افغانستان : ماضی و حال


محمد شعیب عادل

ہمارے ہاں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ افغانستان کبھی بھی ایک پرامن ملک نہیں رہا ۔ہر وقت یہاں دنگا فساد جاری رہتا ہے۔ ریاستی دانشور ہمیں بتاتے ہیں کہ یہاں عالمی طاقتوں کو ہمیشہ شکست ہوئی ہے بلکہ افغانستان تو ہے ہی عالمی طاقتوں کا قبرستان ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں نسلی تقسیم بہت گہری ہے اس لیے یہ لوگ اتفاق سے رہ ہی نہیں سکتے ، اس لیے افغانستان دو حصوں یعنی پختون اور غیر پختون علاقوں میں تقسیم ہوجائے گا وغیرہ وغیرہ۔دراصل یہ پاکستانی ریاست اور اس کے پروردہ دانشوروں و صحافیوں کا پراپیگنڈہ ہے تاکہ افغانستان میں مداخلت کے جواز کو قائم رکھا جائے۔

جدید افغانستان کی بنیاد خان امان اللہ خان نے رکھی تھی۔ ان کا دور اقتدار 1919-1929 تک کا ہے۔خان امان اللہ خان نے ہی افغانستان کو انگریزوں سے آزاد کروایا تھا۔اور ملک میں مغربی طرز کی اصلاحات شروع کیں۔ 1929 میں قبائلی شورشوں نے سراٹھایا ان کا اقتدار ختم ہو گیا۔ پھر ظاہر شاہ کی حکومت 1933 سے لے کر 1973 تک رہی۔ ظاہر شاہ کا دور حکومت ایک مستحکم اور نسبتاً خوشحال ملک کا تھا۔ظاہر شاہ نے امریکی اور روسی امداد سے افغانستان میں تعلیمی اداروں، ہسپتالوںوسڑکوں کی تعمیر اور آبپاشی سمیت کئی ترقیاتی منصوبے مکمل کیے۔ انٹرنیشنل سیاست میں افغانستان کی پوزیشن نیوٹرل تھی گو بھارت کی طرح ان کا جھکاؤ بھی روس کی جانب تھا۔اس وقت افغانستان دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز بھی رہا ہے ۔ یہ جو سوشل میڈیا پر وقتاً فوقتاً افغانستان کی پرانی تصاویر دکھائی جاتی ہیں جس میں خواتین سکرٹ پہنے دفاتر میں کام رہی ہیں وغیرہ وغیرہ تو یہ ظاہر شاہ کا دور ہی ہے۔افغانستان کی بیورو کریسی ہو، صحت کا شعبہ ہو یا تعلیمی میدان میں تعاون بھارت سے زیادہ تھا۔ افغان طلبہ کی ایک بڑی تعداد بھارتی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہی تھی۔

بزرگ بتاتے ہیں کہ افغانستان بلکہ ساؤتھ ایشیا کے خطے کی بربادی کا آغاز اس وقت ہوا جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان شمولیت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ افغانستان ڈیورنڈ لائن کو بارڈر ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ افغان حکومت کا موقف تھا کہ پاکستان کے پختون علاقے افغانستان میں شامل ہونے چاہییں۔ دونوں اطراف سے الزام تراشیوں کا سلسلہ چل نکلا۔ دونوں ایک دوسرے کو اپنے اپنے ملک میں مداخلت کے الزام لگانے لگ گئے۔

پھریہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پاکستان نے اپنے قیام کے آغاز کے ساتھ ہی اپنے عوام کی فلاح و بہبود و ترقی کی بجائے ہمسایہ ممالک میں علیحدگی پسندی کی تحریکوں کو ہوا دینی شروع کردی تھی۔ ریڈیو پاکستان لاہور میں پنجابی دربار پروگرام کے ذریعے خالصتان ریاست کے قیام کی تحریک شروع کی، ریڈیو راولپنڈی سے کشمیر کی آزادی کے پروگرام شروع ہوگئے اور ریڈیو پشاور سے پختونستان کی تحریک شروع کی گئی یعنی افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے کی خواہش قیام پاکستان سےہی شروع ہوگئی تھی۔یاد رہے کہ قیام پاکستان کے وقت قائداعظم محمد علی جناح نے امریکی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان ایک نوازئیدہ ریاست ہے جس کو کمیونسٹ روس سے شدید خطرہ ہے اور اسے فوجی امداد چاہیے۔

پاکستان کے قیام سے پہلے اور بعد میں باچا خان پختونوں کے ایک غیر متنازعہ رہنما تھےاور عدم تشدد کے پیروکار تھے جس کی وجہ سے انہیں سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا تھا ۔ باچا باچا خان نے اپنے علاقوں میں پختونوں کی تعلیمی و بہتری کے کے لیے کافی کام کیا تھا۔ چونکہ وہ پاکستانی ریاست کے توسیع پسندانہ یا سازشی منصوبوں کے آلہ کار نہ بنے اس لیے ریاست کے عتاب کا شکار ہوگئے۔ باچا خان ہوں یا ان کی اولاد اور ان کے کارکنوں پر غداری کے الزام لگے اور ریاستی ظلم و جبر کا شکار ہوتے رہے۔ اور خیبر پختونخواہ میں ان کی مقبولیت ختم کرنے کے لیے ریاست نے وقتاً فوقتاً خان عبدالقیوم خان جیسے کئی رہنما تیار کیے جن کا آج کوئی نام لیوا بھی نہیں۔

بھٹو دور میں پاکستان آرمی نے افغانستان سے کچھ نوجوان طالب علموں، جن میں حکمت یار اور احمد شاہ مسعود ہیں پاکستان بلایا گیا اور انہیں افغانستان میں شورش برپا کرنے کے لیے تربیت دینی شروع کی اس پروجیکٹ کے انچارج جنرل نصیر اللہ بابر تھے۔حکمت یار اور احمد شاہ مسعود دونوں کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا اور انہیں افغانستان میں اسلامی انقلاب لانے کی فوجی تربیت دینی شروع کردی۔ پاکستان آرمی کی ہمدردیاں زیادہ تر پختون نوجوانوں سے تھیں جس پر احمد شاہ مسعود، جو کہ تاجک تھے، ناراض ہو کر بھارت چلے گئے۔

ہر ملک میں اندرونی طور پر اقتدار کے لیے رسہ کشی جاری رہتی ہے ۔ 1973 میں سردار داؤد جو کہ ظاہر شاہ کے کزن تھے اور ان کی حکومت میں وزیر اعظم تھے نے، ظاہر شاہ کا ،جب اٹلی میں تھے، تختہ الٹ کر خود حکمران بن گئے۔ظاہر شاہ کی طرح سردار داؤد کا جھکاؤ بھی بھارت کی طرف تھا ۔جب سردار داود نے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے ظاہر شاہ کی ہی پالیسیوں کو جاری رکھا ایک آزاد، خوشحال اور روشن خیال افغانستان۔ لیکن وہ کوئی جمہوری طور پر منتخب رہنما نہیں تھے ۔ اندر ہی اندر ان کی حکومت کے خلاف سازشوں کا سلسلہ بھی جاری رہا اور 1978 میں کمیونسٹوں (خلق پارٹی) کے ایک گروہ نے فوج کی مدد سے سردار داؤدکا تختہ الٹ دیا اور جسے ثور انقلاب کہا گیا۔

اب ثور انقلاب بھی کوئی جمہوری انقلاب نہیں تھا ۔ کمیونسٹوں نے بھی سردار داؤد کی طرح فوج کی مدد سے حکومت کا تختہ الٹا اور سردار داؤد کو قتل کیا جسے خونی انقلاب کا نام دیا گیا۔لیکن پاکستانی ریاست شاید کسی ایسے ہی موقع کے انتظار میں تھی اور جن طالب علموں کی فوجی تربیت کی جارہی تھی انہیں براہ راست افغانستان کی اندرونی چپقلش میں دکھیلا ، روس نے مداخلت کی ۔ پاکستان نے سعودی عرب اور پھر امریکہ کی مدد سے اور قائداعظم محمد علی جناح کے خوابوں کے مطابق روس کو شکست دینے کے لیے اسلامی جہاد شروع کردیا ۔وہ دن اور آج کا دن ، افغانستان کبھی ایک پرامن ملک نہیں بن سکا۔

پاکستانی ریاست کو خالصتان کے محاذ پر شکست ہوئی، کشمیر کے مسئلے پر خاک چاٹنی پڑی۔ لیکن نہ جانے ابھی کتنے پختونوں کا خون مزید بہے گا۔۔۔ ریاست اور اس کے پروردہ دانشور و صحافی بدستور طالبان کے گن گارہے ہیں

Comments are closed.