عبدالستار تھہیم۔ ملتان
تاج خان گوپانگ کوٹلہ اندرون فاضل پور میں 60ء کی دہائی میں روایتی مذہبی زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔والد ایک متوسط زمیندارتھے ۔ گھر میں اکلوتے بیٹے تھے ۔گریجوایشن کے بعد ملتان ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ۔ زمینداری بڑھتی چلی گئی کیونکہ انھیں زمینیں خریدنے کا بے حد شوق تھا ۔اس وجہ سے وکالت کی طرف توجہ نہ دی ۔وکالت سے وابستگی صرف بار کی رکنیت تک تھی ۔
پیپلز پاٹی کے بنیادی اراکین میں سے تھے ۔ بعد ازاں سوشلسٹ پارٹی میں چلے گئے ۔کامریڈ واحد بخش خان رند انکے استاد تھے ۔ جنھوں نے سوشلسٹ نظریہ پڑھایا سکھایا ۔جوانی میں متحرک سوشلسٹ انقلابی بن گئے ۔ اس دوران سرائیکی راہنما عاشق خان بزدار اور سرائیکی ماہر لسانیات اور سوشلسٹ رہنما اسلم رسولپوری انکے نظریاتی ساتھی بن گئے ۔
سندھی عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو کے ساتھ ملکر سندھ میں ہاری تحریک کیلئے کام کیا اور سندھو دیش کی تحریک سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ جس کے سبب بنگلہ کرائی کریم نواز کورائی کی رہائش گاہ راجن پور میں 1983ء میں سرائیکی لوک سانجھ کی بنیاد رکھی گئی ۔جس کے روح رواں استاد فداحسین گاڈی تھے ۔ اعلان بنگلہ کورائی سے باقاعدہ سرائیکی قومی تحریک اور سرائیکی صوبے کا مطالبہ پیش کیا ۔
اعلان بنگلہ کورائی میں وسیب بھرسے ترقی پسند رہنماؤں نے شرکت کی ۔ بنیادی اراکین میں صوفی تاج گوپانگ ۔عاشق خان بزدار ۔اسلم رسول پوری۔نذیرفیض مگی۔منظورخان دریشک ایڈووکیٹ۔مظہرعارف۔ احسن واہگہ، کامریڈ ملک منظور بوہڑ سمیت کئی نظریاتی و پروگریسیو متحرک کارکن و رہنما شامل تھے ۔ تاج خان گوپانگ نے صاحب حیثیت زمیندار ہونے کے ناطے دل کھول کر سرائیکی تحریک کی مالی معاونت کی اور اپنی محنت اور جدوجہد بھرپور طریقے سے کی اور اپنے آپ کو سرائیکی قومی تحریک کیلئے وقف کردیا ۔
جب 88ء جنرل ضیاء کی موت کے بعد جمہوریت بحال ہوئی۔ پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی تو سرائیکی لوک سانجھ پیپلز پاٹی کے اقتدار میں ضم ہو گئی ۔ تاج خان گوپانگ نے مایوسی کی فضا میں سرائیکی تھنکرز فورم کی بنیاد رکھی جس کے وہ آخری دم صدر تھے ۔ پاکستان سرائیکی پارٹی اور بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ سے انکی سیاسی دوستی رہی اور وہ تاج محمد خان لنگاہ کے سرائیکی قومی تحریک کے حوالے سے جدوجہد کے ہم رکاب رہے ۔اور تاج محمد لنگاہ تاج خان گوپانگ کا بے حد احترام کرتے تھے ۔ اس دوران پی ایس پی کے مرکزی چیف آرگنائزر بھی منتخب ہوئے اور تحریک کیلئے بھرپور کام کیا ۔
پاکستان سرائیکی پارٹی میں حاجی پور کے انتھک سرائیکی رہنما تاج محمد برڑہ جو سرائیکی پارٹی کے پہلے ڈپٹی سیکریٹری جنرل تھے ۔ یہ تینوں تاج یعنی تاج محمد خان لنگاہ ، تاج محمد برڑہ اور تاج خان گوپانگ ۔۔۔۔۔۔ سرائیکی تحریک کے اگوان متحد ہوکر جدوجہد کر رہے تھے۔ دہلی 1997 ء اگست میں دوسری سرائیکی کانفرنس منعقد ہوئی جس کا میں آرگنائزر تھا ۔ میں نے محمد علی گردیزی کے ہمراہ اسلام آباد انڈین ایمبیسی میں جاکر ایک سو سے زائد اراکین کے ویزے لگوائے ۔
اراکین میں مادام ثریا ملتانیکر ۔ انکی بیٹی راحت بانو ۔ روہی کے منفرد سرائیکی سنگر فقیرا بھگت استاد حسین بخش خان ڈھاڈھی کا بیٹا اور معروف سرائیکی گلوکار شہزادہ سخاوت علی خان ، اور تاج خان گوپانگ و عاشق خان بزدار بھی شامل تھے جنکے ویزے لگ گئے ۔ ثریا ملتانیکر اور راحت بانو نے بذریعہ ہوائی جہاز کے ٹکٹ پر جانے پر اصرار کیا ، یوں دونوں ماں بیٹی انڈیا نہ جاسکیں ۔ البتہ فقیرا بھگت درویش سرائیکی فنکار اور سخاوت علی خان ہمارے ساتھ شریک تھے اور انڈیا میں سرائیکی آواز اور خواجہ فرید کی کافیاں گاکر ہندوستان میں دھوم مچادی ۔
اس دوران عالمی اردو انگریزی , فارسی اور عربی شاعری کا منظوم سرائیکی زبان میں ترجمہ ” صدیاں سچ الایا ” کے نام سے ایک ضخیم کتاب شائع کی ۔ اس کتاب میں تاج خان گوپانگ نے اپنا قلمی نام صوفی تاج گوپانگ لکھا اور مرتے دم تک صوفی کہلوانا پسند کیا ۔ میں انکی کتاب پر خبریں اخبار کے سرائیکی صفحہ پر تبصرہ لکھا ۔ جس میں نے انہیں ملامتی صوفی قرار دیا ۔
جب ملاقات ہوئی تو قہقہ لگاتے ہوئے شکوہ کیا کہ ستار تھہیم ۔۔ تئیں میکوں ملامتی صوفی لکھ تے میڈا ککھ نوہی رکھیا ۔۔۔۔۔ صوفی تاج گوپانگ اب اس دنیا سے جھوک لیکر چلے گئے لیکن سرائیکی قوم انکی سرائیکی قومی خدمات ہمیشہ یاد رکھے گی ۔
بھلے شاہ اساں مرنا نا ہی ۔۔۔۔۔ گور پیا کوئی ہور