بیرسٹر حمید باشانی
ایران میں اخلاقیات کے نام پر جو جبر روا ہے اس کا قصہ بھی بڑا عجیب ہے۔ایک بائیس سالہ خاتون مس امینی کے انداز نقاب پوشی سے ہوتا ہے۔ اس نوجوان خاتون نے اہل حکم کی ہدایات کے مطابق نقاب تو پہن رکھا تھا، مگر یہ نقاب پہننے کا انداز ویسا نہیں تھا، جیسا ایران کی حکمران اشرافیہ کے خیال میں ہونا چاہیے تھا۔ گویا مختلف طریقے سے نقاب پہننے کے جرم میں پولیس نے اسے گرفتار کر لیا، اور پھر حراست میں اس بد قسمت خاتون کی موت واقع ہو گئی۔ غلط طریقے سے حجاب پہننے کے جرم میں گرفتار ہونے والی 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت پر ایک غیر متوقع رد عمل ہوا۔عوام نے کھل کر غم و غصے کا اظہار کیا۔ خونی مظاہرے ہوئے۔ بائیکاٹ ہوئے۔ ملازمین اور مزدوروں نے وسیع پیمانے پر کام روک دیا گیا۔ پورے ملک میں ایک طوفان سا اٹھ کھڑا ہوا۔ہر روز ہنگامے برپا ہونے لگے، جو بڑھتے بڑھتے سو سے زائد شہروں میں پھیل گئے۔ ان مظاہروں نے اس غصے کو مجسم کیا، جو ایرانی خواتین اور نوجوان اپنی نجی زندگیوں میں اشرافیہ کی مداخلت کی وجہ سے محسوس کرتے تھے۔
ایرانیوں کے لیے اس صورت حال میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ایران کے موجودہ انقلاب کو اب43 سال ہونے کو ہیں۔ بہت سارے ایرانیوں کا یہ خیال ہے کہ آج سے43سال قبل ایران کی حکمران اشرافیہ نے ایرانی خواتین کو شریعت اور آئین کے نام پر دوسرے درجے کی شہری کی حیثیت دے دی تھی۔ لیکن خواتین، خاص طور پر نوجوان خواتین نے اس صورت حال کو کبھی پورے طریقے سے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے جبر پر مبنی ایک رجعتی سماجی نظم کے تحت حجاب پہننے کی شرط کو روز مرہ کی زندگی میں کئی طریقوں سے مسترد کرنے کا عمل جاری رکھا۔ کچھ خواتین نے اپنے سر کے اسکارف کو جلا نے کو کوشش کی۔ حکمران اشرافیہ کے نزدیک یہ ایک ایسا عمل تھا، جس کی سزا کوڑے اور جیل تھی۔ اور یہ سزائیں بڑے تسلسل سے سنائی جاتی رہی۔ لیکن وحشیانہ سزائیں خواتین کو اپنے حقوق کی بات کرنے سے نہ روک سکیں۔ تشدد اور جبر ان خواتین کی جدوجہد اور طرز زندگی کے انتخاب کی خواہش کو ختم نہیں کر سکا۔ البتہ اس کی وجہ سے حکمران اشرافیہ کے خلاف ان کے غصے اور نفرت میں اضافہ ہوتا رہا۔
سال 1979کے مشہور انقلاب کے بعد حکمران اشرافیہ نے اعلان کیا کہ آج سے ایران ایک نظریاتی ملک ہے۔ یہ نظریہ کئی ستونوں پر کھڑا ہے۔ ان ستونوں میں امریکہ دشمنی اور اسرائیل دشمنی اہم ترین ستون ہیں، مگر سب سے اہم ترین ستون ایران کا نیا سماجی نظام ہے، جس کی بنیاد حجاب پر کھڑی ہے، اور جس کے تحت خواتین کو عوامی مقامات پر اپنے آپ اور اپنے چہروں کو ڈھانپنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کے لیے ڈریس کوڈ کا نفاذ انقلاب کی کامیابی کی ایک علامت قرار دیا گیا۔ حجاب کا لازمی پہننا اسلامی جمہوریہ میں لازم ٹھہرا۔ اسی طرح، حجاب کے لازمی قوانین اسلامی جمہوریہ کے شہریوں کی ذاتی آزادیوں ، شہری آزادیوں اور معاشرے پر حکمران اشرافیہ کے مکمل کنٹرول کا نشان بن گیا۔ اسلامی جمہوریہ نے انقلاب کے فوراً بعد خواتین پر ڈریس کوڈ نافذ کرنا انقلاب کی کامیابی کی علامت قرار دیا۔
انقلابی ریاست کے رہنما وں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ خواتین اپنی پسند کا نہیں بلکہ انکا طے کردہ کردہ لباس پہنیں گی۔ انہوں نے چست کپڑوں، چمکدار رنگوں اور میک اپ پر پابندی لگا دی۔خواتین کو اپنے بالوں کو ڈھانپنے کا حکم دیا گیا۔ ملک کے اندر لازمی پردے کےلیے ایسے قوانین بنائے گئے، جن کے تحت سات سال سے کم عمر کی بچیوں کوبھی سر پر اسکارف پہننے پر مجبور کیا گیا۔ نافرمانی کرنے والوں کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑا،اور اکثر ان پر “بدعنوانی اور جسم فروشی پر اکسانے” کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔اس صورت حال پر کئی ایک مغربی اور ایرانی دانشوروں نے اپنے مضامیں میں لکھا ہے کہ ایرانی خواتین نے سر پر اسکارف کے نفاذ کو کبھی خاموشی سے قبول نہیں کیا۔
صرف 2014 میں، حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، ایران کی اخلاقیات نافذ کرنے والی پولیس نے 3.6 ملین خواتین کو “نامناسب لباس” کی وجہ سے خبردار کیا، جرمانہ کیا یا گرفتار کیا۔حالیہ ہنگامے امینی کی موت سے شروع ہوئے۔ لیکن اس موت سے پہلے ہی، ایران کے علما حجاب کے خلاف بڑھتی ہوئے لہر کو محسوس کر سکتے تھے۔ جولائی 2022 کے اوائل میں، اخلاقی پولیس نے خواتین کو انتباہ جاری کیا کہ اگر انہوں نے حجاب کی شرط پر عمل نہیں کیا تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔اس کے بعد کئی ایک کو گرفتار کیا گیا۔مارا پیٹا گیا، اورانہیں قومی ٹی وی پر معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا۔
سب ویز اور موٹر ویز جیسے عوامی مقامات پر نگرانی کے کیمرے نصب کیے گئے، تاکہ حجاب کے لازمی اصول کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کی شناخت اور ان پر جرمانہ عائد کیا جا سکے۔ اس سال موسم گرم میں حکام نے بار بار خبردار کیا کہ جو خواتین بغیر حجاب کے اپنی تصاویر انٹرنیٹ پر پوسٹ کرتی ہیں، انہیں چھ ماہ سے ایک سال تک کچھ سماجی حقوق سے محروم کر دیا جائے گا۔اس کے بعد حکام نے ان خواتین کو سرکاری دفاتر اور بینکوں میں داخل ہونے اور عوامی نقل و حمل پر سوار ہونے سے روک دیا ہے کہ وہ ڈریس کوڈ کی مکمل تعمیل میں ناکام رہی ہیں۔
یہ یقیناً سخت اقدامات تھے۔ مگر اس طرح کے اقدامات نے ایرانی خواتین کو مزاحمت کرنے سے نہیں روکا ۔ گزشتہ ایک دہائی سے حکام کو ایرانی خواتین کی جانب سے آن لائن مزاحمت سے نمٹنا پڑا ہے۔ روایتی میڈیا پر مکمل طور پر ریاست کے کنٹرول کی وجہ سے ایرانی سوشل میڈیا، خاص طور پر فیس بک، انسٹاگرام، ٹیلی گرام، ٹویٹر اور واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز پر مزاحمت کا عمل شروع ہوا۔لاکھوں افراد نے سوشل میڈیا مہم کی پیروی کی، جو ایران میں حجاب کے سخت قوانین کو لے کر احتجاج کرتی رہی ہے، اور اس کے مختلف اقدامات اٹھائے جیسے کہ سفید نقاب پہننا، چہل قدمی کے دوران نقاب کشائی ، حجاب میں مردوں کی تصاویر اور میرا کیمرہ میرا ہتھیار جیسی مہمات شامل ہیں۔
ان مہمات نے خواتین کو حکومت کی سختیوں کی مخالفت کرنے کی طاقت دی ۔ان مہما ت کے جواب میں حکومت نے 2019 کا ایک قانون متعارف کرایا، جس کے تحت مہم میں و ڈیوز بھیجنا جرم قرار دیا گیا، جس کی سزا دس سال قید ہے۔ یہ حکومت کی طرف سےایک ایسی نوجوان نسل کو کنٹرول کرنے کی کوشش تھی، جو سماجی تبدیلی چاہتی ہے۔ لیکن ایسا مشکل تھا کہ وسیع پیمانے پر سنسر شپ کے باوجود، 2022 کے آغاز میں ایران میں انٹرنیٹ کی رسائی کی شرح اسی فیصد تھی، جو ایک ایک بلند شرح ہے۔
اگرچہ حکومت نے بہت سی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگائی، لیکن ایرانیوں نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس، یا وی پی این کے استعمال کے ذریعے سنسر شپ کو نظر انداز کرنے کے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ تک رسائی کے حامل تقریباً 80 فیصد ایرانیوں نے سنسر شپ سے بچنے کے لیے اینٹی فلٹر اور وی پی این سافٹ ویئر انسٹال کر رکھا ہے۔
ان حالات کے باوجود اہل حکم کو نوشتہ دیوار نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ اپنی ضد پر اڑے رہے۔ لیکن آمینی کی موت کے بعد ایک طویل لڑائی کے نتیجے میں بالآخر انہوں نے اپنی شکست تسلیم کی، اور اخلاقیات کے نفاذ کرنے والی پولیس کے خاتمے کا اعلان کیا، جو ایران کی اس نئی نسل کی فتح ہے، جو، اپنی پسند کی طرز زندگی کے انتخاب اور شہری آزادیوں کی لڑائی لڑ رہے تھے۔
♠