جب اوریا مقبول جان نے جنرل باجوہ کے دربار میں حاضری دی


رشید یوسفزئی

قبلہ قمر جاوید صاحب سپہ سالاری کے کرسی پر سرفراز ہوئے تو پانچ چھ ہفتوں تک مبارکباد کیلئے آرمی ہاؤس آنے والوں کا سلسلہ جاری رہا۔ سرمایہ کار، سیاست دان، اعلی ترین درجے کے بیوروکریٹس، جہادی تنظیموں کے سربراہ صاحبان درون خانہ کے مطابق جہادی تنظیم “انصار الامہ” کے کمانڈر مولانا فضل الرحمن خلیل اولین شخص تھے جنہوں حاجی قمر جاوید باجوہ کو ان کے ذاتی موبائل پر مبارک باد دینے کی سعادت حاصل کی تھی۔۔۔ مذہبی اکابرین ، پیران طریقت ، رہبران شریعت سب مبارک باد میں شرف اولیت حاصل کرنے ، ایک سے آگے آگے ، کچھ دوڑتے اور کچھ سر کے بل چلتے ہوئے حاضر ہوئے۔

ایک رات آرمی ہاؤس میں دیر تک یہی سلسلہ تبریک جاری تھا کہ اور حاجی قمر جاوید اسی شان و شوکت سے طاقت کی نئی طاقتور کرسی پر رونق افروز تھے کہ استاد محترم اوریا مقبول جان صاب تشریف لائے۔

اوریا جان صاب نہ صرف خود ایک منجھے ہوئے بیوروکریٹ رہے بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی استعداد کی بناء پر سول سروسز اکیڈمی والٹن لاہور کی استادی بھی حاصل کی۔ آج کل تمام ملک میں تعینات اکثر بیوروکریٹس اور سی ایس پی افسران کو ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہے۔

اوریا جان صاب فراست الید کے ماہر یعنی پامسٹ بھی ہیں اور تصوف و روحانیات کے تجربات سے گزرنے کے مدعی بھی سو اکیڈمی میں نئی خاتون افسران کے ہاتھ دیکھ کر پیشین گوئیاں بھی کرتے اور ان کو خلوت میں مراقبہ و وظائف کے طریقے بھی سکھاتے۔ اس کے علاوہ اوریا جان دامت برکاتہم خصوصی ہیلی کاپٹر کے ذریعے دور دراز علاقوں میں فوجی افسران کو دین کی تلقین کیلئے بھی جاتے ہیں۔ ساتھ افغان امور کے ماہر اور کالم نگار بھی ہیں سو ان کا درجہ و مرتبہ ہر حال سے یونیک رہا۔

آرمی ہاؤس میں جاری مجلس تبریک میں اوریا صاحب تشریف لائے تو سارے لوگ ان کیلئے کھڑے ہوئے سوائے میر محفل حاجی قمر جاوید صاحب کے۔ حاجی قمر صاحب نے بیٹھے بیٹھے چار انگلیوں کے سرے اوریا کے دونوں ہاتھوں سے ملانے کیلئے بڑھائے اور سامنے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

اوریا جان صاحب نے با آواز بلند کچھ فرمایا۔

کیا یہ ممکن ہے کہ میں اس شخصیت کے ساتھ برابر کی کرسی پر بیٹھوں جس شخصیت کو میں نے خواب میں سرور کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے دیکھا ہے! نعوذ باللہ ۔مجھ پر لعنت اگر میں ایسی جسارت کروں!”

اور التی پلتی مار کر نیچے فرش پر بیٹھ گئے۔

حاجی قمر جاوید صاحب نے خود ایک دو بار کہا کہ اوریا صاحب میں آپکی خواب کی سچائی اور عقیدت پر یقیناً فخر کرتا ہوں مگر اب اپ کرسی پر بیٹھ جائیں۔ مگر اوریا صاحب مکرر انکار کرتے رہے کہ

نہیں ، نہیں یہ ہونہیں سکتا! میں ایسی جسارت کا سوچ بھی نہیں سکتا!”

فارسی ضرب المثل ہے ۔ارادت بنما تا سعادت ببری۔ عقیدت دکھا کر سعادت لے جائیں۔

بزرگان و اکابرین کی اپنے بزرگوں کیلئے عقیدت و ادب یقیناً قابل تقلید اور باعث سعادت و خیر ہوتی ہے۔

Comments are closed.