لیاقت علی
گذشتہ کچھ دنوں سے پاکستانی کی سیاسی فضا میں گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ اس قومی مکالمے کی ضرورت کااحساس پہلے پہل معروف صحافی انصار عباسی نے اپنے ایک کالم میں دلایا تھا۔ انصار عباسی کا راولپنڈی سے تعلق چونکہ بہت گہرا سمجھا جاتا ہے اس لیے کچھ سیاسی لیڈرز نے خیال کیا کہ یہ تجویز راولپنڈی کے متعلقہ حلقوں سے آئی ہے۔
انصار عباسی نے اپنے ایک دوسرے کالم میں یہ کہہ کر اس تاثر کو مضبوط کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ایسے قومی مکالمے کے انعقاد پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور وہ کسی نہ کسی شکل میں اس قومی مکالمے کی ضرورت کو سمجھتی اور اس کا حصہ بننے کی خواہاں ہے۔
مسلم لیگ نوازکی رہنما مریم نواز نے قومی مکالمے کی اس بحث کو اپنے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں یہ کہہ کر مہمیز لگائی کہ فوج میرا دارہ ہے اور اس سے بات چیت کے لئے تیار ہیں لیکن یہ مکالمہ آئین کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے ہوگا اور اوپن ہوگا پس پردہ کچھ نہیں ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے فریقین کون سے ہوں گے؟ خاقان عباسی کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں، میڈیا، فوج اور عدلیہ ممکنہ فریق ہوسکتے ہیں۔میڈیا اور عدلیہ کو اس قومی مکالمے میں شامل کرنا محض اتمام حجت ہے وگرنہ ان دونوں کا اس مکالمے میں کوئی رول نہیں ہے۔ میڈیا پرائیویٹ ہاتھوں میں ہے اور اس مقصد ماسوائے منافع کمانے کے اور کچھ نہیں ہے۔ عوام کی تعلیم و تربیت محض اس کے منافع کمانے کے کام کی بائی پراڈکٹ ہے اور جہاں تک عدلیہ کا تعلق ہے تو آج کا تک کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ریاستی اقتدار پر قابض فوج کا ہتھیار ہے اور جہاں اور جس طرح وہ چاہتی ہے اس کو استعمال کرتی ہے۔
قومی ڈائیلاگ سیاسی جماعتوں اور فوج کے مابین منعقد کرانے کے خواہش مند خواتین وحضرات کی یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ پاکستان کے آئین میں فوج کا رول متعین ہے اور آئین کی موجودگی میں فوج نے آج تک جو کچھ کیا ہے وہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔آئین پاکستان کے عوام اور ان کی نمائندہ جماعتوں کو متفقہ بیانیہ ہے اس کی موجودگی میں کسی نیشنل ڈائیلاگ کی ضرورت نہیں ہے۔ فوج اور دوسرے اداروں اور محکموں کو آئین کی سپر میسی کے روبرو اپنا سر جھکانا چاہیے اور جو ادارہ اور محکمہ ایسا نہیں کرتا وہ آئین کا مخالف ہے اور اس کی سزا آئین میں متعین ہے۔
کیا فوج اور اس کی لیڈرشپ کو نہیں معلوم کہ آئین میں اس کا کیا رول ہے ان کو بخوبی اس کا علم ہے لیکن اس کے باوجود وہ زور زبردستی اور بندوق کے زور پر ریاستی اقتدار پر قابض ہیں۔ یہ سمجھنا کہ اسے کسی مکالمے کے ذریعے ریاستی اقتدار سے بیدخل کیا جاسکتا ہے خوش فہمی تو کہلا سکتی ہے زمینی حقایق اور ماضی اور حالیہ تاریخ اس کی تائید نہیں کرتے۔ فوج جسے کچھ لوگ مفلوف انداز میں اسٹیبلشمنٹ کہنا پسند کرتے عوام کی مسلسل جدوجہد کے بغیر ریاستی اقتدار سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔لہذا اسے کسی دلیل یا مکالمے سے اس بات کا قائل نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ریاست اقتدار سے پیچھے ہٹ کر اپنے آئینی رول تک خود کو محدود رکھے۔ اس پر عوامی دباو بڑھانا ہوگا اور یہ دباو اور جدوجہد ہی ایسے ہتھیار ہیں جو اسے بتدریج ریاستی اقتدارپر کئے گئے قبضے سے پیچھے ہٹا سکتے ہیں