مولوی ملّا نہیں، مسلم سماج کو ایک اور سرسید درکار

ظفر آغا

خدا کسی قوم کو ایسا برا وقت نہ دکھائے جیسا کہ مسلم اقلیت اس وقت اس ملک میں دیکھ رہی ہے۔ آج مسلم قوم کی کوئی قیادت نہیں۔ اس کی کوئی آواز یا کوئی زبان نہیں۔ اس کا ووٹ بے معنی اور بے اثر ہو چکا ہے۔ اس کا حال و مستقبل سب اندھیرے میں ہے۔ وہ جائے تو جائے کہاں، کرے تو کرے کیا، کوئی راہ سجھانے والا نہیں۔ اب تو بس مودی راج ہے اور سنگھ کی سیاست ہے جس کا چہار سو ڈنکا بج رہا ہے، وہ کیا کرے اور کون سا راستہ اپنائے، یہ سوال پہاڑ کی مانند اس کے سامنے کھڑا ہے۔ چہار سو بس مسلم زوال کی ایک داستان ہے بس جس کا سامنا ہے اور جس سے پناہ کا فی الحال کوئی راستہ نہیں ہے۔

یوں بھی مسلم زوال کی داستان کوئی نئی داستان نہیں ہے۔ سنہ 1857 میں مغلیہ سلطنت زوال کے ساتھ ساتھ اس کا جو زوال شروع ہوا تو بس رکنے کا نام ہی نہیں لیتا ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں اس زوال کے اسباب اور اس کے حال کے تعلق سے کوئی سنجیدہ بحث بھی نہیں ہوتی ہے۔ اس نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ لیکن جیسے ہی محمد علی جناح نے بٹوارے کی سیاست شروع کی تو اس کے ایک بڑے اور بااثر طبقے نے سنہ 1947 میں بٹوارے کی جذباتی سیاست کا فیصلہ لیا۔ بس وہ دن اور آج کا دن ہندوستانی مسلمان کے ہاتھ پاؤں کٹ گئے۔ مولانا آزاد چیختے رہ گئے لیکن ان کا کوئی سننے والا نہ بچا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بٹوارا ہوا اور ہندوستانی مسلمان خود اپنے آبائی وطن میں بے آسرا ہو گیا۔

آزادی کے بعد سے اب تک بھی مسلم سماج میں اپنی ترقی کے تعلق سے کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ ایک سرسید احمد خان نے ہندوستانی مسلمان جدید دور سے جوڑنے کے لیے ایک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تو ضرور کھولی۔ پھر گاندھی جی کی قیادت میں دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام ہوا۔ اس کے علاوہ کوئی کوشش خود کو دور حاضر سے جوڑنے کی ہوئی ہی نہیں۔ وہی پدرم سلطان بورڈقصہ پارینہ کی لن ترانیاں، وہی زمیندارانہ قدروں کا اوڑھنابچھونا اور وہی قوم کا سودا کرنے والے علماء اور جذبات بڑھکاؤ تقریر کرنے والوں کی قیادت، اس کے سوا سنہ 1947 سے اب تک ہندوستانی مسلمان نے اور کچھ کیا ہی نہیں۔

مسلم قوم میں تعلیم کا یہ عالم ہے کہ آج دلتوں میں گریجویٹ کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ جس قوم میں جدید تعلیم عنقا ہو وہ تنزلی کے علاوہ کس بات کا شکار ہو سکتی ہے۔ یاد رکھیے کوئی سیاسی جماعت کسی قوم کا مستقبل نہیں بناتی ہے۔ یہ کام خود ہر قوم کی قیادت کو خود کرنا ہوتا ہے جس کا مسلمانوں میں مکمل فقدان ہے۔ آزادی کے بعد سے اس جانب کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ صرف اقلیتوں میں سیاست کی اندھی تقلید جس نے قوم کو دوسرے درجے کی شہریت تک پہنچا دیا۔

مسلمان نے کم از کم پچھلے تیس برسوں میں جس قیادت کو اپنا قائد مانا اس نے تو قوم کی راہ میں گڑھے کھودے۔ وہ قیادت ایسی قیادت تھی کہ جس کی سیاست سے مسلمان کو صرف نقصان اور بی جے پی اور سنگھ کو تقویت پہنچی۔ وہ شاہ بانو کیس کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ کا رول رہا ہو یا پھر بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا طرز سیاست دونوں سے بی جے پی کے بھاگ کھل گئے۔ ہر طرز سیاست سے بی جے پی نے ہندو رد عمل پیدا کیا اور ملک میں ایسا زبردست ہندو ووٹ بینک بن گیا کہ اب ملک ہندو راشٹر ہے۔

تین طلاق معاملے میں پرسنل لاء بورڈ کی ضد نے سنگھ کو اس پروپیگنڈے کا موقع دیا کہ مسلمان چار شادیاں کر کے اس ملک کی ہندو اکثریت کو اقلیت بنانا چاہتا ہے۔ ویسے ہی بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی نعرہ تکبیر کی سیاست سے بی جے پی نے ہندو کو یہ سمجھانے کا موقع دے دیا کہ صاحب ہمارے بھگوان رام کے لیے ایک مندر نہیں، یہ جہاں چاہیں مسجد بنائیں۔ یہ سب غلط پروپیگنڈا تھا۔ لیکن بی جے پی اسی طرح ہندو رد عمل پیدا کر یہاں تک آگئی اور مسلمان کہیں کا نہ بچا۔ جس قیادت سے پوری قوم کا مستقبل ختم ہو جائے اس قیادت کو زہر نہیں تو اور کیا کہا جائے گا۔ لیکن ہندوستانی مسلمان فسادوں میں مارے جانے کے باوجود اسی قیادت کے پیچھے بھاگتا رہا اور آخر کہیں کا نہیں رہا۔ ایسے تمام قائد ملت آج لاکھوں کی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں اور قوم جہنم میں پہنچ گئی ہے۔

لیکن گھبرائیے نہیں۔ قوموں سے تاریخی غلطیاں ہوتی ہیں اور مسلمانوں سے بھی وہی غلطی ہوئی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے ہے کہ سماجی انقلاب اور نئی راہ عموماً سخت اندھیروں سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اس وقت ایک سماجی انقلاب کی ہی ضرورت ہے۔ اور یہ انقلاب کسی سیاسی سماج کے کندھوں پر سوار ہو کر نہیں آتا۔ یہ انقلاب ہر قوم کو خود اپنی کاوشوں سے پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اور سماجی انقلاب تب ہی پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے جب کسی قوم میں مجموعی فکری انقلاب بپا ہوتا ہے۔ اور اس کے لیے ایک مجموعی جدید فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔

سر سید احمد خان وہ واحد مسلم مفکر تھے جنھوں نے ہندوستانی مسلمان کو جدید دور سے جوڑنے کا راستہ دکھایا تھا۔ اور وہ راستہ سرسید کے بقول جدید تعلیم کے بغیر نہیں حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن محض جدید تعلیم سے کام نہیں چل سکتا ہے۔ مسلمان کو ایک نشاط ثانیہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود کو فکری طور پر جدید دور سے جوڑ سکے۔ یہ کام ہندو سماج میں مختلف لیڈران نے کیا۔ لیکن مسلمانوں میں سر سید تحریک کچھ عرصے بعد ٹھنڈی پڑ گئی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب پوری قوم دوسرے درجے کی شہریت کو پہنچ رہی ہے۔ جس قسم کا اس وقت سماجی انقلاب چاہیے وہ کام مسلم پرسنل لاء بورڈ و بابری مسجد جیسے جذباتی پلیٹ فارم نہیں پیدا کر سکتے ہیں۔

اس بے پناہ اندھیرے سے نکلنے کا راستہ صرف یہی ہے۔ فکری طور پر مسلمان خود کو جدید دور کے تقاضوں سے منسلک کرے۔ یہ کام مولوی ملّا یا جذباتی سیاست کرنے والے لیڈران سر انجام نہیں دے سکتے۔ اس کام کے لیے مسلم سماج کو ایک اور سر سید درکار ہے۔ کیونکہ سرسید کی بصیرت سے مسلم سماج میں پھیلا اندھیرا چھٹ سکتا ہے اور ایک نئی روشنی پیدا ہو سکتی ہے۔

روزنامہ قومی آواز، نئی دہلی

Comments are closed.