عرب ملک قطر میں فٹ بال کا ورلڈ کپ بڑی دھوم دھام سے شروع ہوچکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قطر نے یہ ایونٹ کروانے کے لیے عالمی معیار کے انتظامات کیے ہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور مذہبی و ثقافتی حوالوں سے بحث و مباحثہ بھی ہورہا ہے اور قطر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں پر میڈیا میں گفتگو ہورہی ہے۔
قطر میں فٹ بال شائقین کو مختلف قسم کی پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ ہر ملک کی اپنی ثقافت یا رسوم و رواج ہوتے ہیں اور اس موقع پر انہیں پرموٹ کرنے کا پورا حق ہے اور دنیا کے تمام ممالک ایسا کرتےہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دوسرے مذاہب اور ممالک کے لوگ اپنی ثقافت کا اظہار نہیں کر سکتے؟ یورپ ہو یا امریکہ وہاں کسی بھی ایسے ایونٹ پر کسی دوسرے ملک کی ثقافت پر پابندی نہیں لگائی جاتی۔
ہوا یہ کہ ورلڈ کپ کے آغاز سے پہلے انسانی حقوق کے اداروں یا سول رائٹس کے اداروں نے جتنے بھی اعتراضات کیے۔ قطر کے حکام اور فیفا نے ان کو دور کرنے کے وعدے کیے۔ لیکن جیسے ہی شائقین کی بڑی تعداد قطر پہنچ گئی تو عین موقع پر تمام وعدے بھلا دئے گئے۔
شائقین کی طر ف سے اصرار تھا کہ ورلڈ کپ کے دوران سٹیٹدیمز میں بئیر فروخت ہوتی ہے اور قطر میں بھی اس کی اجازت دی جائے تو قطر کی حکومت نے اجازت دے دی ۔ امریکی بئیر کمپنی” بڈ وائزر” نے فیفا کو 75 ملین ڈالر دے کر 12 سٹیٹدیمز میں بئیر فروخت کے رائٹس حاصل کیے اور جب شائقین کی بڑی تعداد قطر پہنچی تو پھر سب کو اپنے رسوم و رواج یاد آگئے۔
یورپ اور امریکہ یا کسی بھی ترقی یافتہ ملک (چین اور روس کو نکال کر) میں مزدوروں سے متعلق جو قوانین ہیں کہ اگر کام کے دوران کسی کی ہلاکت یا وہ زخمی ہوجاتا ہے تو کمپنی کی طرف سے معاوضہ دینا پڑتا ہے جو کہ کافی زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے کمپنیاں بہت زیادہ حفاظتی اقدامات کرتی ہیں تاکہ ہلاکتیں نہ ہوں اور نہیں ہوتیں۔ اگر کوئی اکا دکا ہوجائے تو مرنے والے یا زخمی ہونے والے کو معاوضہ ملتا ہے۔ سب سے اہم بات آٹھ گھنٹے پورے ہونے کے بعد اگر کام پررکھنا ہے تو اسے اوور ٹائم دیا جاتا ہے۔
قطری حکام آخر تک معاوضہ دینے کی یقین دہانی کراتے رہے لیکن عین موقع پر اگر مگر شروع کردی جس کی وجہ سے میڈیا میں شور ہے۔ امریکی پبلک ریڈیو این پی آر پر ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر نے ایک سوال کا جواب دیتےہوئے کہا کہ فیفا نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ قطری حکومت تمام پسماندگان کو معاوضہ ادا کرے گی۔
قطر میں فٹ بال شائقین کو مختلف قسم کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ ہر ملک کی اپنی ثقافت یا رسوم و رواج ہوتے ہیں اور اس موقع پر انہیں پرموٹ کرنے کا پورا حق ہے اور دنیا کے تمام ممالک ایسا کرتےہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دوسرے مذاہب اور ممالک کے لوگ اپنی ثقافت کا اظہار نہیں کر سکتے؟ یورپ ہو یا امریکہ وہاں کسی بھی ایسے ایونٹ پر کسی دوسرے ملک کی ثقافت پر پابندی نہیں لگائی جاتی۔
ہوا یہ کہ ورلڈ کپ کے آغاز سے پہلے انسانی حقوق کے اداروں یا سول رائٹس کے اداروں نے جتنے بھی اعتراضات کیے۔ قطر کے حکام اور فیفا نے ان کو دور کرنے کے وعدے کیے۔ لیکن جیسے ہی شائقین کی بڑی تعداد قطر پہنچ گئی تو عین موقع پر تمام وعدے بھلا دئے گئے۔
شائقین کی طر ف سے اصرار تھا کہ ورلڈ کپ کے دوران سٹیٹدیمز میں بئیر فروخت ہوتی ہے اور قطر میں بھی اس کی اجازت دی جائے تو قطر کی حکومت نے اجازت دے دی ۔ امریکی بئیر کمپنی” بڈ وائزر” نے فیفا کو 75 ملین ڈالر دے کر 12 سٹیٹدیمز میں بئیر فروخت کے رائٹس حاصل کیے اور جب شائقین کی بڑی تعداد قطر پہنچی تو پھر سب کو اپنے رسوم و رواج یاد آگئے۔
یورپ اور امریکہ یا کسی بھی ترقی یافتہ ملک (چین اور روس کو نکال کر) میں مزدوروں سے متعلق جو قوانین ہیں کہ اگر کام کے دوران کسی کی ہلاکت یا وہ زخمی ہوجاتا ہے تو کمپنی کی طرف سے معاوضہ دینا پڑتا ہے جو کہ کافی زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے کمپنیاں بہت زیادہ حفاظتی اقدامات کرتی ہیں تاکہ ہلاکتیں نہ ہوں اور نہیں ہوتیں۔ اگر کوئی اکا دکا ہوجائے تو مرنے والے یا زخمی ہونے والے کو معاوضہ ملتا ہے۔ سب سے اہم بات آٹھ گھنٹے پورے ہونے کے بعد اگر کام پررکھنا ہے تو اسے اوور ٹائم دیا جاتا ہے۔
قطری حکام آخر تک معاوضہ دینے کی یقین دہانی کراتے رہے لیکن عین موقع پر اگر مگر شروع کردی جس کی وجہ سے میڈیا میں شور ہے۔ امریکی پبلک ریڈیو این پی آر پر ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر نے ایک سوال کا جواب دیتےہوئے کہا کہ فیفا نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ قطری حکومت تمام پسماندگان کو معاوضہ ادا کرے گی۔
شعیب عادل