بصیر نوید
نو مئی 2023 کے واقعات سے پاکستان کا مضبوط ترین ادارہ ابھی تک سنبھل نہ سکا ہے۔ ادارہ کی دل جوئی اور ہمت افزائی کیلئے حکومت کو گرفتاریاں کرنی پڑ رہی ہیں، خوف پھیلایا جارہا ہے، پارلیمنٹ میں اکثریت ہو یا نہ ہو ادارہ کی مضبوطی کیلئے مختلف بل پاس کرائے جارہے ہیں۔ 9 مئی کے نیم دلی سے بنائے گئے منصوبے نے اتنے شدید جھٹکے پہنچائے کہ دشمن اور دوست میں تمیز ختم ہوگئی ۔کسی عورت کے بارے میں بھی پتہ چلے کہ اس کا سایہ بھی جیو فینسنگ میں آگیا ہے تو مذکورہ عورت کی گرفتاری تو لازم ہے مگر اسکے ساتھ اسکے شوہر کی گرفتاری بھی ضروری مگر شوہر کی گرفتاری سے پہلے اسکے گھر کے کسی بچے کو یرغمالی بنانا بھی پارٹ آف دی گیم ہوتا ہے۔
فوج کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ اپنی سر عام رسوائی کا دھبہ کس طرح دھویا جائے؟ تو اس نے لاغر اور دماغ سے معذور حکومت کا سہارا لیا لیکن ایسی حکومت کو بھی کسی کا سہارا چاہئے تھا مگر اتحادی کسی بھی طرح کا سہارا دینے کو تیار نہیں کیونکہ آنے والے الیکشنز میں انہیں خود کو جمہوریت پسند بھی ثابت کرنا ہے۔ میں حیران ہوں کہ ہماری فوج اتنی کمزور ہوگی کہ ایک غیر منظم مظاہرے اور کچھ حملوں کے نتیجے میں تا حال اپنے اوسان پر قابو نہ پا سکے گی۔
عمران خان کی سیاست سے پوری طرح اختلاف کے باوجود اس کو اس بات کی داد دینی پڑے گی کہ اس نے دیو ہیکل مجسمے کو اس طرح جھٹکا دیا کہ وہ ذرا سے زور سے ہلنے لگ گیا، جس سے یہ پتہ چل گیا کہ اپنے ہی گھر میں اس کی بنیادیں کمزور ہیں۔ صرف چمکتے ہوئے میڈل، ایک عدد کلف دار وردی اور ایک چھڑی میں ہی اسکی طاقت پنہاں تھی۔( یوں تو پاکستان کی فوج میں سب سے زیادہ میڈل کا ریکارڈ لیفٹننٹ جنرل اے اےکے نیازی کے پاس تھے جس نے انڈیا کے فوجیوں کے ساتھ ہتھیار پھینکنے کا سمجھوتہ کیا تھا اور پستول بھی بڑے فخریہ انداز سے دشمنوں کو حوالے کردیا تھا)۔ ایسے موقعوں پر میڈلز یا چھڑی کے رعب کام نہیں آتے جب عوام کا ایک چھوٹا سا بھی حصہ مقابلے کو آجائے۔
میں مسلسل عمران خان اور اسکی سیاست کیخلاف لکھتا رہا ہوں جس کے نتیجے میں اپنے ہی خاندان سے تعلقات زیر و بم کا شکار رہے اور رہتے ہیں۔ مجھے ابھی بھی عمران خان یا شہباز شریف کی سیاست سے کوئی غرض نہیں اور نہ ہی کوئی ہمدری ہے، میں ہر وقت کی دعویدار بہادر فوج کے حواس باختہ واقعات پر حیران ہوں کہ فوج کتنی کمزور ہے؟ جسے ہم سمجھتے تھے کہ ٹھیک ہے جب تک ایٹمی طاقت نہیں تھی بیرونی محاذ پر لڑنے کے قابل نہیں تھی۔ لیکن اب تو صرف 9 مئی کے واقعات نے پورے ملک کو بتادیا کہ واقعات سے ہماری افواج کسی نا معلوم خوف کے باعث حملہ آوروں کو روکنے میں ناکام رہی۔
یہ سوال ہر وقت پوچھا جاتا ہے کہ جب کور کمانڈر ہاوس، میانوالی ائیر بیس سمیت پشاور اور کچھ اور شہروں میں آٹھ نو گھنٹے تک توڑ پھوڑ اور جلانے کے واقعات ہوتے رہے تو فوج یا اسکے دیگر ادارے کہاں غائب تھے وہ حرکت میں کیوں نہیں آئے؟ یہ صورت حال فوج کی کارکردگی پر کئی سوالات کو جنم دیتے ہیں جن میں سب سے بڑا سوال یہی کہ فوج عوام کے غیض و غضب سے خوف زدہ تھی؟ اتنی خوف زدہ کہ چھوٹے چھوٹے ہجوم سے ڈری رہی؟ اس میں بھی عمران خان کا کمال ہے کہ انہوں نے کم از کم ایسا کچھ کیا جس کے ذریعے سارے ملک کو پتہ چل گیا کہ لوگوں کے چھوٹے چھوٹے ہجوم جن میں خواتین قائد تھیں اس سے نبٹنے میں دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس فوج کیوں خاموش رہی اور کہاں “انڈر گراونڈ” تھی۔
حیرانگی ہوتی ہے کہ یہی کچھ بھٹوز یا شریفوں نے کیوں نہیں کیا؟ فوج کی طاقت سے ہر سیاستدان خوفزدہ تھا جب وہ چھڑی پکڑ کر دو درجن سے زائد افسران اور عام فوجیوں کو لیکر گھر میں گھس جاتے تھے اور جو زبان استعمال کرتے تھے وہ ہی خوف دلانے کیلئے کافی ہوتی۔ مگر یہ سیاستدان اس بات کو نہیں سمجھ سکے کہ خود فوجی اندر سے کتنے خوفزدہ ہوتے تھے۔ اگر اس وقت آج کے 9 مئی جیسا اقدام اٹھالیا جاتا تو شاید ذوالفقار بھٹو پھانسی نہ چڑھتے، بینظیر بھٹو قتل نہ ہوتی، نواز شریف فیملی سمیت جلاوطن نہ کئے جاتے اور نہ ہی پناما میں تاحیات نا اہل نہ ہوتے۔ یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم کی نشست سے برخواست نہ کئے جاتے اور نہ ہی 5 سال کیلئے نااہل کئے جاتے۔ سب سے بڑھ کر اب تک جمہوریت چلتی رہتی اور مارشلاز بھی دہائیوں تک نافذ نہ ہوتے۔
بیرونی اور اندرونی محاذوں پر ناکامیوں سے نبرد آزما “طاقتور ادارہ” اس وقت اپنے زخم چاٹ رہا ہے اور بالکل اس زخمی شیر کی مانند ہے جو پرندوں کی آوازوں سے بھی جھاڑیوں میں منہ چھپا لیتا ہے۔ یہی موقعہ ہوتا ہے جب کمزور سے کمزور جانور چلتے پھرتے آوازیں کستا ہے۔
♠