بیرسٹر حمید باشانی
ہیبس کار پس ایک لاطینی اصطلاح ہے۔ کئی دیگر پیچیدہ لاطینی اصطلاحوں کی طرح اس اصطلاح کا سادہ اور عام فہم ترجمہ اردو زبان میں نہیں ہے۔اس کےجو تراجم کیے جاتے ہیں وہ اصل سے بھی مشکل لگتے ہیں۔جیسا کہ “پروانہ حاضری ملزم“یا حکم نامہ بدن وغیرہ۔ ان تراجم سے عام آدمی کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔عام زبان میں اس اصطلاح سے مراد ایک قانونی رٹ یا حکم ہے،جس میں مجاز اتھارٹی کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ کسی زیر حراست شخص کو عدالت یا جج کے سامنے پیش کریں۔
ایک جمہوری سماج میں جہاں انسانی حقوق کا احترام کیا جاتا ہو، وہاں ہیبیس کارپس کا مقصد شہریوں کو غیر قانونی یا من مانی حراست سے بچانا ہے، اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ان کی قید قانونی اور جائز ہے۔ جب کوئی شخص ہیبیس کارپس کی رٹ کے لیے درخواست دائر کرتا ہے، تو وہ بنیادی طور پر عدالت سے اپنی حراست کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینے کے لیے کہتا ہے۔ عدالت اس درخواست کی سماعت کے بعد اگر اس نتیجے پر پہنچے کہ حراست کی معقول اور کافی قانونی بنیاد نہیں ہے، تو اس شخص کو حراست سے رہا کرنے کا حکم جاری کر سکتی ہے۔ دنیا میں ایسے مشہور مقدمات کی بے شمار مثالیں ہیں، جہاں سیاست دانوں کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا اور ان کو اس رٹ کے ذریعے رہا کیا جاتا رہا۔
میانمار میں آنگ سان سوچی: نوبل انعام یافتہ اور نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی رہنما کو مختلف فوجی حکومتوں کے تحت میانمار میں متعدد بار حراست میں لیا گیا۔برازیل میں برازیل کے سابق صدر لولا ڈی سلوا کو 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ جس کی حراست کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ لیکن اس معا ملے میں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ گرفتاری کے جائز یا غیر قانونی ہونے کا تعین ہر ملک کے مخصوص قانونی اور آئینی فریم ورک اور قانونی کارروائی کے دوران پیش کیے گئے شواہد پر منحصر ہے۔بد قسمتی سےبعض صورتوں میں، سیاسی بنیادوں پر عمل میں لائی جانے والی گرفتاریوں کو ملک کے قانونی نظام کے تحت جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ لہذا، غیر قانونی گرفتاریوں کے الزامات کو متعلقہ قانونی حکام کی طرف سے مکمل جانچ پڑتال اور جائزہ لینے سے مشروط کیا جاتا ہے۔
ہیبیس کارپس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے ۔ اس کی جڑیں انگریزی قانون میں ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ اس کا ارتقا ہوا ہے۔مختلف ممالک نے اس بنیادی قانونی اصول کی اپنی الگ الگ تشریحات کو اپنایا ہے۔قرون وسطیٰ کے انگلینڈ میں تاج یا دیگر طاقتور افراد کی طرف سےغیر قانونی حراستوں سے نمٹنے کے لیے ہیبیس کارپس کا تصور ایک قانونی چارہ جوئی کے طور پرسامنے آیا۔اس اصول کے تحت عدالتوں کو کسی شخص کی حراست کی قانونی حیثیت کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے اور زیر حراست شخص کو عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دینے کا اختیار حاصل ہوا۔ یہ تاریخی قانون سازی1679 میں انگلینڈ میں چارلس دوم کے دور حکومت میں رسمی طور پرمنظور ہوئی۔ اس نے ہیبیس کارپس کے حق کو تسلیم کیا اور اسے ایک بنیادی آئینی تحفظ کے طور پر مستحکم کیا۔ یہ حق آگے چل کربیشتر مغربی جمہوریتوں میں تسلیم کر لیا گیا، اور آج بھی پوری طرح مروج ہے۔
امریکہ میں بھی یہ قانون رائج ہیں، لیکن امریکی خانہ جنگی کے دوران صدر ابراہم لنکن نے یونین مخالف سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے بعض علاقوں میں ہیبیس کارپس کو معطل کر دیا تھا۔ لیکن چیف جسٹس راجر نے جو فیڈرل سرکٹ کورٹ کے جج کے طور پر بیٹھے ہوئے تھے، نے فیصلہ دیا کہ لنکن کی جانب سے ہیبیس کارپس کی معطلی غیر آئینی تھی۔ تاہم، لنکن نے اس فیصلے کو نظر انداز کردیا، اور مزدور یونین کے رہنماوں کو زیر حراست رکھنے کی کوشش کی۔ اسی طرح امریکی سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ فوجی ٹربیونلز ان علاقوں میں عام شہریوں پر مقدمہ نہیں چلا سکتے، جہاں سول عدالتیں کام کر رہی ہوں۔ ایک کیس میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ خانہ جنگی کے دوران ہیبیس کارپس کی معطلی سے کسی شہری کے فوجی ٹرائل کا جواز نہیں بنتا ۔امریکہ کے جسٹس سسٹم میں یہ روایت اور مثال اب بھی قائم ہے۔
سنہ 2004 میں رسول بمقابلہ بش میں، امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ گوانتاناموبے میں غیر ملکی قیدیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی حراست کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے امریکی وفاقی عدالتوں میں ہیبیس کارپس کی درخواستیں دائر کریں۔ پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے اس قانون کی افادیت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں میں ہر دور میں ایسی گرفتاریاں ہوتی رہتی ہیں، جو ہیبس کارپس کے زمرے میں آ تی ہیں۔ لیکن یہاں قانونی روایت موجود ہونے کے باوجود اس قانون پر عمل درآمد سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں 1973 کا آئین عدلیہ کو ہیبس کارپس کا اختیار دیتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل199 کے تحت اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔
عملی طور پر بھی ماضی میں پاکستان کی عدالتوں میں کچھ ایسے مقدمات سامنے آئے ہیں، جس میں جج حضرات نے اس رٹ کا استعمال کیا۔ لیکن ایسی مثالوں کی بھی کمی نہیں ہے، جب عدالت کی طرف سے نوٹس لینے اور پیش کرنے کا حکم دینے کے باوجود زیر حراست شخص کو عدالت کے سامنے نہیں پیش کیا گیا۔ اس سلسلے مختلف حیلوں بہانوں سے کام لیا جاتا رہا ہے۔اس معاملے میں عام طور پر مجاز حکام یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ مطلوبہ شخص ان کے زیر حراست نہیں ہے، اور اس کے بارے میں مکمل طور پر لا علمی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی بعض تازہ ترین مثالیں گمشدہ افراد اور بعض صحافیوں کی ہیں، جن کو حسب حکم عدالتوں میں پیش نہیں کیا گیا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے اس قسم کی شکایات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
کسی بھی جمہوری معاشرے میں عوام کے بنیادی انسانی حقوق، اور ان کی شہری آزادیوں کے تحفظ کے لیے اس قانون کی موجودگی اور اس کا احترام لازم ہے۔ جمہوری معاشروں کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ کسی شہری کو بغیر کسی معقول جواز کے غیر قانونی طور پر حراست میں لے لیا جائے اور عدالتوں کے حکم کے باوجود ان کو عدالتوں میں پیش کرنے اور گرفتاری کی وجہ بیان کرنے گریز کیا جائے۔ ان میں سیاسی بنیادوں پر گرفتاریاں بھی شامل ہیں، جہاں بظاہر اگر زیر حراست شخص کو عدالتوں میں پیش بھی کیا جائے تو عام طور سولہ ایم پی او، امن و امان کو خطرہ اور دوسرے ایسے قوانین کا سہارالے کر کسی شخص کو گرفتار کرنے اور حراست میں رکھنے کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں دفعہ 124 الف اور 16 ایم پی او کو اس مقصد کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ دفعہ چوبیس الف کو تو لاہور ہائی کورٹ نے کالا قانون قرار دے دیا تھا، جو نو آبادیاتی دور کی باقیات ہیں۔ سولہ ایم پی او اب بھی مجاز اتھارٹی کے ہاتھ میں ایک موثر ہتھیار ہے، جس کو بڑی کثرت سے غلط استعمال کیا جاتا ہے، اور اس کی آڑ میں غیر قانونی گرفتاریوں کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ سولہ ایم پی او اور اس نوع کے دیگر قوانین کو جدید جمہوری اور انسانی حقوق کے تصورات کی روشنی میں دوبارہ دیکھا اور پرکھا جائے، اور ان قوانین کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لا کر ان کے جواز اور بے محابا استعمال پر از سر نو بحث کی جائے کیوں کہ سیاسی بنیادوں پر من مانی اور بے جواز گرفتاریوں کے لیے ایسے قوانین کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے قوانین حکمران اشرافیہ کے ہاتھ میں ایک طاقت ور اور خطرناک ہتھیار بن گئے ہیں، جن سے سیاسی مخالفین کو کچلا جا سکتا ہے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایسے قوانین کے بے جا استعمال کو روکنا نا گزیر ہے۔
♠