پائندخان خروٹی
سیاسی زندگی گزارنے کے دو طریقے مروج ہیں: ایک ارتقائی طریقہ ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اپنا سر نیچے کر کے ذاتی مفادات بٹورتے رہو اور اپنے آپ کو معروضی حالات اور مسلط شدہ حقیر اقلیت کے رحم و کرم پر چھوڑ دو۔ یہ دراصل دائروں میں مشقت بھرا سفر ہے جس کا اختتام یا جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ اس میں انتہائی سست رو تبدیلی درجہ بہ درجہ آتی ہے جس میں انسانوں کا قیمتی وقت، توانائی اور بعض اوقات کئی نسلیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
مثلاً ترکی نے سلطنت عثمانیہ کے ذریعے مشتعل مذہبی میلہ لگا کر تقریباً ساڑھے چھ سو برس تک عرب و عجم پر علم شعور کے دروازے بند رکھے تھے۔ فرانس میں بوربن خاندان نے تین سو سال تک فرانسیسی قوم کو سیاسی و معاشی طور مغلوب رکھا تھا، زار روس رومانوف خاندان نے تین سو سال تک جبر و استحصال کا بازار گرم رکھا تھا۔ اس طرح متحدہ ہندوستان میں مغل حکمرانوں، افغانستان اور ایران میں شاہی خاندانوں کی عوام دشمنی، پاکستان میں آمرانہ حکومتوں کی غیر جمہوری پالیسیاں اور بورژوا جمہوری حکمرانوں کے عیش و عشرت پر بات کر کے میں اپنے قارئین کے منہ کا ذائقہ خراب نہیں کرنا چاہتا۔
آپ خوب جانتے ہیں کہ سردست سعود خاندان سعودی عرب میں اور ایرانی آخوندان اپنے اقتدار کو غیرضروری طول دینے کیلئے عوام کو ارتقاء یا تدریجی اصلاحات کے نام پر عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ شاید کہیں اور بھی مذہبی فرقہ واریت کے نام پر عوام کو مزید خوفزدہ رکھ کر اپنے منافع اور اقتدار کو وقتی طور پر برقرار رکھنے میں کامیاب بھی ہو جائے مگر ایک بات بہت واضح ہے کہ ان کا تسلط نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ جدید تقاضوں، انسانی ضروریات اور عوامی توقعات پر پورا اترنے کی اہلیت و صلاحیت سے عاری ہیں۔
انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں عملی جدوجہد کی سمت کو درست کرنے کیلئے سائنٹفک تھیوری کا ہونا لازم ہے۔ سیاسی قیادت کی تھیوری ہی کے ذریعے قدیم اور جدید کے درمیان رشتہ قائم رکھنے، موڈ آف پروڈکشن کے تناظر میں انسانی سماج کے مختلف ارتقائی مراحل کا ادراک کرنے اور روشن مستقبل کو تشکیل دینے میں ہمیں فکری رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ موجودہ بحرانی کیفیت اور بےیقینی کی صورتحال سے نکالنے میں پولیٹکل اکانومی ہی درست سمت اور رہنمائی فراہم کر سکتی ہے۔ آج کل کے سیاسی کیڈرز بھی پوسٹ ماڈرنسٹ مفکرین اور ادب برائے ادب پر یقین رکھنے والے ادباء وشعراء کی طرح وقتی تسلی، ذہنی عیاشی، اپنی قومی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرنے اور الفاظ کی جادوگری میں اپنے کردار کو چھپانے کیلئے ادبی اور سیاسی نظریات کو نظرانداز کرتے ہیں۔ گرے ایریاز کے ادیب و شعراء اور سیاسی کارکن بھی کلچر ولٹریچر کے نام پر گریزی کرتے رہتے ہیں کیونکہ پارلیمانی جمہوریت اور غیرنظریاتی جدوجہد صرف نام نہاد مڈل کلاس کے ادیب و سیاست دانوں کیلئے اصل عید ہوتی ہے۔
اسی طرح نرگسیت کے شکار سیاسی رہنماء اور پوسٹ ماڈرنسٹ اپنے آپکو غیرمحسوس انداز میں تنقید سے بالاتر رکھتے ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ نفسانفسی کے اس دور میں اکثر بڑے رتبوں اور عہدوں کے حامل افراد بھی حرص اور لالچ کا شکار ہو کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کیلئے قومی مفاد کو داو پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ سستی شہرت اور خودنمائی ہمارے ہاں پہلے بھی موجود تھی لیکن سوشل میڈیا کے ریل پیل نے اسے انتہا کو پہنچا دیا۔ سوشل میڈیا پر عام لوگ میڈیا ٹائکون اور سیاسی رہنماؤں سے زیادہ سخت لہجہ میں ایشوز اجاگر کرتے ہیں۔ سستی شہرت کے دلدادہ اور ایسے خود پرست نقادوں کے پوشیدہ اور آشکار سوچ واپروچ پر بےرحمانہ تنقيد کرنا اور انکے زردار اور زوردار کے ساتھ گٹھ جوڑ کو بےنقاب کرنا ہر ترقی پسند دانشور کا انسانی اور قومی فریضہ ہے۔
کامیاب اور کامران سیاسی زندگی گزارنے کا دوسرا انقلابی طریقہ ہے جو سسٹم اینڈ اسٹیٹس کو کے خاتمے کیلئے غیر منظم لوگوں کو ایک مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم پر منظم کرتے ہیں اور وہ عوامی حقوق و اختیارات مسلسل بڑھانے کیلئے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ ویسے بھی سیاسی جدوجہد میں معاشی خودمختاری، سماجی برابری اور مساویانہ انصاف پر خصوصی توجہ مرکوز رہتی ہے۔ انقلابی سیاست میں ظلم، جبر اور استحصال کو برداشت کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے، معاشی غلامی، اقتدار سے محرومی اور فکری پسماندگی کی بیخ کنی کیلئے ایک منظم سیاسی تنظیم کی بنیاد ڈالی جاتی ہے۔ اس لیے سیاست اور معیشت پر مسلط استحصالی عناصر اور ان کے حواری رجعتی عناصر کو اولسی/خلقی رنگ میں بدلنا اولین شرط ہے اور حالات کو بدلنے بالفاظ دیگر حالات کو معاشرے کی عظیم اکثریت کے قابو میں رکھنے کیلئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر خصوصی ذمہ داری نبھائی جاتی ہے۔
انقلابی سیاست میں حمایت یا مخالفت بھی نظریاتی بنیادوں پر کی جاتی ہے کیونکہ سیاست اپنے اصولوں پر مبنی ہوتی ہے۔ نظریاتی سیاست کسی مخصوص فرد کو نیچا دکھانے یا کسی قبیلہ/قوم کو بدنام کرنے کیلئے کسی دوسرے بورژوا عناصر کے ہاتھ تھامنے کا نام ہرگز نہیں ہے۔ ادب اور سیاست سے وابستہ وہ افراد جنہوں نے زندگی میں جدید و قدیم ادبی اور سیاسی نظریات کی بُو تک نہیں سونگھی ہو، اگر وہ بھی نظریاتی ہونے کا دعویٰ کریں تو یہ بذات خود نظریہ، انقلاب اور نظریاتی سیاست کی توہین ہے۔
پارلیمانی سیاست میں چی گویرا کے انقلاب یا آزادی کا خواب دکھانا تو عوام کے ساتھ دھوکہ اور فریب ہے۔ نظریاتی سیاست میں آپ کے اپنے ہو یا پرائے اور بادشاہت یا غیرجمہوری قوت چاہیے مشرق میں ہو یا مغرب میں ان کی بلاامتیاز بھرپور مخالفت کی جاتی ہے۔ لہٰذا استحصالی نظام اور اس سے مستفید ہونے والے بالادست طبقہ کے نمائندوں کو عوامی رنگ میں تبدیل کرنے کے بعد ہی سماج ایک نئے مرحلے میں داخل ہو سکتا ہے۔
♠