بصیر نوید
سویڈن میں قرآن شریف جلائے جانے کے واقعہ کے خلاف مسلم ورلڈ میں جو شدید رد عمل آیا ہے اس نے پاکستانی سیاستدانوں اور حکومت کو بھی مجبور کردیا تھا کہ وہ ملک گیر سطح پر احتجاج کرکے اپنا حصہ بھی بقدر جثہ ادا کریں۔ اس ضمن میں وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں تقریر بھی فرمائی۔ہوسکتا ہے شاید ٹکٹ کے امیدوار اسے تاریخی تقریر بھی قرار دیدیں۔ محترم نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے مغربی دنیا کو دھمکی دی کہ “تحمل اور برداشت کا مقصد یہ نہیں کہ ہمیں جواب دینا نہیں آتا، مسلمانوں کیخلاف جان بوجھ کر جو آگ بھڑکائی جارہی ہے یہ دنیا بھر میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو لڑانے کی ایک سازش ہے“۔
اس کے بعد میں نے مختلف چینلز پر براہ راست انکی تقریر سن کر اور پھر ان جملوں کی تصدیق کیلئےاخباروں کی ویب سائٹس پر تقریر کا متن پڑھ کر حیران رہ گیا کہ ماشا اللہ مبالغہ آرائی ہو تو ایسی ہو۔ وزیر اعظم نے ایک جگہ کہا کہ ” قرآن کریم میں حضرت مسیح اور حضرت مریم سمیت بہت سے انبیا کا تفصیل سے ذکر آیا ہے اور ہم بطور مسلمان نا صرف ان کا احترام کرتے ہیں ان کی کتابوں اور مذہب کا بھی احترام کرتے ہیں” اس سے آگے وہ جوش خطابت میں بھول گئے کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں یا بس خوش کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کسی نے یہاں بائیبل کی بے حرمتی کی ہو، بائیبل کو جلایا گیا ہو ہم تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں“۔
قومی اسمبلی میں تقاریر کے دوران ملک گیر سطح پر احتجاج کی اپیل کیلئے وزیروں نے بھی اپنا اپنا حصہ ڈالا اور کچھ اقلیتی اراکین کو بھی شامل کرکے کہہ گئے کہ پاکستان میں تمام مذہبی اقلیتوں کو مسلمانوں سے زیادہ حقوق حاصل ہیں۔ اس دوران کسی بھی رکن اسمبلی نے سچ بولتے ہوئے یہ نہیں کہا کہ شاید ہی کسی مغربی ملک میں اتنے تعداد میں قرآن شریف جلائے جاتے ہوں جتنے کہ پاکستان میں ہر سال جلائے جاتے ہیں۔
خیر اس پر آگے چل کر بات کی جائے گی لیکن اس سے قبل عیسائیوں سمیت تمام مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہمارے حسن سلوک پر بات کرتے ہیں؛ جس ملک میں خاکروبوں کی آسامیوں کیلئے اخبارات میں اشتہارات چھپائے جاتے ہوں کہ صرف عیسائیوں کو ترجیح دی جائے گی تو دیکھ لیجیے کہ ہم عیسائیوں کو کتنی عزت دیتے ہیں؟ انہیں ہم صرف ہماری گندگی اٹھانے کا درجہ دیتے ہیں ایسے تضحیک آمیز اشتہارات اب دنیا بھر میں ترجمے کرکے پھیلائے جاتے ہیں کیونکہ سرزمین پاک میں عیسائیوں (مرد و خواتین) کے ساتھ بدترین سلوک کئے گئے جن کے نتیجے میں مسیحوں کی بڑی تعداد نے دنیا کے ہر ملک میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہم ماشا اللہ سے انہیں چوڑے اور بھنگی جیسے القابات سے بھی نوازتے ہیں۔ ان کی کئی دہائیوں سے قائم آبادیوں کو گرانے کیلئے وہاں جاکر قرآن کے صفحات جلائے جاتے ہیں کیونکہ ان کی آبادیاں شہروں کی وسعت کے سبب تجارتی طور پر منفعت بخش ہوجاتی ہیں۔
گذشتہ ایک دہائی کے دوران بیشمار چرچ (گرجا گھروں) کو جلایا بھی گیا اور انکو خودکش دھماکوں میں تباہ بھی کردیا گیا۔ شاید وزیر اعظم کو بتایا گیا ہے کہ چرچ کو جلانے والے سب سے پہلے اندر گھس کر بائیبل کو محفوظ ہاتھوں میں دیکر پھر کارروائی کرتے ہیں یا خود کش حملہ آور چرچ میں گھس کر پہلے بائیبل کو چومتے، انہیں جزدان میں دور رکھ آتے ہیں اور پھر خود کو دھماکے میں اڑا دیتے تھے۔ اب اس حکومت میں شامل جماعتوں کو کون بتائے کی پشاور کے آل سینٹس چرچ کے دھماکے میں 143 عیسائی شہید ہوئے تھے اور کئی درجن بائیبل بھی جل گئے جن کے اوراق اڑ آڑ کر چاروں طرف بکھرے تھے جو لوگوں کے پیروں تلے کچلے گئے اس کے علاوہ ،پنجاب کے بیشتر شہروں لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ، شاہدرہ، شیخوپورہ گوجرانوالہ وغیرہ میں جب چرچ جلائے گئے یا حملے کئے گئے تو سب سے پہلے بائیبل سمیت انکی مقدس کتابوں کو پھاڑ کر جلایا جاتا ہے پھر دیگر کارروائیاں کی جاتی ہیں۔
یہ سب واقعات ان دنوں میں زیادہ ہوئے جب سویڈن میں کارٹون بنانے اور فرانس میں توہین رسالت سے متعلق واقعات ہوئےتھے۔ بلاسفیمی قوانین نے بھی ہمیں مذہبی اقلیتوں خاص کر عیسائیوں، ہندووں اور احمدیوں سے نبرد آزما ہونے اور ثواب کمانے میں بہت مدد کی۔ احمدیوں کی مساجد یا عبادت گاہوں کو تعزیرات پاکستان کے 298 سی کے تحت سرکاری مشینوں کے ذریعہ گرایا جاتا ہے پہلے سے موجود وہاں قرآن شریف بھی اپنے ہی ہاتھوں سے شہید کئے جاتے ہیں کیونکہ ان کے قرآن شریف کو ہم قرآن نہیں سمجھتے۔ اسی طرح مختلف فرقوں کے بلوائیوں نے احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملے کئے تو انہوں نے پہلے جاکر قرآن شریف نہیں ہٹائے۔ وزیر اعظم اور اراکین اسمبلی بتائیں کیا ہم یعنی “پاکستانی مسلمانوں” نے اپنے ہاتھوں سے قرآن شریف سمیت مقدس کتابوں کو نذر آتش نہیں کیا؟ جناب ارباب حل و عقد اپنے ہاتھوں سے قرآن جلانے کے واقعات پر بھی کسی جمعہ کو یوم سیاہ منایا جائے۔
ہندووں سے ہماری نفرت “پاکستانی مسلمانوں” کی گدی میں رچی بسی ہوئی ہے کیونکہ ہم نے پاکستان ہندو نفرت میں لیا تھا اسی سبب ہم انہیں اپنے ملک میں برداشت نہیں کرسکتے۔ پنجاب اور سندھ میں کون سا شہر ہے جہاں کسی مندر کو ہم نے کبھی سالم نہ چھوڑا ہو پھر کہتے ہیں کہ مذہبی اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ پختونخواہ میں تو مندر ہی نہیں چھوڑا۔ مذہب کی جبری تبدیلی ہماری سرشت میں شامل ہے جو سرکاری سطح پر کی جاتی ہے۔ کچھ مولویوں کو تو یہی فریضہ دیا گیا کہ جہاں کہیں کوئی ہندو لڑکی نظر آئے اسے اغوا کرکے مسلمان لڑکوں سے نکاح کراکر پھر زندگی بھر کیلئے غائب کردیا جائے۔ کم عمر ہندو لڑکیوں کے مذہب کی جبری تبدیلی اور انکے اغوا میں تو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ بھی شامل ہے جن کے جج حضرات عید اور جمعہ کے اجتماعات میں اغوا کار لڑکوں اور انکے اہل خاندان کو بلا کر شاباشی دیتے ہیں۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ہندو آبادی مذہب کے نام پر جبر و تشدد سے تنگ آکر ہر سال دس ہزار سے زائد ہندو باشندے ہندوستان نقل مکانی کر جاتے ہیں۔
ہاں البتہ حکمراں اور اراکین اسمبلی یہ منترا ختم نہیں کرتے کہ پاکستان تمام مذہبی اقلیتوں کو برتری کے حقوق حاصل ہیں۔ کسی مغربی ملک میں قرآن شریف جلائے جانے پر ہم چیخ پڑتے ہیں اور ہمیں چیخنا بھی چاہئے لیکن پہلے خود تو دیکھیں ہم اوسطاً روزانہ کی بنیاد پر قرآن شریف کو جلانے یا اسکی بیرونی کا عمل کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ ملک میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی بہانے کچی آبادیاں گرائی یا جلائی جاتی ہیں جن میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی رہتی ہے جو قرآن شریف کو اپنا بڑا تحفظ کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اپنی جھونپڑی یا کچے گھر میں رکھتے ہیں۔ سرکاری کارروائی میں قرآن شریف سب سے پہلے نشانہ بنتے ہیں۔
یہ عام مشاہدہ ہے کہ مسمار کئے جانے والے گھروں کی عورتیں مزاحمت کیلئے اپنے ہاتھوں میں قرآن شریف لیکر آتی ہیں جن کو مار پیٹ کر قرآن شریف پھینک دیا جاتا یا مزاحمت کیلئے جلائے جانے والے الاو میں جھونک دیا جاتا۔ مکانات اور جھونپڑیوں کو جب سرکار آگ لگاتی تو ظاہر ہے قران شریف بھی جلتے ہیں۔ ان آبادیوں میں مساجد بھی ہوتی ہیں جہاں قرآن شریف سمیت مقدس کتابیں بھی ہوتی ہیں جو بلڈوزرز کے ذریعہ روند دیئے جاتے ہیں۔
سنہ 2001 سے بلوچستان میں آپریشن جاری ہے جس کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بلوچ مزاحمت کو روکنے کیلئے گھروں پر بمباری بھی کرتے رہے اور بہت ساری آبادیوں کو صرف اس لئے نذر آتش کیا کہ وہاں بلوچ سرمچار روپوش ہیں۔ بلوچ آبادی بھی قرآن شریف کو اللہ کی کتاب سمجھتی ہے اور تحفظ کی بہترین ضمانت بھی۔ پختونخواہ میں بھی کبھی طالبان نے خودکش دھماکوں اور بہت دفعہ حکومت نے باغیوں کی سرکوبی میں گھروں پر حملے کئے، مکانات جلائے، پورا وزیرستان گواہ ہے جہاں ایسی کارروائیوں میں شاید ہی کوئی دن جاتا ہو جب گھروں پر حملے کرکے انہیں مسمار نہ کیا جاتا ہو۔وہاں بھی ہر گھر میں قرآن شریف ہوتا ہے، نیز سندھ تو ہے ہی خودسروں کا صوبہ وہاں مختلف شہروں اور گوٹھوں میں قانون نافذ کرنے والوں کی کارروائیاں خاص کر ڈاکووں کی سر کوبی کے نام پر جاری رہتی ہیں۔
سندھی گھر میں کچھ ہو نہ ہو قرآن ضرور رکھتے ہیں۔قانون نافذ کرنے والوں کی کارروائی میں اہمیت مطلوبہ شخص کو پکڑنا ضروری ہوتا ہے قرآن شریف یا دیگر مقدس کتابوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی پھر قرآن کیسے محفوظ رہے گا؟ علاوہ ازیں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان مسلح جھگڑوں میں مساجد، امام بارگاہیں، اور مدرسوں پر حملے کئے جاتے ہیں، آگ لگائی جاتی ہے اور توڑ پھوڑ ہوتی ہے جہاں بیشمار تعداد میں قرآن شریف شہید ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں مولوی، علما یا مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کیلئے مخالف کو واضح جہنم کرنا ہوتا ہے اگر قرآن جل رہے ہیں یا پیروں تلے آرہے ہیں تو وہ ہمارے قرآن نہیں ہیں وہ کفار کے قرآن ہیں۔ اب یہ کیسے پتہ کہ سویڈن میں جو قرآن جلایا گیا ہے وہ ہمارا ہے یا ہمارے مخالف فرقے کا؟ وہ احمدیوں کا تھا یا اہل تشیع، برہلوی، مالکی، دیوبندی، یا وہابی تھا۔ انہیں چاہئے وہاں قرآن شریف جلانے سے پہلے ہمارے پاکستانی مولویوں سے رجوع کرتے تو وہ درست طریقہ بتا دیتے پھر دنیا بھر میں اتنا ہنگامہ نہ ہوتا۔ ہمارے علمائے کرام اور حکمراں اپنی منافقت کو چھوڑیں، اور جھوٹ بولنا ختم کرکے دنیا بھر کے سامنے اقرار کریں کہ ان سے بڑا کوئی کافر نہیں جو اپنے ہی ہاتھوں سے خود قرآن جلانے ہیں۔
♣
3 Comments