لیاقت علی
فلسطین اور کشمیر میں بہت سی باتیں مشترک ہیں دونوں مسلمان اکثریتی خطے ہیں۔ دونوں گذشتہ کم وبیش سات دہائیوں سے اپنے اپنے حوالے سے مصروف جدوجہد ہیں لیکن دونوں اپنی منزل مقصود سے ہنوز بہت دور ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان کا اپنی منزل تک پہنچنا مخدوش ہی نہیں ناممکن ہوچکا ہے۔
عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب،بحرین،اومان اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس سے سفارتی تجارتی اور ثقافتی تعلقات قائم کرنے کے حالیہ فیصلوں کی بدولت فلسطین کی جدوجہد ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا کہ ہزاروں فلسطینیوں کی جانیں گنوا نے کے باوجود بھی فلسطینی اپنی منزل مراد۔۔ ایک فلسطینی ریاست کا قیام۔ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ کیا فلسطین کی مجوزہ ریاست کے قیام کی راہ میں اسرائیل ہی حائل تھا اور ہے یا پھر اس کارخیر میں عرب ممالک نے بھی مقدور بھر حصہ ڈالا تھا؟ کیا فلسطین نے کبھی اپنی جد وجہد کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیا ہے یا پھر جذبات کے سہارے وہ یہ سب کچھ کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیں؟
اقوام متحدہ نے 1948 میں جو دو ریاستوں۔ اسرائیل اور فلسطین کا مینڈیٹ دیا تھا اس کو کس نے تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ یہ اسرائیل نہیں عرب ممالک اور فلسطینی تھے جنھوں نے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت فلسطینوں کو48 فی صد رقبہ مل رہا تھا لیکن انھوں نے زائد رقبے کا مطالبہ کردیا تھا جو نہ صرف اس وقت ممکن تھا اور اب تو بالکل ہی ممکن نہیں ہے۔ عرب ممالک اور اسرائیل ایک سے زائد جنگیں لڑ چکے ہیں اور ہر مرتبہ انھیں اسرائیل کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی ہے اور اسرائیل نے ان کے علاقوں پر قبضہ بھی کیا ہے۔ ہزاروں فلسطینی اسرائیل کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں لیکن وہ اسرائیل سے ایک انچ رقبہ حاصل نہیں کرسکے بلکہ الٹا ان کے رقبے پر اسرائیل نے قبضہ کیاہے جو وہ بین الاقوامی دباو کے باوجود چھوڑنے سے انکاری ہے۔
سنہ1948 کے مینڈیٹ کے مطابق یروشلم پر فلسطین کا قبضہ تسلیم کیا گیا تھا لیکن فلسطین نے مینڈیٹ کے تسلیم کرنے سے انکار کرکے یروشلم کو ہاتھ سے گنوا لیا اور اب پورا یروشلم اسرائیل کے قبضے میں ہے اور فلسطینی رونے پیٹنے کے سوا کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک وقت تھا جب دنیا فلسطینوں کے رونے دھونے پر کان دھرا کرتی تھی لیکن اب ایسی صورت حال موجود نہیں ہے۔
فلسطین کی جو ریاست قائم ہے وہ بھی دوحصوں میں منقسم ہوچکی ہے۔غزہ والا حصہ مغربی کنارے پر قائم فلسطینی ریاست کی عمل داری تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ غزہ کی پٹی مکمل طور پر اسرائیل کی مر ہون منت ہے۔ اسرائیل جب چاہتا ہے اس کو محاصرہ کرکے اس کو ہر چیز کی فراہمی بند کردیتا ہے۔ جہاں مغربی کنارے پر قائم فلسطینی ریاست کا تعلق ہے اس کی گورننس انتہائی پست ہے۔انسانی حقوق کا ریکارڈ مایوس کن ہے۔ سیاسی مخالفین کو گرفتار کرنا اور انھیں غائب کرنا معمول کی کاروائی ہے۔ حکمران پارٹی پر کرپشن اور بدعنوانی کے سنگین الزامات ہیں۔
فلسطینی اب اگر چاہتے ہیں کہ ان کی خواہ لنگڑی لولی ہی سہی ریاست قائم ہوجائے تو اس کے لئے انھیں اسرائیل کے ساتھ پرامن طریقے سے رہنا ہوگا۔ اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا ہوگا۔ فلسطینیوں نے جذبات کے سہارے بہت سیاست کرلی اب انھیں حقیقت پسندی کی راہ اپنانی ہوگی۔ اگر سعودی عرب اور اس کے حواری ممالک جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اسرائیل سے تعلقات قائم کرسکتے ہیں تو فلسطینیوں کو توآگے بڑھ کر ایسا کرنا چاہیے کیونکہ ان کے پاس تو نہ تیل ہے اور ٹیکنالوجی اور نہ انھیں پہلے سی بین الاقوامی حمایت ہے جو ایک وقت میں انھیں حاصل تھی۔
کشمیر کا حال بھی فلسطین سے مختلف نہیں ہے وہاں بھی کشمیریوں اور ان کی قیادت نے حقیقت پسندی کی بجائے جذباتی سیاست کو اپنا شعار بنائے رکھا ہے۔ انھوں نے بھارت کشمیر مسئلے کے حل کے لئے دی گئی تجاویز کو مسترد کیا اور آزادی سے کم کسی تجویز پر بات کرنے سے انکار کیا ہے۔ اور خود آزادی سے کشمیریوں کی کیا مراد ہے اس بارے بھی وہ منقسم ہیں۔ کچھ کشمیر یوں کے نزدیک کشمیر کی آزادی کا مطلب ہے پاکستان سے انضمام یا الحاق، کچھ کشمیری ایک آزادی ریاست کے قیام کے خواہاں ہیں جس کے لئے بھارت تو دور کی بات خود پاکستان بھی اس کا شدید مخالف ہے۔
کچھ کشمیری بھارت میں رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ خودمختاری کے خواہاں ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو بھارت میں شمولیت ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔کشمیر کی آزادی کی نوعیت کیا ہو اس بارے میں کشمیری قیادت یکسو نہیں ہے۔ کشمیری بھارت سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہونے کی بجائے جو مراعات انھیں حاصل تھیں ان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اب کشمیری قیادت آزادی کی بجائے اگست 2019 کی صورت حال کی بحالی کے لئے کوشاں ہے۔
سوال یہ ہے کہ کشمیر کو عسکریت پسندی سے آزاد کروایا جاسکتا ہے؟ اس کا دو ٹوک جواب ہے بالکل نہیں۔ گذشتہ تہتر سالوں کا تجربہ بتاتا ہے کہ کشمیری نوجوانوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت آزادی کے نام پر ہتھیار ضرور اٹھاتی ہے لیکن وسیع تر کشمیری عوام ان عسکریت پسندوں سے ہمیشہ غیرمتعلق رہے ہیں۔ کشمیریوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگست 2019 کے اقدامات کے واپسی کے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کشمیریوں کو اب اسی صورت حال میں سے مستقبل کی راہ نکالنا ہوگی کسی آئیڈیل صورت کی توقع کشمیریوں کے مفادات سے غداری کے مترادف ہے۔
♦