مظفر ممتاز
Postmodernismمابعد جدیدیت کیا ہے؟
موضوع کوئی نیا نہیں ہے۔ میں نے اس پر بات کرنا اس لئے اہم سمجھا کہ اس تحریک کو مشرقی مفکر اپنے مخصوص معاشرتی ماحول کے حوالے سے دیکھتے ہیں اور مغربی مفکر اپنے اقدار کے مطابق اس پر بحث کرتے ہیں۔ بہت کچھ ان دو کے درمیان جو وسیع فکری خلیج ہے اس میں گم ہو جاتا ہے۔
آپ کا سوال جائز ہو گا کہ آپ پوچھیں کہ میری اس معاملے میں معلومات کو مستند اور قابل توجہ کیوں سمجھا جائے؟ یہاں مختصر تعارف کراتا چلوں کہ میری زندگی کی تین دہائیاں مغرب میں گزری ہیں اور اس مدت میں اکادیمیہ سے وابستگی رہی ہے۔ اب بھی سال کا آدھے سے زیادہ حصہ مغرب ہی میں گزرتا ہے۔ یہ تحریک چونکہ مغربی تعلیمی اداروں ہی سے نکلی ہے جہاں تدریس سے وابستہ افراد نے ہی اسے طالبعلموں کے ذریعے فروغ دیا جو گزشتہ 4 یا 5 دہائیوں میں مغربی معاشرے کی تمام سطحوں پر، معیشت، سیاست، قانون، ثقافت وغیرہ پر (ادراوں سمیت) غالب آگئے۔
تیس ایک سال اس تحریک کو بہت قریب سے دیکھنے اور انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس کے اثرات کا جائزہ لینے کا موقع ملا جو آج میں آپ تک پہنچانے کی کوشش کروں گا کہ آپ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، کسی بھی شعبے یا پیشے سے تعلق رکھتے ہوں، یہ روش آپ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہو رہی ہے۔
مابعدجدیدیت کی بنیاد کیا ہے؟
مارکسزم کا فلسفہ ایک بہت رومانویت رکھتا تھا۔ ‘تھا‘ کا لفظ میں نے دانستہ استعمال کیا ہے کہ جب جب اس فلسفے کو عملی طور پر لاگو کیا گیا یہ فیل ہوا۔ لینن کے روس سے ماؤ کے چائنہ تک۔ مجھے علم ہے کہ باردگر شکستوں کے باوجود اس کی مدافعت میں مباحثے ہوتے رہے ہیں اور تیسری دنیا کے تناظر میں بہت سے لوگوں کے لئے اب بھی اسکی اہمیت باقی ہے جس کی بنیاد سطحی رومانویت کے علاوہ ثابت نہیں ہو سکتی۔ خیر اس نکتے کو طول دینا یہاں غیر ضروری ہو گا۔
اب ہوا یہ، کہ جب کلاسیکی مارکسزم کی تحریک ناکام ہو گئی تو اس سے وابستہ ذہنوں نے بالواسطہ طور پر معاشرے پر اثر انداز ہونے کے لئے (مغرب میں) اکادیمیہ کا رخ کیا۔ یہ انکے مقاصد کے حصول کے لئے بہت کارآمد رہا کہ اس نظریے سے مغلوب اساتذہ نے یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل بچوں کے ذریعے معاشرے کے بنیادی ستون انفرادی خاندان سے لے کر قانون ساز اور قانون لاگو کرنے والے اداروں تک کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
یہ یاد کروا دینا یہاں ضروری ہے کہ جس طرح مارکسزم ایک مدافعتی نظریہ تھا اسی طرح مابعدجدیدیت بھی ایک انتقامی سوچ کا شاخسانہ ہے۔
مابعدجدیدیت اور مذہب
جیسا کہ پہلے واضح ہو چکا کہ مابعدجدیدیت کی تحریک دراصل مارکسسٹ فلسفے پر ہی مبنی ہے جس کا مقصد پہلے سے چلے آ رہے ان اصولوں اور اقدار کی نفی کرنا ہے جس پر 4 یا پانچ دہائیاں پہلے تک کے مغربی معاشرتی نظام کی عمارت کھڑی تھی۔ گزشتہ تحریر میں یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ مارکسزم کی ہی طرح یہ تحریک بھی ایک مدافعتی تحریک ہے جو کلاسیکی روایات کا انہدام چاہتی ہے۔ اس کی بنیاد ہی چونکہ مارکسزم پر ہے، کیوں نہ ہم مارکس کے مذہبی فلسفے سے ہی بات کا آغاز کریں؟
مارکس کا مشہور جملہ کہ مذہب انسانیت کے لئے افیون ہے، دراصل درج ذیل ہے:۔
“Religion is the sigh of the oppressed creature, the sentiment of a heartless world and the soul of soulless conditions. It is the opium of the people”.
تحریر و تقریر میں گھن گرج جو بائیں بازو کے اکثر لیڈروں میں پائی جاتی ہے، وہی اس فقرے میں بھی ہے۔ مشہور نفسیاتی ماہر کارل ینگ نے خیال سے متعلق بڑی عمدہ بات کہی تھی کہ اکثر لوگوں کے ذہن میں کوئی سوچ آتی ہے تو وہ اس سوچ تک محدود رہتے ہیں۔ بہت کم لوگ سوچ کے ظاہر ہونے کے بعد اس پر ہر زاویئے سے غور کرنے اور پھر اسے اظہار کی نہج تک لانے کا عمل انجام دینے کے حامل ہوتے ہیں۔ مارکس کے اسی بیان کو لے لیں اور اسے لفظ بہ لفظ تجزیہ کرتے ہوئے کوشش کریں کہ مارکس کہنا کیا چاہ رہا ہے۔ اور جو کہنا چاہ رہا ہے کیا وہ کہہ سکنے میں کامیاب ہو گیا ہے؟
مگر ذرا رکیں۔۔۔ اس سے پہلے جان لیں کہ مارکس نے یہ جملہ آج سے لگ بھگ 170 سال پہلے کہا تھا۔ جب مزدور طبقے کی حالت واقعی دگرگوں تھی چنانچہ زمانی اعتبار سے یہ جملہ اپنی اہمیت رکھتا ہو گا مگر اسے ایک آفاقی سچ سمجھ لینا درست نہیں۔ ان 170 سالوں میں علم و فہم اور تحقیق نے ہمیں انسان کی نفسیات کے بارے میں بہت کچھ سکھایا ہے اور ہمارے پاس وہ معلومات ہیں جو مارکس کے پاس نہیں تھیں۔
اب آجائیں تفصیلی تجزیے کی طرف:۔
درج بالا جملے میں پہلا سوال تو یہی اٹھتا ہے کہ مارکس انسان کو استحصال شدہ مخلوق تصور کرتا ہے۔ اور جو مارکس کا کچھ علم رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ مارکس کا مدعا فقط وہ انسان تھا جو معاشرتی درجہ بندی کے جنگ و جدل میں نچلی سطح پر رہ جاتا ہے یعنی پرولتاری(مزدور طبقہ) ۔ اس طبقے کے افلاس کا الزام سارے کا سارا وہ بورژوا (سرمایہ دار) طبقے پر ڈال دیتا ہے(گرچہ یہ بھی بحث طلب ہے)۔ یعنی انسان سے مارکس کے ہاں مراد ماسوائے ایک معاشی پیکر کے اور کچھ نہیں۔ چنانچہ اسکے ہاں ایک عام آدمی سے اسکے اعتقاد کی جنت لے لینے کے بعد مارکس کے پاس سوائے کمیونسٹ جنت نما معاشرے کے ( جو ایک غلط تصور کے سوا؛ اور یہ بات اب تو ثابت ہو چکی) اور کچھ نہیں تھا۔
مابعدجدیدیت اعتقاد کو اس ترمیم کے ساتھ قبول کرنے کو تیار ہے کہ اسے مجموعی نہیں بلکہ انفرادی مسئلہ بنا دیا جائے۔
یہاں بھی آپکو سوچ میں یک تہی نظر آئے گی۔۔ وہی جو مارکس کے ہاں تھی جہاں سوچ تو آتی ہے لیکن سوچ ‘پر‘ سوچے بغیر اسے انسانی نفسیات میں پیوست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مذہب کو انفرادی مسئلہ بنانا آج کے مابعدجدیدیت پسند مغربی معاشرے کی وہ پالیسی ہے جو انکے دوسرے نظریات مثلا” ہم جنس پرستی، فیمینزم وغیرہ کو تحفظ دینے میں معاون ہو گی۔ یہ انکا خیال رہا ہو گا۔
جرمن فلسفی نطشے کا مشہور قول ہے:۔
“God is dead. God remains dead. And we have killed him. How shall we comfort ourselves, the murderers of all murderers? What was holiest and mightiest of all that the world has yet owned has bled to death under our knives: who will wipe this blood off us? What water is there for us to clean ourselves? What festivals of atonement, what sacred games shall we have to invent? Is not the greatness of this deed too great for us? Must we ourselves not become gods simply to appear worthy of it?”
Friedrich Nietzsche
میں نے یہاں عبارت نقل کر دی ہے کہ اکثر اس بیان کا فقط پہلا جملہ لے کر یوں استعمال کیا جاتا ہے گویا خدا کے نہ رہنے کا اعلان کسی قید سے نجات ہو۔۔۔
آپ اسے پڑھیں اور بار بار پڑھیں۔۔ کیا آپ کو اس میں آزادی کا نغمہ سنائی دیتا ہے یا کبھی نہ بھر سکنے والے خلا کا نوحہ؟؟
اعتقاد کو تلف کرنے کا مطلب انسانی سائیکی کے پھیلاؤ کا نہیں بلکہ اسے محدود کرنے کا نام ہے۔ مذہب کے ساتھ آپکو اسطوری اور داستانوی دور کے نقوش بھی مٹانے پڑیں گے۔۔ اور اس کا نتیجہ شناختی بحران یا کنفیوژن کے علاوہ اور کیا ہو گا؟ اور یہ کسی فرد کی کنفیوژن نہیں بلکہ پوری بنی نوع انسان کی کنفیوژن ہو گی۔ یہی وہ نہج ہو گی جہاں مقصدیت کا فقدان معاشرے کی اکائی کو لخت لخت کر دے گا۔
اور کیا آپکے متبادل، جیسے ہم جنس پرستی کو تحفظ دینا اور فیمنزم جیسی تحریکوں کو مضبوط کرنے کو پدرسرانہ نظام کے خلاف جنگ بنا دینا (بلاجواز) سب کے لئے قابل قبول ہو گا اسطرح کہ یہ اقدار ایک مستحکم معاشرہ پیدا کر سکیں؟
اور پھر کون ہے جو کہہ سکے کہ یہ متبادل کارل مارکس کے کمیونسٹ یوٹوپیا سے بھی بد تر نہیں ہیں؟
اس مضمون کے پانچ حصے ہیں
۔1۔ تعارف
۔2۔ مابعدجدیدیت اور مذہب۔
۔3۔مابعدجدیدیت اور جنسیت ۔
۔4۔ مابعدجدیدیت، سیاست اور قانون سازی پر اثرات
۔5۔ مابعدجدیدیت اور آرٹ
اول اور دوم مکمل ہوچکے ہیں