باپ نے سڈنی شلڈن کو خودکشی کرنے سے کیسے روکا؟

زبیر حسین

(سڈنی شلڈن کی آپ بیتی میری زندگی کا دوسرا رخ کا پہلا باب)

**

سترہ سال کی عمر میں میں ایک ڈرگ سٹور پر ڈلیوری بوائے کی جاب کرتا تھا۔ اس جاب کی بدولت میرے لئے ممکن ہوا کہ اتنی خواب آور گولیاں چوری کر لوں جن سے خودکشی کرنا ممکن ہو جائے۔ مجھے علم نہ تھا مرنے کے لئے کتنی گولیاں کھانا ہوں گی۔ مجھے اتنا اندازہ تھا کہ بیس گولیوں سے کام چل جائے گا۔ احتیاطاً ایک وقت میں صرف چند گولیاں چراتا تھا تاکہ دواساز کو شک نہ ہو جائے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ خواب آور گولیوں اور وہسکی کی ملاوٹ مہلک ہوتی ہے۔ میں نے اپنی موت کو یقینی بنانے کے لئے دونوں کو ملا کر استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میں نے خودکشی کے لئے ہفتہ کا دن چنا۔ اس دن میرے والدین ویک انڈ کی وجہ سے گھر میں نہیں ہوں گے۔ میرا بھائی رچرڈ بھی ایک دوست کو ملنے چلا جائے گا۔ لہذا مجھے مرنے سے روکنے کے لئے گھر میں کوئی موجود نہیں ہو گا۔

ہفتہ کے دن چھ بجے دواساز نے سٹور بند کرنے کا اعلان کیا۔ اسے علم نہ تھا کہ آج میں اپنی زندگی کی تمام محرومیوں، ناکامیوں، اور پریشانیوں کو بند کرنے جا رہا تھا۔ سال ۱۹۳۴ تھا۔ امریکہ اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا تھا۔ پانچ سال قبل مارکیٹ کریش کر گئی تھی اور ہزاروں بنک فیل ہو گئے تھے۔ بیشمار کاروبار بند اور ایک کروڑ تیس لاکھ افراد بیروزگار ہو چکے تھے۔ جو برسرروزگار تھے انہیں بہت قلیل معاوضہ مل رہا تھا۔ دس لاکھ افراد جن میں دو لاکھ بچے بھی تھے خانہ بدوش پھر رہے تھے۔ پورا ملک بد ترین ڈیپریشن میں تھا۔ لکھ پتی کروڑ پتی کوڑی کوڑی کے محتاج ہو کر خودکشیاں کر رہے تھے۔ کمپنیوں کے سربراہ بازاروں میں چھابڑیاں لگا کر پھل بیچ رہے تھے۔

اس دور کا مقبول گانا گلومی سنڈے (اداس اتوار) بار بار سننے سے مجھے حفظ ہو گیا تھا۔ دنیا تاریک تھی اور یہی حال میرے موڈ کا تھا۔ میرا وجود بے مقصد یا بے معنی ہو چکا تھا۔ ہم جھیل مشی گن کے ساحل سے چند بلاک دور راجرز پارک کی تیسری منزل پر ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔ ایک شب میں سکون کی تلاش میں جھیل کی طرف نکل گیا۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے اور تیز ہوا چل رہی تھی۔ میں نے اوپر دیکھتے ہوئے کہا،

اے خدا! اگر تو موجود ہے تو اپنی ایک جھلک دکھا۔”

میں وہاں کھڑا آسمان کو دیکھ رہا تھا کہ بادل ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے اور ایک بڑا چہرہ سا بن گیا۔ اسی وقت بجلی چمکی اور بادلوں کے چہرے سے دو آنکھیں مجھے گھورتی نظر آئیں۔ میں ڈر گیا اور گھر کی سمت دوڑ لگا دی۔

عظیم شو مین مائیک ٹاڈ کے بقول وہ اکثر دیوالیہ رہتا تھا لیکن خود کو کبھی غریب نہیں سمجھا۔ مائیک کے برعکس میں خود کو ہر وقت غریب سمجھتا تھا۔ ہمارا گھرانہ غربت کی چکی میں پس رہا تھا۔ کپکپاتی سردی میں بھی ہم بجلی کا بل بچانے کے لئے ہیٹر استعمال نہیں کرتے تھے اور رات کو لائٹس کا استعمال بھی بہت ہی کم کرتے تھے۔ یہی حال کھانے پینے کا تھا۔

لیکن اب میں اس غربت اور پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ جاب ختم کرکے اپارٹمنٹ آیا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ ماں باپ اور بھائی جا چکے تھے۔ مجھے روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ میں اس چھوٹے سے بیڈروم میں چلا گیا جہاں میں اور میرا بھائی سوتے تھے۔ میں نے بڑی احتیاط سے ڈریسر کے نیچے چھپایا ہوا لفافہ نکالا۔ اس میں خواب آور گولیاں تھیں۔ پھر میں کچن میں گیا اور باپ کی وہسکی کی بوتل اٹھا لایا۔ میں خواب آور گولیوں اور وہسکی کی بوتل کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ انہیں اپنا کام کرنے میں کتنا وقت لگے گا۔ میں نے وہسکی گلاس میں انڈیلی اور گلاس کو لبوں سے لگا کر ایک چسکا لیا۔ شراب کے تیز اور تلخ ذائقے نے میرا منہ کڑوا اور گلا دبا دیا۔ پھر میں نے خواب آور گولیاں مٹھی میں بھریں اور انہیں منہ میں ڈالنے والا تھا کہ ایک آواز نے چونکا دیا۔

سڈنی! کیا کر رہے ہو؟”

میں ایک دم آواز کی سمت گھوم گیا۔ وہسکی کے ساتھ کچھ خواب آور گولیاں بھی نیچے گر گئیں۔ میرا باپ دروازے میں کھڑا تھا۔ وہ قریب آ کر گویا ہوا۔

مجھے علم نہ تھا کہ تم نے وہسکی پینا شروع کر دی ہے۔”

آپ تو جا چکے تھے۔” میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

میں کوئی چیز بھول گیا تھا۔” یہ کہہ کر اس نے پہلا سوال دوبارہ اچھال دیا۔

تم کیا کر رہے ہو؟”

میرے جواب دینے سے پہلے ہی اس نے وہسکی کا گلاس میرے ہاتھ سے لے لیا۔

میں دم بخود کھڑا تھا۔ میرے منہ سے بس یہ جملہ نکلا،

کچھ نہیں۔”

اس اثنا میں باپ کی نظر خواب آور گولیوں پر پڑی۔

اوہ خدایا! یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں۔ سڈنی! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تم ایسے تو نہیں تھے۔ یہ کیا ہے؟”

یہ خواب آور گولیاں ہیں۔” میں نے جواب دیا۔

کچھ دیر خاموشی کے بعد میرا باپ گویا ہوا،

مجھے علم نہیں تھا کہ تم زندگی سے اس قدر بیزار اور ناخوش ہو چکے ہو۔”

آپ مجھے روک نہیں سکتے۔ آج نہیں تو کل میں اپنی زندگی کا چراغ گل کر دوں گا۔” میں نے زور دے کر کہا۔

وہ کچھ دیر مجھے تکتا رہا اور پھر کہنے لگا،

یہ زندگی تمہاری ہے۔ تم اپنی زندگی کے ساتھ جو چاہے کر سکتے ہو۔ لیکن اگر تمہیں جلدی نہیں تو کیوں نہ ہم کچھ دیر چہل قدمی کر لیں؟”

میں سمجھ گیا میرا باپ کیا سوچ رہا تھا۔ وہ ایک سیلزمین تھا اور بات چیت کے ذریعے مجھے اپنے منصوبے پر عمل کرنے سے روکنا چاہتا تھا۔ اس کی کامیابی کا کوئی چانس نہیں تھا۔ میں ایک فیصلہ کر چکا تھا۔ پھر بھی میں نے اس کے ساتھ باہر جانے کی حامی بھر لی۔

باپ نے مجھے کوٹ پہننے کے لئے کہا تاکہ باہر ٹھنڈی ہوا سے سردی نہ لگ جائے۔ اس ستم ظریفی نے میرے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دی۔ پانچ منٹ میں ہم سٹریٹ پر تھے۔ سردی اور خون رگوں میں منجمد کر دینے والی تیز و تند ہواؤں کی وجہ سے سٹریٹ ویران تھا۔ طویل خاموشی کے بعد میرا باپ مجھ سے یوں مخاطب ہوا۔

بیٹے! اب بتاؤ تم مرنا کیوں چاہتے ہو؟”

میں سوچ رہا تھا کہ کہاں سے آغاز کروں۔ میں خود کو تنہا اور پنجرے کا قیدی محسوس کرتا تھا۔ میری شدید خواہش تھی کہ زندگی بہتر اور پرسکون ہو جائے لیکن دور دور تک بہتری کے کوئی آثار نہیں تھے۔ میں کالج میں تعلیم حاصل کرنے اور شاندار مستقبل کے خواب دیکھتا تھا۔ لیکن کالج میں داخلہ کے لئے رقم نہیں تھی۔ میں ادیب بننا چاہتا تھا۔ میں نے درجنوں کہانیاں لکھ کر اخبارات اور جرائد کو بھیجیں لیکن ایک بھی شائع نہ ہوئی۔ سب ردی کی ٹوکری کی نذر ہو گئیں۔ آخرکار میں نے اس دم گھٹنے والی زندگی کو الوداع کہنے کا فیصلہ کر لیا۔

مجھے خاموش دیکھ کر میرا باپ گویا ہوا،

دنیا میں بیشمار خوبصورت مقامات ہیں جو تم نے ابھی نہیں دیکھے۔”

میں سوچ رہا تھا کہ باپ کے جاتے ہی اپنے پلان پر عمل کر لوں گا۔

تم روم کو دیکھ کر خوش ہو جاؤ گے۔”

میں اپنے خیالات میں مگن تھا۔

سڈنی! تم کہا کرتے تھے کہ تمہاری سب سے بڑی خواہش ادیب بننا ہے۔”

اب میں توجہ سے اس کی بات سننے لگا۔

یہ گذشتہ روز کی بات ہے۔ کل کے بارے میں کیا خیال ہے؟”

کیا؟” میں نے حیرت سے پوچھا۔

تمہیں علم نہیں کل کیا ہو گا۔ زندگی بھی ایک ناول کی طرح ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ زندگی تجسس سے بھرپور ہے۔ کل کیا ہو گا؟ اس کا پتہ تب چلے گا جب تم اگلا صفحہ کھولو گے۔”

مجھے معلوم ہے کل کیا ہو گا۔ کچھ بھی نہیں ہو گا۔” میں نے مایوسی کا اظہار کیا۔

تم کل کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ہر دن ایک نیا صفحہ ہے، سڈنی۔ اور ہر صفحے پر چونکا دینے والے واقعات سامنے آتے ہیں۔ تمہیں اس وقت تک پتہ نہیں چلے گا جب تک تم اگلا صفحہ نہیں کھولتے۔”

میں چونک پڑا۔ باپ درست کہہ رہا تھا۔ ہر کل ایک ناول کے دوسرے صفحے کی طرح ہوتا ہے۔

اگر تم خودکشی کرنے کا فیصلہ کر چکے ہو تو میں تمہیں روک نہیں سکتا۔لیکن مجھے رنج اس بات کا ہے کہ تم اپنی زندگی کی کتاب کو بہت جلدی ختم کر رہے ہو۔ ایسا کرو گے تو تم ان حیران کن واقعات، کامیابیوں، اور خوشیوں سے محروم رہ جاؤ گے جو تمہاری زندگی کے اگلے صفحے پر آنے والی ہیں۔ یہ اگلا صفحہ تم نے لکھنا ہے۔”

کتاب کو اتنی جلدی بند نہ کرو! کیا میں اپنی زندگی کی کتاب کو وقت سے پہلے ختم کر رہا تھا؟ کیا کوئ شاندار کل میرا منتظر تھا؟ یا تو میرا باپ کامیاب سیلزمین تھا یا میرا خودکشی کا ارادہ کمزور۔ قصہ مختصر باپ سے اس گفتگو کے بعد میں نے خودکشی کرنے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔

٭٭٭

مینک ڈیپریشن جسے اب بائی پولر ڈس آرڈر کہتے ہیں کا مریض ہونے کے باوجود سڈنی شلڈن نے دو درجن ناول لکھے جن کی ۳۰۰ ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ نیز اس کی کتابوں کے ۵۱ زبانوں میں ترجمے ہوئے۔ اس نے آسکر اور ٹونی ایوارڈ بھی جیتے۔ اپنی کتابوں، فلموں، اور ٹی وی سیریز سے اس نے کوئ تین ارب ڈالر کمائے۔

خیال رہے مینک ڈیپریشن کے مریض کو پاکستان میں پاگل کہتے ہیں۔

Comments are closed.