سندھی ادب کا جارج برنارڈ شا: حلیم بروہی


حسن مجتبیٰ

وہ کے ایل سہگل اور جارج برنارڈ شا کے بیچ کی کوئی چیز تھا لیکن سندھیوں نے تا زندگی اسے مسخرہ جانا۔ یعنی مزاح نگار سے زیادہ ایک کامیڈین۔ اسی لیے اس کا کوئی بھروسہ نہیں کہ وہ اپنے جنازے میں سے کب اپنا ایک ہاتھ باہر نکالتے ہوئے اسکی دو انگلیوں سے وینما نشان بناتے ہوئے ٹھیٹھ سندھی بجا” (لعنت) اپنے دوستوں دشمنوں کی طرف کرتے ہوئے علامتی طور پر کہتے کہ : “بلہیا اساں نئيں مرنا گور پیا کوئی ہور۔

لیکن سندھی زبان کا یہ اعلی پایے کا لکھاری، ماہرلسانیات، مزاح نگار اور سب سے بڑی بات کہ ایک زبردست انسان حلیم بروہی مرگیا۔ اسکی موت کی خبر مجھے ایک دوست نے حیدرآباد سندھ سے برستی بارش اور نصرت فتح علی خان کی موسیقی کے بیچ میں سنائی کہ ایک بری خبر ہے کہ حلیم بروہی فوت ہوگئے۔ حلیم بروہی کی موت کی خبر پر مجھے فلم ڈیتھ ان فیونرلیاد آئی۔ بدھ کی صبح اسلام آباد میں ایئر بلیو کے اندوہناک حادثے میں سو سے زائد لوگوں کی ہلاکتوں والے عظیم المیے میں سندھی ادب اور سندھ کے اس عظیم المیے پر کون رکتا ہے کہ زندگی کا ریل رقص بہرحال جاری رہتا ہے۔

حلیم بروہی جو خود کو ایک فلسفی کے طور پر، اور اسکے مداح، مخالفین اور پڑھنے والے اسے ایک مزاح نگار کے طور پر پہچانتے تھے نے سندھی ‌زبان اور ادب کو اپنی عمر کی نصف صدی دیدی تھی۔وہ بھی میرے دوست ظفریاب کی طرح ایک فرد تھا جس کی لڑائی اداروں اور خود کو ادارے سمجھنے والے افراد یا گروہوں سے تھی پھر اس میں اسکی بیوی ہی کیوں نہ آجائے۔ حلیم اپنے وقت سے بہت پہلے کی چیز تھا۔ یعنی کہ حلیم آگے اگے تھا اور سندھ میں اسکا دور اسکے پیچھے پیچھے اپنے تمام چھری کانٹوں کیساتھ۔
۔حلیم نے تمام سنجیدگی سے سندھی زبان اور اسکی رسم الخط پر کام کیا تھا اور لسانیات میں ایک نظریہ یہ پیش کیا تھا کہ سندھی زبان رومن رسم الخط میں لکھی پڑھی جانے چاہیے۔ تو پس عزیزو! حلیم بروہی کی اتنی سی بات کو قوم و زبان سے بغاوت سمجھ لیا گیا اور بڑے بڑے نام نہاد عالم اکابر و نا قدین حلیم کے دشمن ہوگئے۔
عبد الحلیم بروہی جو کہ بنیادی طور پر پیشے کے حوالے سے وکیل تھے نے اپنے لکھنے کا آغاز 1960 کی وسط سے انگریزی اور اردو زبانوں سے کیا۔ انہوں نے1969میں اپنے اپنے طنزیہ مضامین کا مختصر مجموعہ پاپ رائٹنگزخود اپنی ہی جیب سے چھپوا یا اور پھر انکا خاص کارنامہ انگریزی جاسوسی ادب میں شرلاک ہومز کے ڈاکٹر واٹسن سمیت تمام کرداروں کو دیسی اور سندھی رنگ دیکر کر پیش کرنا ہے جو تا عمر قائم رہا۔ شرلاک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن سندھ آتے ہیں اور وہ بالکل سندھی یا دیسی تھانیداروں کی طرح سنگین جرائم کی تفتیش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ حلیم بروہی کے قلم کا یہ کرشمہ ہوسکتا تھا کہ اسکے پھر سے تخلیق کردہ شرلاک ہومز اور ڈاکٹر واٹسن ضیا ءالحق سے لیکر بنیظیر بھٹو کے قتل تک کے معمے حل کرسکتے تھے!۔

حلیم بروہی1970 کی دہائی سے سندھی ادب کے قارئین میں اپنا لوہا تب منوانے لگے تھے جب یہ عشرہ سندھی ادب و شاعری کا ایک سنہرا دور یا رنائسنس کہلاتا تھا اور ماہنامے سوہنیجیسے موقر جریدے میں حلیم بروہی کی کہانیاں اور تحریریں باقائدگی سے چھپنے لگيں۔ یہ سندھی زبان کے مشتاق احمد یوسفی تو نہیں تھے لیکن حلیم بروہی حلیم بروہی تھے اور اپنی شناخت لیکر آئے تھے۔

وہ مجھ سے کھجوروں کے پیچھے ملی اور بار بار ملی حتیٰ کہ وہ حاملہ ہوگئيجیسی سطریں لکھنے پر ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں حلیم بروہی کی ایسی تحریر شایع کرنے والے سندھی ہفت روزہ برسات سمیت فحاشی، ملک دشمنی اور نظریہ پاکستان مخالف مواد کے الزامات لیے تب بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلیکیشن جیسے قانون کے تحت چالیس سے زائد سندھی جرائد اور کتابوں پر پابندی لگائی گئی اور بہت سے جرائد و کتب پر وہ پابندی تاحال قائم ہے۔

اسی طرح حلیم بروہی نے سندھ کے ایک اور صدیوں پرانے دانش بھرے اور حاضر جواب کردار وتایو فقیرکو جدید زمانوں میں ڈھال کر پیش کیا – بیسویں صدی کے سندھی اور دیسی سماج اور مسائل میں گھرا اور اسے حل کرتا ہوا وتایو فقیر۔

حلیم بروہی نے اپنے لیے کہا تھا کہ وہ ایک فلسفی ہیں لیکن لوگوں نے انہیں مسخرے کے طور پر لیا ہوا ہے۔ حلیم بروہی اصل میں اپنی سندھی تحریروں میں چیک ادیب میلان کنڈیرا اور امریکی لکھاری اور ناول نگار کرٹ وونیگٹ کی کاٹ اور طنز کا امتزاج لیےہوئےتھے۔ وہ اپنی طنز میں میلان کنڈیرا کی مزاح کی تعریف کی اس حدوں سے بھی آگے نکلتا تھا کہ مزاح وہ ہے جب کسی میت کو قبر میں اتارتے وقت کسی کے سر کا ہیٹ مرنے والی کی قبر میں گرجائے۔ یعنی کہ برف میں آگ لگانے کا کام صرف حلیم ہی کرسکتا تھا۔ حسین عورتیں، اچھی شراب اور عمر خیام کی رباعیات حلیم کی کمزوری تھیں اور کس خوبصورت انسان یا اہل دل کی نہیں ہوسکتیں! میں اس میں حافظ کے ترک شیرازی کا بھی اضافہ کروں گا۔

لیکن سب سے زیادہ سنجیدہ کام اسکا پہلا اور اب تک باقاعدہ آخری جدید سندھی ناول اوڑاہ تھا جو1980 کی دہائی میں شایع ہوا جو بلاشبہ جدید سندھی ادب میں ایک شاہکار کے طور پر مانا جاتا ہے۔ 1980 کی ہی دہائی میں حلیم بروہی نے اپنی تحقیق سے یہ نظریہ لسانیات قائم کیا کہ سندھی زبان کا لکھنے اور پڑھنے میں رومن رسم الخط ہونا چاہیے۔ یہ بات انہوں نے کیا چھیڑی جیسے تا حیات شہد کے چھتے میں جوتا پھینک دیا۔

حلیم کو علم و دانش کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے کبھی معاف نہیں کیا۔ حلیم بروہی جو کہ اب سندھ یونیورسٹی میں ملازمت کرنے لگے تھے نے ایسا لگتا تھا کہ سندھ میں دور جاہلیہ کے خلاف قلمی جنگ میں مصرف ہیں۔ حلیم جعلی دانشوری اور دو نمبر ادیب پنے کے سخت خلاف تھے اور ہمیشہ اسکے خلاف سینہ سپر رہے۔ انہوں نے اسٹار، ڈان، فرنٹیئر پوسٹ اور کاوش میں باقاعدہ لکھا اور اپنے پڑھنے والوں اور مداحوں کا فرقہ پیدا کیا۔ وہ سینارٹی کامپلیکس کے خلاف ایک سرجن کا نشتر رکھتے تھے اسی لیے بڈھے بڈھے ان کیخلاف اور نوجوانوں کا ایک جم غفیر انکے پیچھے لگا ہوتا تھا۔ کشور کمار کے گانے کی طرح کبھی پرانے نہیں ہوتے تھے۔
وہ گنے چنے ان سندھی ادیبوں میں سے تھے جو مکمل شہری پس منظر رکھتے تھے ۔ساری عمر انہوں نے حیدرآباد سندھ کے صدر علاقے میں گذاری وہیں پلے اور بڑھے تھے جہاں انکے والد عبد العزیز بروہی انگریزوں کے زمانے میں پولیس اور سی آئي ڈي کے کمانی یا ایس پی تھے۔ جنسی و لسانی تعصب کا چھات چھوت انہیں چھو کر بھی نہیں گذرا تھا۔ اسی طرح وہ پہلے سندھی ادیب تھے۔

وہ اپنے محلے کی مشہور بمبے بیکری کے کیک کی طرح لذیذ اور میٹھے انسان بھی تھے اور جھمپیر کی تاڑی کی طرح نشیدار اور کڑوے بھی شیخ ایاز کے بعد انکی موت سندھی ادب میں ایک بہت بڑے آدمی کی موت ہے۔ ایک بدفضیلتی اور بے عقلی پر ایک بڑے قہقہے کی موت ہے۔ انکی موت تنہائی کی موت ہے جو کہ ہر اس شریف اور سچے انسان کی ہے، کہ وہ مرد ہو یا عورت جس جس نے بھی اپنا صلیب اپنے ہی کاندھوں پر اٹھایا ہوا ہے۔ وہ کیتلی کی طرح منہ پھٹی ہوئی بیقدری قوم کا ادیب تھا۔

Comments are closed.