بیرسٹر حمید باشانی
کل اچانک پروفیسر سے میری ملاقات ہو گئی۔اس دفعہ پروفیسر سےبہت عرصے بعد ملاقات ہوئی تھی۔ جو لوگ آٹھ دس سال پہلے میرے کالم پڑھتے رہے ہیں، وہ پروفیسر سے اچھی طرح واقف ہیں، جو اس وقت میرے کالموں کا ایک مستقل کردار رہا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب میں پروفیسر سے بات چیت کیے بغیربہت کم کالم لکھتا تھا۔ پروفیسر میرے لیے حالات حاضرہ پر لکھنے کے لیے ذہنی محرک کا کردار ادا کرتا تھا۔ ہمارے درمیان ہر طرح کے کرنٹ موضوعات زیر بحث آتے تھے۔ پروفیسر ان موضوعات پر طرح طرح کے سوال اٹھاتا تھا۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتا تھا۔ اکثر اوقات میرا بیانیہ پروفیسر سے مختلف ہوتا تھا۔ میں اپنے بیانیے کی بنیاد پر کالم لکھ دیتا تھا۔ پروفیسر اس کالم کو تنقید کا نشانہ بناتا تھا۔
اس طرح اگلی گفتگواور کالم کے لیے موضوعات ملتے رہتے تھے۔ یہ سلسلہ کئی سالوں تک چلتا رہا ۔ لیکن آگے چل کر میں نے اپنے کالم کا سٹائل بدل دیا۔ موضاعات اور طرز تحریر میں تھوڑی سی تبدیلی لائی۔ اس کے بعد میں نے فلسفیانہ مباحث کے بجائے تاریخی حقائق پر لکھنا شروع کردیا۔ پروفیسر کو یہ تبدیلی پسند نہیں آئی۔ آہستہ آہستہ میرے کالموں میں اس کی دلچسبی کم ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ ہمارے درمیان بحث و مباحثے کا سلسلہ تقریبا ختم ہو گیا۔ میں نے کالم لکھنا جاری رکھا، اور پروفیسر اپنے معاملات میں مصروف ہو گیا۔ لیکن کل پھر ایک مدت بعد پروفیسر کا فون آگیا۔ مجھے فون کی سکرین پر پروفیسر کا نام دیکھ کر خوشی ہوئی۔ جوں ہی میں نے جواب دیا پروفیسرآداب و تسلیمات کے تکلفات میں پڑے بغیر سیدھا اصل بات پر آ گیا۔
وہ آزاد کشمیر میں جاری حالیہ احتجاج اورہنگاموں کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا۔ پروفیسر کا خیال تھا کہ اس احتجاج کو لے کر بہت ساری غلط فہمیاں اور کنفیوزن ہے، جس پر گفتگو ضروری ہے۔ مجھے پروفیسر کی تجویز پسند آئی۔ میں پہلے ہی اس موضوع پر کالم لکھنے کا ارادہ باندھ چکا تھا، اور اس موضوع کو لے کر بہت سارے خیالات، جذبات اور معلومات میرے دماغ کا گھیرا کیے ہوئے تھیں۔ یہ میرے لیے اچھا موقع تھا کہ میں پروفیسر جیسے ذہین اور جہاندیدہ شخص سے اس موضوع پر گفتگو کروں اور اپنے خیالات میں موجود الجھاؤ کو سلجھانے کی کوشش کروں۔ میں نے پروفیسر کو بتایا کہ یہ احتجاج صرف آزاد کشمیر کے علاقے تک محدود نہیں، بلکہ یہ کسی نہ کسی شکل میں پورے پاکستان میں ہو رہا ہے۔
اس احتجاج میں صرف ایک بات مشترک ہے کہ اس میں بار بار بجلی اور اشیائے خوردو نوش کی ہوشربا قیمتوں کا ذکر ہے۔ اس مشترکہ بات کے علاوہ اس احتجاج، اس کے پس منظر اور اس کی وجوہات میں بہت نمایاں فرق ہے۔ اس فرق کو سمجھے بغیر اس مسئلے کو پوری گہرائی سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ پاکستان میں بجلی کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ اور اشیائے خورد و نوش کی ہوش ربا قیمتوں کی وجوہات کوئی راز نہیں۔ اور اگر یہ راز تھا بھی تو اب طشت از بام ہو چکا۔ بجلی میں اضافے کی وجوہات پر لاکھوں تحریریں اخبارات اور سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ عوامی اور سادہ زبان میں بھی کئی ایک وجوہات پیش کی گئی ہیں۔ ان میں ایک اہم وجہ ماضی میں پاکستان میں شدید لوڈشڈنگ پر قابو پانے کے مصنوعی اور عارضی اور ہنگامی طور پر اختیار کیے گئے طریقے ہیں۔
ان میں رینٹل کا نظام ، بجلی کی تقسیم کا ایسا نظام جوبجلی کی لاگت میں اضافے کا باعث بنا، بجلی کے تقسیم کے نظام میں بد انتظامی،رشوت، چوری،کریپشن، کمیشن، اور دیگر حربوں کے لیے گنجائش سمیت دیگر کئی وجوہات ہیں۔ بجلی کے علاوہ دیگر اشیا میں مہنگائی کی وجوہات میں آئی ایم ایف کی شرائط کا من و عن تسلیم کیا جانا ایک فیصلہ کن عنصر بنا۔ آزاد کشمیر میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور اشیائے خورد و نوش کی ہوشربا قیمتوں کے پس منظر میں مزکورہ بالا یہ تمام وجوہات بھی ہیں، لیکن ان کے علاوہ کچھ دوسری اہم اور فیصلہ کن وجوہات ہیں۔ بجلی کی قیمت میں نا قابل برداشت اضافے کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بنیادی وجہ آزاد کشمیر میں پیدا کی جانے والی بجلی کی تقسیم کا نظام ہے۔
یہ نظام آئینی، قانونی اور اخلاقی ضابطوں اور تقاضوں سے متصادم ہے۔ تقسیم کا یہ نظام کیا ہے ؟ اس سوال کو جواب عوامی زبان میں اس طرح دیا جا سکتا ہے کہ آزاد کشمیر میں بجلی پیدا کرنے کے کئی چھوٹے بڑے ڈیم ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان ڈیمز سے چار ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ یہ بجلی پہلے مراحلے پر نیشنل گرڈ میں ٹرانسفر کی جاتی ہے۔ یہاں سے یہ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے زریعے مختلف علاقوں میں تقسیم کی جاتی ہے، جن میں آزاد کشمیر بھی شامل ہے۔ اس طرح آزاد کشمیر سے پیدا ہونے والی یہ بجلی جب مختلف مراحل سے گزر کر واپس آزاد کشمیر کے عوام تک پہنچتی ہے، تو اس کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ بجلی کی قیمت میں اس اضافے کی وجہ یہ ہے کہ تقسیم کے عمل کے دوران ہر” سٹیک ہولڈر” اس سے اپنا حصہ وصول کرتا ہے۔
اس میں گورنمنٹ آف پاکستان کا ٹیکس،حکومت آزاد کشمیر کا ٹیکس، تقسیم کاروں کا حصہ، کمیشن ، لوٹ مار، اور اس طویل اورغیر ضروری عمل کی لاگت شامل ہے۔ اس طرح وہ بجلی جو آزاد کشمیر کے عام لوگوں کو لاگت کے اعتبار سے تین روپے فی یونٹ مل سکتی ہے وہ ستر روپے فی یونٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ دوسری طرف اس کہانی میں اہم ترین بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں بہت کم بجلی استعمال کی جاتی ہے۔ اس ریاست کی کل ضرورت چار سو میگاواٹ سے بھی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر میں حکمران اشرافیہ سمیت تمام صاحب رائے لوگ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آزاد کشمیر میں الگ گرڈ سٹیشن قائم کیا جائے، جو مقامی سطح پر بجلی کی ضروریات پوری کرے تاکہ غیر ضروری ٹیکسوں اور لاگت سے بچا جا سکے۔
یہ تو تھا بجلی کا قصہ۔ جہاں تک سوال ہے اشیائے خورد نوش کی قیمتوں کا تو ان میں سے سب سے بنیادی ضرورت یعنی آٹا آزاد کشمیر کے عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوجانے کی ایک وجہ آئی ایم ایف اور مہنگائی ضرور ہے، لیکن ایک معلوم اور واضح وجہ آٹے پر روایتی طور پر دی جانے والی سسبسڈی کا خاتمہ بھی ہے۔ دنیا بھر میں کم خوش قسمت، غریب اور پچھڑے ہوئے لوگوں کو اس طرح کی سبسڈی کے ذریعے فاقہ کشی سے بچایا جاتا ہے۔ جب تک ان لوگوں کو آمدنی کے معقول زرائع میسر نہ ہوں، ان کو زندگی میں ترقی کے مساوی مواقع نہ مہیا کیے جائیں،اس وقت تک ان کو اس طرح کی سبسڈیز اور دیگر مراعات کے ذریعے با عزت زندگی گزارنے کے اسباب مہیا کیے جاتے ہیں۔ زندگی کو دوڑ میں ان کو نیچے گرانے کے بجائے ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ ان کو تاریک بلوں میں رہنے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔
آزاد کشمیر اس معا ملے کوئی استشناء نہیں ہے۔ یہاں جس قدر غربت اور پسماندگی ہے، اس کے پیش نظر بجلی کی لاگت میں اضافہ نہیں کمی کی ضرورت ہے۔ سبسڈی میں کمی کے بجائے اضافے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ بھی کوئی مستقل حل نہیں ہے، محض عارضی افاقہ ہے ” پروفیسر نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔ مستقل حل تو بہرحال ایک منصفانہ معاشی نظام کے قیام میں ہی مضمر ہے۔ لیکن ایسا نظام قائم ہونے تک عوام کو لوٹنے اور فاقہ کشی پر مجبور کرنے کے بجائے اشیائے ضروریہ کی کی قیمتیں عوام کی آمدن کے تناسب کے مطابق مقرر ہوں، اور جہاں اس مقصد کے لیے آمدن کم ہے، وہاں سبسڈی کے ذریعے غربت زدہ لوگوں کے مصائب میں کمی لائی جائے۔
♠