بیرسٹر حمید باشانی
مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے ؟ یہ سوال ہردوسرا آدمی پوچھتا ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے مسلسل یہ سوال پوچھا جا رہا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں سے لے کر کھیتوں اور کھلیانوں تک، اور کھیل کے میدانوں سے لیکر آرٹ فلم، سکولوں اور کالجوں میں ہر جگہ کئی نہ کئی یہ سوال سنائی دیتا ہے۔اس سوال کے کئی جواب ہیں۔ہر آدمی کے پاس مسئلہ کشمیر کا ایک اپنا حل ہے۔ پہلے اس مسئلہ پراور اس کے حل کی باتیں سیاسی پارٹیاں کیاکرتیں تھیں۔ یہ مسئلہ تھنکرز فورمز اور تھینک ٹینکس میں زیر بحث آتا تھا۔ سفارت کاروں ، سیاست دانوں اور دانشوروں کی سردردی تھی۔
اب جوں جوں سماج میں ابلاغ کے ذرائع عام ہو رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کا پھیلاو عام ہو رہا ہے ، تو یہ مسئلہ عام آدمی تک پہنچ گیا ہے۔ اور عام لوگ اس پر اپنی رائے دے رہے ہیں۔ رہا سوال اس مسئلے کے حل کا تو مسئلہ کشمیر کا ایک نہیں کئی حل موجود ہیں۔تاریخ میں آج تک کوئی ایسا سوال اٹھا ہی نہیں ، جس کا جواب نہ ہو، اور نہ ہی کوئی ایسا مسئلہ پیدا ہوا ہے ، جس کا حل نہ ہو۔ مگر مسئلہ کشمیر کے ساتھ یہ ہوا کہ اس مسئلے کو لے کر جو فوجی، عسکری، سیاسی اور سفارتی محاذوں پر گھمسان کا رن پڑا ہے، اس میں اس مسئلے کا حل کئی گم ہو گیا ہے۔ اور حل کے نام پر طرح طرح کے بیانیے سامنے آ گئے ہیں، جن کو زبردستی دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب دینے سے پہلے کہ مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے، یہ جاننا ضروری ہے کہ مسئلہ کشمیر ہے کیا ؟
چونکہ مسئلہ کشمیر کی اس وقت شکل و صورت اس ہاتھی کی طرح ہے، جو اندھوں کے ایک گروہ کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ جس اندھے کا ہاتھ ہاتھی کے جس اعضا پر پڑا اس نے اسی کو ہاتھی سمجھ لیا۔ یہی صورت اس وقت مسئلہ کشمیر کی ہے، جس فریق کو مسئلے سے دلچسبی ہے وہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اس مسئلے کو سمجھتا ہے، اور اپنی سمجھ کے مطابق اس مسئلے کا حل پیش کرتا ہے۔چنانچہ اس وقت مسئلہ کشمیر کے درجنوں نہیں، بلکہ سینکڑوں حل پیش کیے جا رہے ہیں۔ شاید ان میں سے پیشتر حل ایسے ہیں ، جن کو حل سے زیادہ خواہشات کا ملغوبہ کہا جا سکتا ہے۔ کچھ حل ایسے ہیں، جو حل کی شکل میں کئی نئےمسائل پیدا کرنے کا فارمولہ ہیں۔ کئی ایسے ہیں، جن کو زیر بحث لانا وقت ضائع کرنے والی بات ہے۔ اس کے باوجود کئی ایسے حل ہیں، جن پر غور و فکر اور بحث و مباحثے کی ضرورت ہے۔
چنانچہ ہم یہاں درجنوں فارمولے اور بیانیے ایک طرف رکھتے ہوئے صرف کچھ ایسےمعروف اور اہم ترین فارمولوں پر بات کریں گے، جو مقبول عام ہیں ، یا جن کو عوام اور حکمران اشرافیہ کی قابل لحاظ تعداد کی حمایت حاصل ہے۔ اگر پاکستان سے شروع کیا جائے تو پاکستان میں مسئلہ کشمیر کاجو حل سب سے زیادہ زیر بحث آتا ہے، یا مقبول عام ہے، وہی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا سرکاری موقف ہے۔ اس حل پر پاکستان کے اندر کافی حد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ پاکستان کی ہیت مقتدرہ اور بیشترعام دھارے کی سیاسی جماعتیں اس حل پر متفق نظر آتی ہیں۔ اس حل کا لب لباب یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر دراصل کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے، اور اس کا حل یہ ہے کہ کشمیری عوام کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں رائے شماری کرائی جائے، جس کے ذریعے کشمیری عوام یہ طے کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ ؟۔
یہ حل دراصل اس سرکاری بیانیہ پر کھڑا ہے کہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، اس لیے اگر ان کو رائے شماری کا موقع دیا گیا تو وہ اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کر لیں گے۔ یہ پاکستان کی سرکاری پوزیشن ہے، اور سرکاری حل ہے، جو1947 سے باربار مختلف ملکی اور عالمی فورمز پر دہرایا جاتا ہے۔ یہ وزارت خارجہ کے مینول سے لیکر تمام سرکاری خط کتابت اور دستاویزات میں نظر آتا ہے۔ گزشتہ ستر سالہ تاریخ میں پاکستان اپنے اس حل پر اصرارکرتا آیا ہے، مگر مسئلہ کشمیر پر ہونے والی سفارت کاری کی تاریخ میں چند ایک ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں، جب پاکستان کے طاقت ور حکمرانوں نے اس موقف سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے یا قبول کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ان میں فیلڈ مارشل ایوب خان ، ذولفقار علی بھٹو اور جنرل مشرف شامل تھے۔
یہ تینوں پاکستان کے طاقت ور ترین حکمران تھے، اور وازارت خارجہ کے بلیو پرنٹ یا روڈ میپ سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر پر بات کرنے یا اس کا حل نکالنے پر تیار تھے۔ تینوں نے مختلف اوقات میں مختلف فارمولے بھی پیش کیے، لیکن ہر دور میں حالات و واقعات نے ایسا رخ اختار کیا کہ یہ لوگ خواہش و کوشش کے باوجود کسی حل کی طرف نہ بڑھ سکے۔ ایوب خان کی اس خواہش کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اس کی ایک جھلک مئی 1964میں ان کے شیخ عبداللہ کے ساتھ بات چیت سے جھلکتی ہے۔ اس سرگرمی کا احوال نیو یارک ٹائمز کے27 مئی 1964کے شمارے میں پیش کیا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ شیخ محمد عبداللہ نے راولپنڈی میں کہا ہے کہ ایوب خان اور پنڈت جواہر لال نہرو جون میں نیو دہلی میں ملاقات کریں گے، جہاں وہ کشمیر کے مسئلے کا تسلی بخش حل نکالنے کے لیے آپس میں بات چیت کریں گے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ شیخ عبداللہ نے کہا کہ ایوب خان نے ان سے کہا ہے کہ وہ پنڈت نہرو سے ملیں گے، اور اس کی تصدیق پاکستان کے مقتدر حلقوں نے بھی کی ہے۔ شیخ عبداللہ کو گزشتہ ماہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی جیل سے رہا کیا گیا تھا۔انہوں نے دو ہفتے نہرو کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر بات چیت کی، اور نہرو کی اشیر باد سے ایوب خان کو ملنے کے لیے پاکستان آئے ہیں۔
اس سے پہلے 24 مئی کے شمارے میں نیو یارک ٹائمز نے لکھا کہ شیخ عبداللہ جو پاکستان سے ساز باز اور سازش کرنے کے الزام میں ایک قیدی تھا، کو بر صغیر کی دو قوموں کے درمیان ثالث بنا دیا گیا ہے۔ وہ کل راولپنڈی کی طرف پرواز کریں گے۔ وہ نہرو کی حمایت سے ایوب خان کو اس امید پر ملنے جا رہے ہیں کہ وہ ان سے مل کے وہ کچھ حاصل کر لیں گے، جو کچھ حاصل کرنے میں اقوام متحدہ اور مغربی طاقتیں نا کام رہی ہیں۔اس ضمن میں اب تک اتنا حاصل کیا جا چکا ہے کہ ایوب خان نے شیخ عبداللہ کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی ہے، اور وہ ان سے ملنے کے لیے بےتاب ہیں، اور نہرو بھی انہیں یہ دورہ کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صدرایوب کا ردعمل کیا ہوگا؟۔
غیر سرکاری رپورٹس کے مطابق نہرو اور شیخ عبداللہ نے کئِ فارمولوں پر بحث کی ہے۔ ان میں پہلا فارمولہ یہ ہے کہ کشمیر کو ایک کنڈومینیم بنا دیا جائے، جس پر پاکستان اور بھارت کا مشترکہ کنٹرول ہو۔ دوسرا فارمولہ یہ ہے کہ پاکستان بھارت اور کشمیر کی ایک کنفیڈریشن بنائی جائے۔ تیسرا فارمولہ یہ ہے کشمیر کو استصواب رائے کے آپشن کے ساتھ دس سال کے لیے اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ میں دے دیا جائے۔
اس صورت حال پر بات کرتے ہوئے پنڈت نہرو نے بمبئی میں کہا ہے کہ ہم شیخ عبداللہ کی کوششوں کی حمایت کریں گے، لیکن ایسا کرتے ہوئے ہمیں کشمیر کے بارے میں اپنے اصولوں کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔
ان فارمولوں کا کیا بنا اس کا احوال آیندہ کالموں میں پیش کیا جائے گا۔
♠