محمد حنیف
ملک کا سب سے طاقتور سپہ سالار کہہ گیا ہے کہ اب میں گمنامی کی زندگی گزاروں گا۔ بادشاہت سے گمنامی کے اس سفر میں جتنی دولت اور جتنی بے عزتی جنرل باجوہ نے کمائی ہے شاید ہی کسی سپہ سالار نے کمائی ہو۔
دولت انھوں نے ان قانونی طریقوں سے کمائی ہے جو فوج اور ریاست نے مل کر وضع کر رکھے ہیں۔ بے عزتی انھوں نے اپنی محنت سے کمائی ہے۔
میں نے کئی بزرگوں سے پوچھا کہ آپ نے اپنے زمانے میں کسی ایوب خان کی، کسی یحییٰ کی اتنی بےعزتی سُنی تھی۔ سب نے کہا نہیں۔ جنرل ضیا اور مشرف کی بےعزتی ہم نے آنکھوں سے دیکھی ہے، لیکن وہ بھی چند دن کی تھی، ان میں سے بھی کسی کو غدار نہیں کہا گیا۔
میں جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ پر ان کے حق میں یہ دلیل دینے کے لیے تیار بیٹھا تھا کہ انھوں نے غلطی کی ہے غداری نہیں کی۔ فوج کے پاس اپنے طور غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے کا ٹھیکہ رہا ہے، اس میں کئی نسلوں سے ہم نوا سیاستدان بھی مل جاتے ہیں تو جنرل باجوہ کو اور کچھ بھی کہہ لیں، غدار نہ کہیں۔
پھر ریٹائرمنٹ سے چند دن پہلے شہدا کے خاندانوں کی ایک تقریب میں خطاب کیا اور کچھ ایسا فرما گئے کہ میں اپنے سارے دلائل بھول گیا۔
انھوں نے فرمایا کہ ہندوستان کی فوج دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتی ہے لیکن ہندوستان کی عوام پھر بھی ان کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ پاکستانی فوج کی قربانیوں کے باوجود ہم پر بہت تنقید ہوتی ہے۔
پاکستان کے پاس ایک مضبوط اور مہنگی فوج رکھنے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہندوستان ہمارا ازلی دشمن ہے۔ ہم نے اپنی کتنی نسلوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ ہم بھی اور ہماری فوج بھی ہندوستان کی فوج اور اس کے عوام سے بہت بہتر ہے۔ہمارا ایک مرد مجاہد دس ہندوستانی فوجیوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
لیکن جاتے جاتے جنرل باجوہ یہ فرما گئے کہ کاش ہمارا ہاتھ بھی اتنا ہی کھلا ہوتا جیسے ہندوستانی فوج کا ہے۔ اور کاش ہماری قوم بھی فوج کے ساتھ ویسے ہی کھڑی ہوتی جیسے ہندوستانی عوام اپنی فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔
ستر سال تک ہمیں نظریہ پاکستان اور پاک فوج زندہ باد کا سبق پڑھانے کے بعد اب ہم سے فرمائش کی جا رہی ہے کہ پاکستانیوں کاش تم ہندوستان والوں جیسے ہوتے۔
میرا خیال ہے زیادہ تر ہندوستانیوں کو پتا بھی نہیں ہو گا کہ ان کا آرمی چیف کون ہے اور جو بھی ہے وہ نہ تو نوکری میں ایکسٹینشن مانگے اور نہ ہی ریٹائر ہوتے ہوتے گھر بیٹھے اربوں کی جائیداد بنائے گا۔ نہ کبھی اتنی جرات کر سکے گا کہ قوم کو بتانا پڑے کہ تم سے پاکستانی بہتر ہیں۔
چونکہ اب جنرل باجوہ اپنا ڈنڈا کسی اور کے حوالے کر کے چلے گئے ہیں تو قوم بھی ان کو یاد کروا سکتی ہے کہ ہم اتنے بھی برے نہیں ہیں۔
ہمارے وہ سیاستدان جو ایک پارلیمنٹ میں ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں، جب جنرل باجوہ کو تین سال پہلے خیال آیا کہ میرا اس قوم سے ابھی دل نہیں بھرا تو سب سر جوڑ کر بیٹھے اور 17 منٹ میں ان کے دل کا ارمان پورا کر دیا اور تین سال کی ایکسٹینشن دے دی۔
وہ کون سی قوم ہے جہاں ملک دو لخت ہو جائے، چلیں مان لیتے ہیں کہ 90 ہزار نہیں 34 ہزار فوجی قیدی بنا لیے جائیں، ایک وزیر اعظم ان جنگی قیدیوں کو چھڑوائے اور سات سال بعد اسی فوج کا سربراہ وزیر اعظم کو پھانسی لگا دے اور اسی وزیر اعظم کی اگلی نسلیں بھی فوج سے وفاداری جتاتی رہیں۔
ہندوستان کے کتنے وزیراعظم ہیں جو جلاوطن کیے گئے۔
ہندوستان کی فوج نے کتنے وزیراعظم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے درآمد کیے۔ جنرل باجوہ اپنی قوم سے شکوہ کرتے ہوئے یہ بھی بتا دیتے کہ ہندوستان کی فوج اپنی عوام پر ظلم کرنے کے ساتھ ساتھ اور کون کون سے دھندے کرتی ہے: کیا کھاد اور گوشت بیچتی ہے۔ ہندوستان میں آج تک کتنے ڈی ایچ اے بن گئے ہیں اور کتنے بننے باقی ہیں۔
اور اگر پھر بھی یہ شک ہے کہ یہ قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہے یا نہیں تو آپ بغیر وردی کے بغیر محافظوں کے کسی بازار میں نکل جائیں، آپ کو پیار ہی پیار ملے گا۔
:بشکریہ
bbc.com/urdu