ظفر آغا
اس کو حسن اتفاق کہا جائے یا ایک سوچی سمجھی پلاننگ کہ جب جب چناؤ قریب ہوتے ہیں، تب تب اسدالدین اویسی خبروں میں ہوتے ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل اتر پردیش اسمبلی کے چناؤ ہوئے تب اویسی خبروں میں آ گئے۔ میرٹھ سے دہلی کے سفر کے دوران ان کی کار پر کچھ لوگوں نے گولی چلائی اور بس حیدر آباد کے قائد و مجلس اتحادالمسلمین کے صدر میڈیا میں چھا گئے۔
اب ابھی گجرات چناوی گھمسان عروج پر ہے تو پھر اسدالدین اویسی جس ٹرین سے وہاں سفر پر تھے تو ان کے ڈبے پر کسی نے پتھر چلایا اور پھر جناب خبروں کی سرخیوں میں چھا گئے۔ اب یہ بھی عجیب بات ہے کہ میرٹھ میں ان کی کار پر گولی چناؤ کے دوران چلی اور گجرات میں بھی چناؤ کے قریب ہی ان کی ٹرین پر حملہ ہوا۔ کیا کہوں، یہ حسن اتفاق تھا یا کچھ اور۔ ان کے مخالفین تو اس کو ’فکسڈ میچ‘ کہہ رہے ہیں۔ خدا جانے کیا بات ہے، یہ تو خدا ہی جانے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اسدالدین اویسی کی سیاست سے فائدہ بی جے پی کو ہی ہو رہا ہے۔
پچھلے کچھ عرصے میں تین چار ریاستوں میں چناؤ ہوئے جہاں مجلس اتحاد المسلمین پارٹی نے مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں میں اپنے نمائندے کھڑے کیے۔ اتر پردیش، مہاراشٹر، بنگال اور بہار کے اسمبلی چناؤ میں اویسی کی پارٹی چناؤ میں رہی۔ کہا جاتا ہے کہ ان تمام صوبوں میں اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوا۔ وہ ووٹ جو اتحادالمسلمین کے نمائندوں کو ملے، وہ اگر دوسرے نمبر پر رہے نمائندوں کو مل جاتے تو ان حلقوں میں بی جے پی کامیاب نہیں ہوتی۔ شاید یہی سبب ہے کہ ان کے مخالفین نے اسدالدین اویسی کو ’’ووٹ کٹوا‘ کا لقب دے دیا ہے۔
خیر، اب گجرات میں چناوی مہم زوروں پر ہے۔ وہاں تیس سیٹوں پر اویسی صاحب کے نمائندے چناؤ لڑ رہے ہیں۔ ذرا سی بھی عقل رکھنے والوں کو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ گجرات ہندوتوا کی آماجگاہ ہے۔ نریندر مودی کا عروج ہی گجرات میں ہندو–مسلم تکرار کی سیاست سے ہوا ہے۔ یعنی بی جے پی کو چناؤ جیتنے کے لیے ہندوؤں میں ’مسلم دشمنی‘ کا ہوا کھڑا کرنا ضروری ہے۔ ہندو رد عمل بغیر مسلم مخالفت کے چمکتا ہی نہیں۔ ذرا سوچیے جن تیس سیٹوں پر مجلس اتحادالمسلمین نام کی پارٹی کا نمائندہ چناؤ لڑ رہا ہے، کیا وہاں بی جے پی کھل کر ہندو مفاد کی بات نہیں کرے گی۔ ظاہر ہے کہ کرے گی، اور ادھر اویسی صاحب کی خالص مسلم مفاد پر مبنی گرما گرم تقریریں، پھر اس پر میڈیا کا بگھار۔ بس چناؤ تو ایسے حالات میں فطری طور پر ہندو–مسلم تکرار میں تبدیل ہو جائے گا۔
اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ فائدہ کس کو پہنچے گا۔ ان حالات میں آپ خود یہ طے کر سکتے ہیں کہ اویسی کی سیاست مسلم مفاد میں کم اور بی جے پی مفاد میں زیادہ کارگر ہے۔ ان حالات میں اگر کوئی یہ کہے کہ اتحادالمسلمین کو ڈالا جانے والا ووٹ دراصل بی جے پی کو ووٹ ہے، تو غلط نہیں ہوگا۔ اس لیے گجرات میں جو بھی ووٹر بی جے پی کو شکست دینا چاہتا ہے تو اس کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہ اپنا ووٹ جوش نہیں ہوش میں ڈالے۔ اگر ووٹر نے ہوش سے کام لیا تو وہ اویسی کی پارٹی کو ووٹ ڈال کر اپنا ووٹ برباد نہیں کرے گا، بلکہ اس پارٹی کو ووٹ ڈالے گا جو بی جے پی کو ہرانے کی حیثیت میں ہے۔
بات محض گجرات چناؤ کی ہی نہیں ہے، اصل بات تو یہ جوش اور ہوش کی سیاست کی ہے۔ ہندوستانی مسلم اقلیت کو یہ طے کرنا ہے کہ جوش کی سیاست سے اس کو ہمیشہ نقصان ہوا، اب اس کو ترک کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اگر مسلم ووٹر جوش کی سیاست کرے گا تو ہندو ووٹر بھی جوش میں ووٹ ڈالے گا۔ پھر ہندو ووٹر یہ بھول جائے گا کہ مہنگائی کس قدر ہے، اس کو روزگار نہیں میسر ہے اور اس کی زندگی مشکل میں ہے۔ اس لیے نہ خود جوش کی سیاست کیجیے اور نہ دوسرے کو جوش میں ووٹ ڈالنے کا موقع دیجیے۔ گجرات کے ووٹر کو یہ بات سمجھ میں آنی چاہیے اور جوش کی سیاست کرنے والوں سے بہت دور رہنا چاہیے۔
روزنامہ قومی آواز، نیو دہلی