قطر میں جاری فیفا ورلڈ کپ اپنے آخری مراحل میں داخل ہورہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قطر نے اس سلسلے میں شاندار انتظامات کیے ہیں اور یہ دنیا کا سب سے مہنگا ورلڈ کپ کہا جارہا ہے جس پر 220 بلین ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ ان میں 12 بین الاقوامی معیار کے سٹیٹدیمز کی تعمیر، نیا ائیرپورٹ ، ہوٹلز اور ٹرانسپورٹ سسٹم شامل ہیں۔
لیکن اس کے باوجود یہ ورلڈ کپ قطر کی متنازعہ پالیسیوں کی وجہ سے مسلسل تنقید کا نشانہ بھی بن رہا ہے۔ مختلف اداروں اور کمپنیوں نے فیفا کو ہرجانہ ادا کرنے کے قانونی نوٹس بھیج دیے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ شروع ہونے سے پہلے انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ قطر کی حکومت اس بات پر راضی ہے کہ وہ دوران تعمیر ہلاک ہونے والے مزدوروں کو معاوضہ ادا کرےگی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ۔
پھرامریکی بئیر کمپنی بڈوائزر نے فیفا کو قانونی طور پر ہرجانے کے نوٹس بھیجے ہیں۔ فیفا کے صدر اورقطر کے ورلڈ کپ کے انچارج نصیر الخطیر کے درمیان تنازعات سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔ قطر کا کہنا ہے کہ انھوں نے ورلڈ کپ کے انعقاد کروانے کے لیے کسی کو کوئی رشوت نہیں دی جبکہ فیفا نے رشوت لینے کے الزام میں صدر سمیت کئی عہدیداروں کو فارغ کردیا تھا۔
یاد رہے کہ فٹ بال ورلڈ کپ کے موقع پر سٹیٹدیمز میں بئیر فروخت کی جاتی ہے اور کویت نے فیفا کی اس شرط کر تسلیم کرتے ہوئے اس کی فروخت کی اجازت دے دی تھی ۔ امریکی بئیر کمپنی نے 75 ملین ڈالر کے عوض سٹیٹدیمز میں بئیر فروخت کرنے کے حقوق حاصل کیے تھے ۔ لیکن ورلڈ کپ کے شروع ہونے سے ایک دن پہلے قطری حکومت نے یہ اجازت دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ دنیا کو چاہیے کہ وہ ہماری ثقافت کا احترام کریں۔ نصیر الخطیر نے یہ بھی کہا ہے کہ بھئی کام کے دوران اگر کوئی اموات ہوئی ہیں تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔
قطر میں سیم سیکس میرج اور ایل جی بی ٹی کے لیے سخت قوانین ہیں۔ لیکن قطر نے کہا تھا کہ ایل جی بی ٹی سیاح قطر آسکتے ہیں لیکن عوامی مقامات پر انہیں اپنی شناخت چھپانا ہوگی۔ جب جرمنی کی ٹیم نے ان سے اظہار یک جہتی کےلیے بازو پر رین بو بینڈ باندھا تھا تو اسے اتروا لیا گیا۔۔ اور تمام ٹیموں کو پابند کیا گیا کہ وہ ایسا نہ کریں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو اپنی ثقافت اتنی ہی عزیز ہے تو پھر بین الاقوامی مقابلے کرانے سے پہلے اچھی طرح سوچ لینا چاہیے تھا اور جھوٹے وعدے نہیں کرنے چاہیے تھے۔
web desk