فریڈرک ڈگلس :اقلیت کی حکمت اور یک جہتی کی حقیقی معنویت

تحریر: ماریا پاپووا

’’ہر معاشرے کے تجربے میں وہ مقامات آتے ہیںجب مقرر کردہ قائدین عوام الناس کے دلوں کو خراب اور ان کے ذہنوں کو گمراہ کرنے کے لئے ایک سادہ سچائی کو پیچیدہ، پُراسرار،مبہم اور الجھانے کی خاطراپنے ذہن کی پوری طاقت لگا دیتے ہیں۔تب سب سے عاجز لوگ ظلم کے سیلاب کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔

سنہ1850 میںکرک گارڈ نے اپنے جریدے میںتنہائی اور بے دخلی میں سلگتے ہوئے کہا تھا؛ حقیقت ہمیشہ اقلیت کے ساتھ ٹھہرتی ہے۔ کیونکہ اقلیت ہمیشہ اُن لوگوں سے تشکیل پاتی ہے جو اپنی آزادانہ رائے رکھتے ہیں۔جب کہ اکثریت کی طاقت پُرفریب ہوتی ہے جو ان غنڈوں سے تشکیل پاتی ہے جن کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی ہے۔

بحرِاوقیانوس کے پار غیر معمولی استعداد، صراحت اور ردِ ثقافت کی جراٗت کا مالک ایک اورصاحب بصیرت مختلف راستے سے اسی نتیجے پر پہنچ رہا تھا جس نے عمر بھرایک جوان اور باہم متصادم قوم کو اس مشکل اور ناگزیر سچائی تک بیداری کے لئے سخت محنت کی تھی۔

اسی سال بتیس سالہ فریڈرک ڈگلس(1818 تا1895 ) نے غلامی کے خلاف ایک طاقتور اعلان کیا تھا جو اس کی منتخب شاندار تقریروں میں شامل ہے۔

کم و بیش ہر برادری کے تجربے میں ایسے اوقات آتے ہیں جب اس کا ایک عاجز ترین فرد بھی مناسب طریقے سے تعلیم دینے کا ارادہ کر سکتا ہے۔جب عقل مند اور عظیم مقرر کردہ ( سلیکٹڈ ) قائدین عوام الناس کے دلوں کو خراب اور ان کے ذہنوں کو گمراہ کرنے کے لئے ایک سادہ سچائی کو پیچیدہ، پُراسرار،مبہم اور الجھانے کی خاطراپنے ذہن کی پوری طاقت لگا دیتے ہیں۔تب سب سے عاجز لوگ ظلم کے سیلاب کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔جب وہ قدرت کی عطا کردہ بہترین صلاحیتوں کو رائے عامہ کو گمراہ کرنے اور عوام کے دلوں کو خراب کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔تب وہ عاجز ظلم کے سیلاب کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کی اس جراٗت پر درگزر ہونا چاہیے۔

فریڈرک ڈگلس نے جب ولئیم لائیڈ گیریزن کی غلامی کے خلاف تحریک میں ایک نئے سفری مقرر کی حیثیت سے اپنی شروعات کی تو وہ اُن سفید فام خواتین کی ظلم کے خلاف اجتماعی جدوجہد کی مثالوں سے ہر طرح سے متاثر تھے۔یہ وہ خواتین تھیں جنہوں نے اپنی ذاتی مشکلات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس تحریک میں بھرتی،چندہ اکٹھا کرنے اور تنظیم سازی میں شدید مہم جوئی اور بے دخلی کی قیمت پر مرکزی کردار ادا کرتے ہو ئے اُسے یک جہتی کے حقیقی معنی سکھائے تھے۔

یہ وہ خواتین تھیں جنہیں خود اپنے ہی ملک میں غلامی کی منسوخی اور سیاہ فام مردوں کے ووٹ ڈالنے کے حق ملنے کی نصف صدی بعد ووٹ ڈالنے کا حق ملا تھا۔یہ وہ تاریخ سازخواتین تھیں جن میں سے ایک نے آخر کار ایک ڈگلس سے محبت اور شادی کی تھی۔

اس دور میں ایک دوست کو لکھے گئے خط میں جس دور میں اس کی ہم عصر مارگریٹ فُلر امریکی آزادی نسواں کی بنیادیں استوار کر رہی تھیں اپنی متحرک اخلاقیات کہ ’’ جب تک ایک بھی شخص ادنیٰ اور غلام ہے تب تک کوئی بھی آزاد اور شریف نہیں ہو سکتا‘‘ کے جذبے کے تحت جیل خانوں میں اصلاح اور سیاہ فام شہریوں کے لئے ووٹ کا حق مانگ رہی تھیں ۔ڈگلس نے پینسلوینیا میں غلامی کے خلاف کئی جلوسوں کا ذکر کیا ہے جس میں اسے اور اس کے گیریزونین ساتھیوں کو مقامی لوگوں نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔اس نے مٹھی بھر مقامی لوگوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اپنے مقامی لوگوں کے خلاف ان کا ساتھ دیا تھا اور ان کی مدد کر کے البر کامیو کے اس اصرار کو شہادت دی تھی کہ حقیقی سخاوت کا مستقبل اسی میں ہے کہ سب کچھ لمحہ موجود کو سونپ دیا جائے۔ اور جیمز بالڈون کی تاکید کہ ہمیں اخلاقی ماحول کو اکثریت میں تبدیل کرنے کی جراٗت کرنی ہوگی کیونکہ اسی پر قوم کی زندگی کا انحصار ہوتا ہے۔

ڈگلس نے لکھا تھا: اس جگہ ہمارے کچھ دوست اور خواتین بھی تھیں جن کی کسی صورت حوصلہ شکنی نہیں ہونی چاہئیے جو اعلیٰ مقصد اور اصولوں کی خاطر ہزاروں میں اکیلی ثابت قدمی سے اپنی روحانی تسکین کے لئے پوری سنجیدگی اور متانت سے ڈٹی رہیں اور اپنی پوری برادری کی نفرت اور غصے کا نشانہ بنی رہیں انہوں نے میرا دل جیت لیا تھا۔ان کا خلوص اور جذبہ ہمارے قائد ولئیم لائیڈ گیریزن سے کسی طور کم نہ تھا۔خدا انہیں تمام مصائب اور آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے طاقت ،برکت اور استقامت دے جس میں سے وہ اپنے اعلیٰ اصولوں کی خاطر گذریں گے ۔کئی دہائیوں کی طویل اور دور رس مشکلات سے کمائی شہرت پر وہ دوبارہ نظر ڈالیں گے جب وہ ’’دی لائف اینڈ ٹائمز آف فریڈرک ڈگلس ‘‘کو پڑھیں گے۔

جب غلامی کے خلا ف تحریک کی سچی تاریخ لکھی جائے گی تو اس کے زیادہ صفحات پرخواتین کو جگہ ملے گی کیونکہ غلامی کے خلاف تحریک کی بنیادی محرک خواتین ہی تھیں۔

تحریک آزادیِ غلاماں کو آگے بڑھانے میںعورت کے خلوص ،لیاقت، قوت اور اعلیٰ خدمات کی ممنونیت نے مجھے اس پر مناسب توجہ دینے پر مجبور کیا ہے جسے حقوق نسواں کہا جاتا ہے۔،مجھے خواتین کے حقوق کا آدمی کہا جاتا ہے اور مجھے اس نامزدگی پر کبھی شرمندگی نہیں ہوئی ۔جیمز بالڈون کی بے دماغ اکثریت کی مزاحمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آکتاویا بٹلر کے لیڈر کے چنائو کی ہدایات پر عمل کریں۔اور پھر ڈگلس کی سوزن بی انتھونی سے یادگار دوستی کے جشن کا جائزہ لیں۔

: https://www.brainpickings.org/بشکریہ:۔

ترجمہ: خالد محمود

Comments are closed.