہے۔

چناؤ میں کچھ عرصہ سے مودی کے امکانات کی حمایت کی گئی تھی ۔بہت سارے ہندوستانیوں اور بالخصوص لبرلز انگریزی اخبار نویسوں کے نزدیک اس کی جیت چونکا دینے والی تھی۔کانگریس پارٹی جس نے آزادی کے بعد سے ہندوستان پر بغیر کسی رکاوٹ کے حکومت کی تھی اسے مودی کے اتحاد نے ایک غیر متوقع شکست فاش دی تھی۔یہ ایک بنیادی سچائی تھی جس کا جذب کرنا مشکل تھا۔کئی سالوں سے مودی کی ساکھ ایک ہندو رائیٹ ونگ انتہا پسند کی حیثیت سے مسلّم تھی۔بچپن میں آر ایس ایس کی یوتھ کور میں خاکی وردی پہننے سے،عسکریت پسندوں کی تنظیم سازی سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو نفرت انگیز فرقہ بازی میں استوار کرنے تک ایک حیرت انگیز ہم آہنگی کی نمائش تھی۔اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ مودی کی پہچان ہی یہ تھی کہ 2002 میں اس کی وزارت اعلیٰ کی عین ناک کے نیچے صوبہ گجرات میں تین روزہ قتل و غارت کا بازار گرم ہوا تھا جس میں 790 مسلمان ہندو انتہاپسند وں کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔

لیکن حالیہ برسوں میں مودی اپنے آپ پر کسی بھی طرح سے اکیسویں صدی کے بنیادی ڈھانچے اور سوشل میڈیا پر مکمل گرفت کے باعث ایک روشن کاروبار دوست ،اور ٹیکنالوجی کے یُوٹوپئیائی ناقابل عمل تصور کی چھاپ لگوانے میں کامیاب رہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کا ایک بڑا مضطرب طبقہ اور بین الاقوامی اشرافیہ اس کے اس کے اس نئے امیج کا خریدار ہے ۔لیکن زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ کروڑوں ہندوستانیوں نے اس کے پرانے امیج بشمول وٹس اپ گروپوں میں اسلام دشمن نفرت انگیزی اور زہر اگلنے کو ہی کو ہی ووٹ ڈالا تھا۔دہلی میں رہتے ہوئے اس وسیع و عریض طبقے کو فیس ٹو فیس دیکھنا بہت مشکل تھا ۔مگر اس کے لئے مجھے دہلی سے زیادہ دور بھی نہیں جانا پڑا تھا۔

اتر پردیش بائیس کروڑ آبادی کے ساتھ راجدھانی دہلی سے منسلک ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست ہے۔اپنے آکار کے برعکس اتر پردیش بھارت کی تنگ مزاج جمہوریتوں میں سب سے اگلی بھیڑ ہے جس کے گلے میں گھنٹی بندی ہے۔یہ ریاست بیک وقت ہندو سرزمین کا بنیادی مرکز بھی ہے اور یہاں 43 ملین مسلمان آباد ہیں جو ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت بھی ہیں۔اور اس ریاست کا شمال مغربی کونہ جہاں میں جا رہا تھا فرقہ ورانہ تشدد اور بد نظمی کی ’’فالٹ لائن‘‘ تھا۔

مودی کے چناؤ کے موسم گرما میںایک خاص کہانی ہندی پریس کی بلاک بسٹر بن چکی تھی جس میںمیرٹھ شہر کے مسلمان مردوں نے مبینہ طور پر، ایک جوان ہندو عورت کو اغوا کیا اسے مدرسہ میں لائے اس کے ساتھ گینگ ریپ کیا اور پھر اسے اسلام قبول کروایا گیا تھا۔اس کا تجزیہ ’’لَوجہاد‘‘ کے طور کیا گیا تھا اور یہی واقعہ ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی سازش بنا جس میں مسلمانوں پر وسیع پیمانے پر جنسی تعلقات اور ڈیٹنگ کے ذریعے اسلام پھیلانے کا الزام لگا۔اس کہانی کے تناظر میں اتر پردیش کے آتش بدہن ممبر اور ہندو پجاری یوگی آدیتہ ناتھ نے’’لَو جہاد‘‘ کو اپنی چناؤ کی مرکزی تشہیر کا حصہ بنایا۔

میرٹھ ہی وہ قصبہ تھا جہاں میری تعیناتی ہوئی تھی۔چنانچہ میں نے آتے ہی اس عورت کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔وہ مجھے مل گئی تھی اور مجھے یہ پتہ چلا کہ اس نے اجتماعی آبروریزی کابیان واپس لے لیا ہے۔اس نے بتایا کہ اس کے گھر والوں نے کیس مضبوط کرنے کے لئے یہ الزام دباؤ کے تحت ڈلوایا تھا۔وہ دراصل مدر سے کی ایک ٹیچر تھی اور اسے ایک نوجوان مسلمان سے محبت ہو گئی تھی جس نے کبھی بھی اسے مسلمان کرنے کا دباؤ نہیں دالا تھا۔کہانی کا دلخراش نتیجہ یہ ہوا کہ ان دونوں نے شادی کر لی تھی۔اور میں نے شادی کی تقریب پر رپورٹ لکھی تھی۔لیکن ہندو پریس کے ایک بڑے حصے نے اس ریکارڈ کو درست کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔اس کے بجائے میڈیا مسلمانوں کے بارے میں ایک روایتی داستان میں کھو گیا تھا۔اس جون مہینے میں ووک پریمی کا ریاض پر حملہ اس پر تشدد نتیجے کا ابتدائی اشارہ تھا۔

اس اثناء میں مودی عالمی سٹیج پر ان خوفناک تضادات کے باوجود ہوا میں اڑتے رہے۔ستمبر 2015کے آخر میں وزیراعظم نے سلیکون ویلی کے سی ای اوز کے ساتھ اپنی ڈیجیٹل انڈیامہم اور تمام ہندوستانیوں کے لئے تیز رفتار انٹرنیٹ کے منصوبے کے لئے خوشامدانہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا ۔امریکہ پہنچنے کے فوراً بعد ہی مودی نے خاموشی سے جموں کشمیر میں،جو ہندوستان کی مسلم اکثریت والی واحد ریاست ہے میں انٹر نیٹ بند کر دیا تھا۔یہ شٹ ڈاؤن تین دن کے لئے تھا جسے بعد میں لمبے عرصے تک چلانا تھا۔

ستائیس ستمبر کو پالو آلٹو کے ٹائون ہال میں ایک کھلی میٹنگ کے دوران مارک زوکربرگ نے فیس بک کے سمجھداری سے استعمال پر مودی کی تعریف کی تھی۔زوکر برگ نے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے لیڈر کا فیس بک کا موثر استعمال دوسرے عالمی راہنمائوں کے لئے ایک مثال ہے کہ وہ اپنے شہریوں سے کس طرح رابطے میں رہتے ہیں۔ مودی جس کی پارٹی کے آتش بدہن کارکن جھوٹی خبریں پھیلانے میں مصروف تھے جواب میں مسکرا دیے۔

اگلے ہی دن مودی کے ہندوستان میں سب سے زیادہ رپورٹ ہونے والا مشتعل ہجوم کی جانب سے پر تشدد ہلاکت کا واقع ہوا۔شمال مغربی اتر پردیش کے گاؤں بشہرہ میں ایک مشتعل ہجوم محمد اخلاق لوہار کے گھر حملہ آور ہوا جس کے ہمسائے نے اس پر بچھڑا چوری کرکے ذبح کرنے کا جھوٹا الزام لگایا تھا۔کسی مقامی ہندو مندر سے اعلان کر کے ایک بڑا ہجوم اکٹھا کر لیا تھا۔جب تک پولیس آئی محمد اخلاق اینٹوں ڈنڈوں اور چاقوئوں کے وار کی تاب نہ لاتے ہوئے مر چکا تھا اور اس کا بیٹا شدید زخمی ہو چکا تھا۔اس وقوعے کے فوراً بعد جب میں بشہرہ پہنچا تو تو گائوں والے حیران تھے کہ اخلاق کے مرنے پر اتنا واویلا کیوں جب کہ ایک بچھڑا بھی تو مر گیا تھا۔

اگلے تین سال کے دوران میں نے لنچنگ کے جو آٹھ واقعات میں نے رپورٹ کیے تھے، اخلاق کی لنچنگ اس سلسلے کا پہلا واقعہ تھا۔کیونکہ میری ذمہ داری تھی کہ فرقہ ورانہ تشدد کی تفتیش پرمفصل جانکاری دوں۔نفرت انگیزی پر مبنی جرائم پر شائع ہونے والی فیکٹ چیک رپورٹ کے ڈیٹا کے مطابق2009 سے 2018 کے درمیان اقلیتوں پر 254 حملے ہوئے تھے ان میں سے نوّے فیصد حملے مودی کے 2014میں اقتدار میں آنے کے بعد ہوئے تھے۔ھیومن رائیٹس واچ کے مطابق2015 سے2018 کے درمیان 12 ہندوستانی ریاستوں میں گائو کُشی کے الزامات میں44 افراد قتل ہوئے تھے۔ان میں 36 افراد مسلمان تھے۔اور 2015 سے لنچنگ جس کی جڑیں اٹھارویں صدی کے امریکہ سے وابستہ ہیں اب باقاعدہ ہندوستانی زبان کا حصہ بن چکی ہے۔

بجرنگ دل ان حملوںکی ایک بڑی تعداد میں شامل رہا ہے۔یا تو وہ براہ راست اس تشدد میں ملوث تھا یا پھر پرائیویٹ سوشل چینلز پر پراپیگنڈا کے ذریعے اسے کنٹرول کر رہا تھا۔ریاض پر وحشیانہ حملے کے بعد اس گروپ کے درجنوں انتہا پسندوں نے مسلمانوں پر حملے کی ویڈیو بنائی تھیں اور اسی طرح کے سین بنائے گئے تھے جس سے پریمی کو ایک وائرل سنسنی خیزی ملی تھی۔اس کے بعد پریمی کی جیل سے رہائی نے ہندو متشدد چوکیداری کو ایک نیا سانچا فراہم کیا تھا:جس سے اس امید کو تقویت ملی تھی کہ ہندوتوا کی خدمت میں کئے گئے ہر تشدد پر سزا نہیں ملے گی۔

ھیومن رائیٹس واچ کے مطابق 2015سے 18کے دوران گائو رکھشا کے بلوائیوں کے ہاتھوں14 قتل کے دوران پولیس نے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تفتیش روک دی تھی اور جرائم کی پردہ پوشی کے لئے مجرمانہ ملی بھگت کا مظاہرہ بھی کیا تھا۔2017 میں میں ہمسایہ ریاست راجستھان سے گذر ہوا جہاں ایک مسلمان ڈیری فارمر پہلو خان پر مبینہ طور پر بجرنگ دل کے لوگوں نے حملہ کیا تھا جس میں پہلو خان مارا گیا تھا۔حملے کے دوران ویڈیو بھی بنائی گئی تھی اور مرنے سے پہلے مقتول نے اپنے بیان میں حملہ آوروں کے نام بھی بتائے تھے ایک مجرم نے اعتراف جرم بھی کیا تھا اس کے باوجود قاتلوں کو بری کر دیا گیا تھا۔تکنیکی بنیادوں پر ویڈیوز کو عدالت نے ناقابل قبول قرار دیا تھا۔

اس استثنا کا الٹا پہلو یہ ہے کہ جو لوگ حقائق کو منظر عام پر لاتے ہیںوہ اکثر اس کے برے نتائج بھگتتے ہیں۔ستمبر2017 کے شروع میں صحافی گوری لنکیش جس نے ہندو انتہا پسندوں پر تنقید کی تھی اپنے گھر سے باہر گولی مار اسے قتل کر دیا گیا تھا۔اگلے چند ہفتوں میں میں صحافیوں کی بڑی تعداد کو مجھ سمیت دھمکی آمیز پیغامات دیے گئے تھے۔ چنانچہ میں نے ہندوستان میں رپورٹنگ سے رخصت لی اور آخر کارامریکہ چلا گیا ۔

میں نیو یارک میں آباد ہو نے کے بعد بھی ووک پریمی کے بارے میں سوچتا رہا تھا۔اتر پردیش میں میرے قیام کے دوران نئی کہانی کی کھوج میں میری اس سے فون پر ایک دو دفعہ بات ہوئی تھی۔اور میں اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ بجرنگ دل میں اس کا اس قدراوپر پہنچ جانا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔2017 میں وہ اتر پردیش طالب علم ملیشیا کا چیف بن گیا تھا۔اور شاملی میں اس کے کارکنان کے یونٹ کو اسٹیٹ آف دی آرٹ کا درجہ حاصل تھا۔گلیوں اور انٹرنیٹ پر ان کا گشت اور نگرانی جاری تھی وہ ایک حلقے میں مارپیٹ کرتے اور دوسرے حلقے میں اسلام دشمنی کا پراپیگنڈا اور نگرانی کرتے تھے۔عسکریت پسند انتہا پسند گروپوںمیں پیش رفت کے منظم شیڈول کے مطابق پریمی ریاست میں بجرنگ دل کا سربراہ یا نائب سربراہ بننے کے لئے قطار میں تھا۔ایسا لگتا تھا کہ آج کے ہندوستان کی بہت ساری طاقتورقوتوں اور ہندو مڈل کلاس کی خوشامد، سوشل میڈیا کے وسیع تناظر میںبھارتیہ جنتا پارٹی کی خاموش حمایت اس کی پشت پر ہے۔میں یہ جاننا چاہتا کہ وہ کیونکر اتنا کامیاب رہا اوربجرنگ دل کس طرح کام کرتا ہے۔

جب میں نے اس سے آمنے سامنے انٹرویو کی درخواست کی تھی تب مجھے یقین نہیں تھا کہ وہ کیسے ردِ عمل ظاہر کرے گا؟کیونکہ میرا نام ہی یہ اعلان کرتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔لیکن وہ مجھ سے بات کرنے کو راضی ہوگیا۔چنانچہ جنوری 2019 میں واپس ہندوستان لوٹا۔

جیل سے اس کی رہائی کے ٹھیک تین سال بعد میں نے شاملی کی ایک گلی کے کونے پر اس سے ملاقات کی تھی۔میں نے یہ جانتے ہوئے کہ عجیب وغریب ہونے کی ضرورت نہیں ہے اس سے حال ا حوا ل پوچھ لیا تھا۔وہ ایک مسلّط شخصیت ہے۔اس کے ماتھے پر ایک نمایاں تلک چمک رہا تھا۔اور اس کے دائیں کان کی لو میں چاندی کا ایک بندہ آویزاں تھا۔اس نے سفید استری کیا ہوا کرتا پہنا تھا جس پر بغیرآستین والی سر خ صدری پہنی تھی اور پائوں میں سفید تلووں والے کالے جوتے تھے۔ ہندو روایت کے مطابق اس کے سر کے پیچھے ایک گندھی ہوئی چٹیا لٹک رہی تھی۔اور اس کے چاروں طرف خوشامدی نوجوانوں کا چنگل تھا۔

پریمی نے کچھ ہی فاصلے پر مقامی بجرنگ دل کا اجلاس بلایا تھا۔اس نے مجھے ساتھ آنے کی دعوت دی۔اس کے ایک خوشامدی نوجوان نے اس کی2008 ماڈل رائل اینفیلڈ بلٹ موٹر سائکل سٹارٹ کی جس کی لائسنس پلیٹ کے اوپر’’ ہندو راج ‘‘کھدا ہوا تھا۔ایک اور نوجوان اسے پیار سے دیکھ رہا تھا بولا وہ جب بھی چشمہ پہنے اورماتھے پر تلک لگائے شہر کی سڑکوں پر گھومتا ہے گائے ذبح کرنے والے بھاگ جاتے ہیں۔

مسلمانوں کے گنجان محلے میں بجرنگ دل کا دفتر ایک مستقل خطرے کی صورت بیٹھ گیا ہے۔موٹر سائیکل سے نیچے اترنے کے بعد پریمی نے رک کر گلی کا اوپر نیچے دائیں بائیں اس طرح جائزہ لیا جس طرح جیل کی کوٹھری کا گارڈ اس کا جائزہ لیتا ہے۔نزدیکی دکان کا حلوائی اسے جھک کر سلام کرتا ہے اور اس کے چہرے سے خوف جھلکتا ہے۔باقی دکانداروں نے خالی نظروں سے پیچھے دیکھا تھا۔جب ہم اوپر جانے کے لئے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے تو اس نے کہا یہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔میں ان میں سے کئی ایککی مرمت کی ہے ۔ مطلب مارپیٹ کی ہے۔

بجرنگ دل نے اپنے دفاتر کے لئے کئی پرانے دھرم شالوں اور یاتریوں کے لئے مہمان خانوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ہندو ملیشیا کے نیتائوں نے ان پر اس دلیل سے قبضہ کر رکھا ہے یہ عمارتیں لازماًہندو دھرم کی سیوا کے لئے رہیں گی ۔یہ تقریباً اسّی سالہ پرانی عمارت تھی جس کی جگہ جگہ سے سیمنٹ سے مرمت اس کی عمر چھپا رہی تھی۔اندر ،مقامی بجرنگ دل کے چھ ارکان فرش پر بچھی ایک پھولدار چادر پر اپنے اپنے موبائل فونز سے جڑے بیٹھے تھے۔جب پریمی اندر داخل ہوا تو انہوں نے ہندوتوا کے نعرے جے شری رام کے ساتھ استقبال کیا تھا۔

کمرے کے درمیان میں ایک تکیے پر بیٹھ کر پریمی نے سرعام مارپیٹ کا ذکر کیا جس کی وجہ سے وہ مشہور ہوا تھا۔مجھے اس کا کوئی افسوس نہیں ہے میں نے تو بس یہ دکھانا تھا کہ اگر کوئی قصاب گائے ذبح کرے گا تو ہم اس سے نمٹ لیں گے۔گائو کشی اب بجرنگ دل کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ بی جے پی سرکار اس کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔

سنہ2017 میں مودی کی پارٹی نے اتر پردیش کا کنٹرول حاصل کر لیا اور یوگی آدیتیہ ناتھ کواس کا چیف منسٹر مقرر کیا جو کہ بنیاد پرست ہندو پجاری ہے۔جس نے وزیراعلیٰ بنتے ہی ’’لَو جہاد‘‘ کے خطرے کے خلاف مہم چلائی تھی۔آدیتیہ ناتھ نے بھینسوں کا گوشت برآمد کرنے والی صنعت کے خلاف مہم چلائی تھی جس سے زیادہ تر مسلمان ہی وابستہ ہیں۔اور ان پر اکثر گائو کشی کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں۔اور تب سے کئی مذبح خانوں کو بند کر دیا گیا ہے۔

اس کی بجائے پریمی کے شاملی یونٹ کے ارکان کی توجہ لَو جہاد کے خلاف مرکوز تھی۔عملی طور پر ایک لاکھ آبادی کے اس شہر میں یہ سابق جرمن تبظیم سٹیسی کی طرز پر شہر بھر کی ڈیٹنگ کو مائیکرو مینج کرنے کی کوشش تھی جس میں پہلی نظر میں ہی مذہبی گمراہی کو دور کیا جا سکے۔انہوں نے فیس بک اور گلیوں میںموجود مخبروں کانیٹ ورک استعمال کرتے ہوئے کڑی نگرانی کا آپریشن شروع کر رکھا ہے۔

سوشل میڈیا پر’’ ڈریگ نیٹ ونگ‘‘ ایک ڈاڑھی والا نوجوان ھمانشو شرما چلاتا تھاجو دیوار سے تکیہ لگائے آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔اس نے بتایا کہ وہ اور اس کی ٹیم ہر گروپ میں گھس کر ہزاروں افراد سے دوست بن کر اس تاک میں بیٹھے ہیں ہیں کہ شاملی کے مسلمان مرد ہندو لڑکیوں کے ساتھ دوستیاں نہ لگائیں۔شرما نے کہا کہ ہم اس بات کی بھی نگرانی کرتے ہیں کہ کونسی فیس بک آئی ڈی سے کس طرح کے تبصرے کرتی ہے ۔وہ اپنے جذبات کے اظہار میں زیادہ لطافت سے کام نہیں لیتے جس ہمارا کام آسان ہو جاتا ہے۔کبھی کبھی وہ اور اس کی ٹیم عورتوں کے نام سے جعلی آئی ڈی بنا کے مردوں کی شناخت کرتی ہے ۔جب وہ بات کر رہا تھا تو اس کا سمارٹ فون مسلسل اطلاعات سے بھنبھنا رہا تھا۔

جب وہ بات کر رہا تھا تو اس دوران پریمی میں اپنے موبائیل فون میں مگن تھا۔جس سے اس کے جاسوسوں کے مقامی نیٹ ورک تک رسائی ممکن تھی۔جب ان مخبروں کو شک ہوتا کہ کوئی ہندو عورت مسلمان مردکے ساتھ ہے تو یہ فوراً بجرنگ دل کو خبردار کر دیتے ہیں۔سیکیورٹی گارڈ،چوکیدار،ہوٹلوں کے بیرے،ہوٹلوں کے مالکان اور گھریلو ملازمین یہ سب ہماری ٹیم کا حصہ ہیں۔یہ نظام اس لئے موثر ہے کہ وہ مقامی لوگوں میں گمنام ہی رہتے ہٍیں لیکن وہ ہماری آنکھیں ہیں۔

ریمی کے پاس ہی اس گروپ کا عمر میں سب سے بڑا آدمی بیالیس سالہ جیتندر رانا بیٹھا تھا جو خود کو پریمی کا استاد کہتا تھا۔رانا نے بتایا کہ ریاست میںبی جے پی کی سرکار بننے کے بعد بین المذاہب پیار کے ممعاملات بہت کم ہو چکے ہیں۔لیکن بجرنگ دل کا مخبروں کے لئے ایک ہی پیغام تھا کہ جاسوسی بہت اہم ہے۔اگر آپ انہیں دیکھیں تو ہمیں بتائیں ہم خود ہی ان سے نمٹ لیں گے۔

جب میں نے اس کی مثال دینے کو کہا تو اس نے یہ کہانی سنائی تھی۔2018میں اکتوبر کی ایک صبح ایک لَو جہاد ایمرجینسی کی اطلاع ملی تھی۔ایک جوڑے نے ہوٹل میںکمرہ بک کروایا تھا۔ہمارے مخبر ویٹر کا خیال تھا کہ وہ شخص ایک مسلمان تھا۔وہ اور اس کی گرل فرینڈ باقاعدگی سے جنسی ملاپ کے لئے آتے ہیں۔

پریمی ،شرما اور رانا کے مطابق بیس منٹ میں بجرنگ دل کا ہجوم ہوٹل کے باہر جمع ہو گیا تھا۔ہجوم نے کمرہ بک کروانے کے لئے جو آئی ڈی استعمال کی تھی ہجوم نے اسے دیکھنے کا مطالبہ کیا۔عسکریت پسند کمرے کے باہر جمع ہو کر دروازہ پیٹنے لگے۔جب جوڑے نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا تو ہجوم نے دروازہ تورنے کا متفقہ فیصلہ کر لیا۔

یہ جوڑا عمر کی بیسویں دہائی میں تھا۔لڑکا لمبا اور مضبوط جسم کا مالک تھا۔اس کی شیو چنددن سے بڑھی ہوئی تھی۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر سکے بجرنگ دل نے اسے قابو کر لیا تھا۔ہم نے لڑکے کی فزیوتھراپی کی تھی ۔ رانا نے تشدد کے لئے کوڈ ورڈ فزیو تھراپی استعمال کیا تھا۔انہوں نے اسے ایک کمرے کی الماری کے قریب کھڑا کر کے کہا کہ کپڑے اتارو تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ اس کا ختنہ ہوا تھا یا نہیں؟ختنہ یقینی نشانی تھی کہ وہ ہندو نہیں تھا۔گروہ نے اسے پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔

عورت نے دعویٰ کیا کہ وہ مرد اس کا شوہر ہے۔اس نے یہ ثابت کرنے کے لئے اپنا شناختی کارڈ بھی دکھایا۔ہجوم کے ممبران نے جرح کی یہ آئی ڈی کارڈ جعلی تھا۔لڑکی اپنی بات پر ڈٹی رہی۔پریمی نے اس کے گھروالوں کو فون کیا جو لڑکی کی ایک مسلمان سے دوستی بارے نہیں جانتے تھے ۔لڑکی کے گھر والوں نے اس کی نوکری چھڑوا کر اسے گھر رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔

باقی آئندہ۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے کلک کریں

مزید پڑھیے

Comments are closed.