خبر ہےکہ آئی ایم ایف کے سٹاف لیول کی سطح پر تین بلین ڈالر قرضے کی منظوری دے دی گئی ہے اور اب جولائی کے وسط میں ایگزیکٹو بورڈ کی میٹنگ میں بھی اسے پاس کردیا جائے گا۔
وزیراعظم عمران خان کے دور میں جب یہ قرضہ منظورہوا تھا تو پی پی پی اور پی ایم ایل نے اسے مہنگائی میں مزید اضافے کاموجب قراردیا تھا۔ لیکن اب یہی پارٹیاں ایسے خوشی کا اظہار کررہی ہیں جیسے بہت بڑا خزانہ ہاتھ آگیا ہے۔
کیا یہ قرضہ پاکستانی عوام کی مشکلات کم کر سکے گا۔ تو اس کا جواب ابھی نفی میں ہے۔قرضے کی منظوری میں تاخیر اس وجہ سے ہوئی کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہیں کی جارہی تھیں۔ لیکن کیا اب منظور کر لی گئی ہیں؟
آئی ایم ایف کے پریس ریلیز کے مطابق پاکستانی حکومت نے اپنے حالیہ بجٹ میں آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق اقدامات اٹھائے ہیں۔یہ بیان کافی مبہم ہے۔ پاکستانی ریاست ہمیشہ سے مغربی ممالک سے جو شرائط طے کرتی ہے بعد میں وہ اس سے مکر جاتی ہے۔یہ ریاست مغربی ممالک سے بلی چوہے کا کھیل کھیلنے میں ماہر ہے ۔مگر کب تک؟
افراط زر کی شرح چالیس فیصد کے قریب ہے اور اشیائے ضروریات کی قیمتوں میں کمی کا کوئی امکان نہیں ۔تیل اور گیس کی بڑھتی ہوئی قیمیتں مزید اضافے کا موجب بنیں گی ۔عوام کو فی الحال مزید مہنگائی کاسامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔کیونکہ ریاست اپنے غیر انتظامی اخراجات کو کم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ الٹا اپنے لیے مزید مراعات کے بل پاس کروا رہی ہے جبکہ پی پی پی کے کو چئیرمین سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی دفاعی اخراجات کو سو بلین کی ایکسپورٹ کے آگے معمولی قراردیا ہے۔۔۔
web desk