کیا بلاول بھٹو اپنے انکلز سے جان چھڑا سکتے ہیں؟

پی ڈی ایم کی حالیہ ڈیڑھ سالہ حکومت میں پی پی پی کی کارگردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ پی پی پی نے عمران خان کے دور میں مہنگائی کے نام پر لانگ مارچ کیا تھا اور وعدہ کیا تھاکہ وہ اقتدار میں آکر مہنگائی کا خاتمہ کریں گے۔ لیکن تحریک عدم اعتماد کے بعد جب پی ڈی ایم نے اقتدار سنبھالا تو عوام کی توقعات پر پانی پھر گیا۔

جب سے پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا ہے یہ ہمیشہ غریبوں کے ساتھ کھڑی ہوتی تھی۔۔۔ لیکن اب پاکستانی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ عوام مہنگائی سے بلبلا رہے ہیں، خودکشیاں کررہے ہیں لیکن پی پی پی سمیت کوئی بھی پارٹی اب عوام کے ساتھ کھڑی ہونے کو تیار نہیں۔ جس سے پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں واضح کمی ہوئی ہے۔

ایک جیالے دوست کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ بلاول بھٹو کو بھی اپنی والدہ کی طرح اپنے نام نہاد انکلز سے جان چھڑا لینی چاہیے۔۔۔

لیکن میرے خیال میں وہ اپنے اتالیق سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ ہمیں انکلز اور اتالیق میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔

بے نظیر بھٹو کا کوئی سیاسی اتالیق نہیں تھا۔ اپنے والد کی معزولی ، عدالتوں میں کیس بھگتنا ،پھانسی اور پھر خود قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی بے نظیر بھٹو کا اپنا ایک سیاسی نظریہ اور ویثرن تھا۔ انھیں 1977 سے 1987 تک کی سیاسی جدوجہد میں یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ کون پیپلز پارٹی کا حامی ہے اور کون نہیں لہذا انھوں نے اپنے انکلز کی بڑی تعداد سے پیچھا چھڑایا۔

سنہ 1986 میں جب بے نظیر بھٹو کا لاہور آمد پر تاریخی استقبال ہوا تھا اس کے بعد بے نظیر بھٹو نے ملک میں سیاسی سرگرمیاں شروع کیں اور اسی سلسلے میں لاہور میں دانشوروں و پروفیسروں کے ایک گروپ سے بھی ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر مہدی حسن راوی تھے کہ ہم نے بے نظیر بھٹو سے ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی غلطیوں پر بات کی تو انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ میں اپنے والد کی سیاسی غلطیوں کو نہیں دہراؤں گی۔

بے نظیر بھٹو کے بعد آصف علی زرداری آئے۔ ان کی بھی زندگی کا ایک بڑا حصہ جیلوں میں ہی گذرا ہے اور وہیں سے انھیں سیاسی داؤ پیچ کی سمجھ بھی آئی۔ سمجھوتہ نہیں کیا اور سیاسی لڑائی بھی لڑی۔

لیکن بلاول بھٹو کو مختلف حالات ملے ہیں ان کی بطور سیاسی لیڈر تربیت کی گئی ہے اور کی جارہی ہے۔ بے شک بلاول بھٹو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سیاسی وراثت کا مالک ہے۔بلاول بھٹو کو ان کے اتالیق سے اس کی اوریجنل شخصیت چھین کر اس میں بھٹو کی روح پھونکنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے ۔

اچھا سیاسی حالات کبھی ایک سے نہیں رہتے۔ اس دوران آصف علی زرداری کی سیاسی سوچ میں بھی تبدیلی آئی ہے ۔ وہ اب کسی بھی ناخوشگوار واقعے کا سامنا نہیں کرنا چاہتے ۔ بلاول بھٹو کی بطور وزیر خارجہ کارگردگی سے اس جھلک کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ جس میں انھوں نے بین الاقوامی امور میں ایسٹیبلشمنٹ کے مفادات کی بھرپور نمائندگی کی ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی کردیا ہے۔ایک دوست نے درست بات کی ہے کہ حالیہ ڈیڑھ سالہ دور میں پی پی پی نے فوج کی بی ٹیم کا کردار ہی ادا کیا ہے۔

شعیب عادل

Comments are closed.