خالد محمود
مذاہب پر جدید مفکرین کی آراء کچھ اس طرح سے ہیں: تاریخ عالم میں، مذاہب ہمیشہ خوف اور کنٹرول کا ڈھانچہ رہے ہیں۔ان میں گناہ، شرم، لالچ کے عناصر غالب رہے ہیں۔ مذہب دُنیا کا سب سے طویل کامیابی سے چلنے والا ٹیکس فری بزنس ماڈل ہے۔ وہ آپ کو جو پروڈکٹ بیچ رہے ہیں وہ ہے:۔
اُخروی نجات، آخرت کی ابدی زندگی اور اس کی ابدی مسرت۔ آپ اس پروڈکٹ کو ایک دن میں حاصل نہیں کر سکتے۔ آپ کو وہ پروڈکٹ صرف اس وقت ملے گی جب آپ مر جائیں گے۔ اور آپ کو مذہب کی طرف سے مسلسل بتایا جاتا ہے کہ وہاں پہنچنا واقعی مشکل ہے۔ وہاں جانے کا واحد راستہ باقاعدہ بنیادوں پر گرجا گھروں، معبدوں اور مندروں میں واپس آنا ہے۔ آپ نامکمل ہیں۔ آپ کے ساتھ کچھ گڑبڑ ہے۔ آپ نے کچھ اصول توڑ دیے ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی میں کوئی اچھا کام نہیں کیا۔ آپ ایک برے انسان ہیں، آپ کو توبہ کرنے اور دوبارہ سبق سیکھنے کے لیے واپس آنے کی ضرورت ہے۔ اور ویسے، آپ پر اپنی عبادت گاہوں سے تعلقات استوار رکھنے کے لئے اس کی ادائیگی کرنا لازم ہے اور اس کے خزانوں کو اپنے عطیات سے مسلسل بھرتے رہنے کی ضرورت ہے۔
انسانوں پر، مذہبی اداروں کی اجارہ داری قائم و دائم ہے۔ اپنے علاوہ، روحانیت پر ہر دوسرا نظریہ غلط اور باطل ہے۔ اگر آپ عیسائی ہیں تو آپ کو کہا جاتا ہے کہ دوسرے اسٹورز پر خریداری نہ کریں۔ یہ بھی مت دیکھو کہ ان کے پاس کیا ہے۔ ان کی طرف نظر بھی نہ اُٹھاؤ۔ ہر مذہب کا یہی نقطہ نظر ہے کہ ہندومت، بدھ مت، جین مت، یہودیت اور دیگر مذاہب میں تحقیق نہ کریں۔ دوسرے سب کافر اور گمراہ لوگ ہیں۔ وہ بھٹکے ہوئے ہیں۔
مذاہب سبسکرپشن بیس، ٹیکس فری اور کامیاب ترین کاروباری ماڈل ہیں۔ وہ ہمیشہ لوگوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہوں کے خلاف کھڑا کرتے ہیں۔مذاہب لوگوں کو کنٹرول اور تقسیم کرنے کے لیے حکومتوں کا سب سے آسان دستیاب ہتھیار رہے ہیں۔ سیاسی مذاہب نے تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری اور تباہی کی ہے جس نے دیگر تمام جنگوں اور قحط کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ چاہے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا جائے یا ہتھیار کو بطور مذہب اپنا لیا جائے؛ ہر دو صورت میں انسانیت کی تباہی ناگزیر ہے۔
مرورِ زمانہ کے حوادث و تجربات اور ارتقائی مراحل کی روشنی میں اقوامِ عالم نے مذاہب کو ریاست سے بالکل الگ کر دیا ہے۔ یکساں شہری،سماجی اور معاشی حقوق یقینی بنانے کے لئے مذاہب میں حکومتوں کی مداخلت اور پبلک فنڈز سے مذاہب کی پرورش کو بند کر دیا گیا ہے۔ جہاں جہاں مذہب اور ریاست کی علیحدگی قائم نہیں ہوئی وہاں پر اقلیتوں اور مختلف مذاہب پر ایمان رکھنے والوں کو یکساں سماجی عدل و انصاف، معاشرتی اور معاشی مساوات نہیں دی جاتی ہے۔
ایک سیکولر ریاست اپنے شہریوں کے سماجی،معاشی اور معاشرتی مسائل کے حل کے لئے جدید سائنسی علوم سے مدد لے کر اپنی قومی پیداوار بڑھاتی ہے اور اس کی فروخت کے لئے نئی منڈیاں تلاش کرتی ہے۔ مذہبی مناقشات میں ریاست، کسی ایک فرقے، طبقے یا مذہب کے حق میں فریق نہیں بنتی۔ انسانوں کے سماجی، معاشرتی اور معاشی مسائل حل کیے بغیر روحانی اقدار کو بچانا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔
♠