بیرسٹر حمید باشانی
میں نےگزشتہ کالم میں ڈکسن پلان کا ذکر کیا تھا۔ ڈکسن کو پچاس کی دہائی میں مسئلہ کشمیر پر ایک اتھارٹی مانا جاتا تھا۔ پاکستان اور انڈیا کی حکمران اشرافیہ اور خصوصا پنڈت جواہر لال نہرو نے اس حقیقت کو کھلے عام تسلیم کیا تھا کہ ڈکسن کشمیر کے مسئلے اور اس کے حل کے بارے میں غیر معمولی علم اور دسترس رکھتا ہے۔ مگر اس کے باوجود ڈکسن پلان کو رد کر دیا گیا۔ اگلا جو شخص مسئلہ کشمیر پر پلان یا تجاویز لے کر آیا، وہ مسئلہ کشمیر پر ڈکسن سے بھی زیادہ دسترس رکھتا تھا۔ یہ شخص جوزف کاربل تھا۔
جوزف چیکو سلواکیہ کا سفارت کار تھا، جو شروع دن سے ہی مسئلہ کشمیر سے منسلک رہا تھا۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا پاکستان کا ممبر اور چئیرمین بھی رہا تھا۔ اس کے علاوہ وہ کشمیر پرریسرچ پیپر اور ایک کتاب بھی لکھ چکا تھا۔ لیکن جوزف نے بھی جو حل تجویز کیا وہ استصواب رائے کے گرد ہی گھومتا تھا، اور اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ جوزف کربل نے 1953 میں لکھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ریاست جموں کشمیر کے تنازعے کو سیکورٹی کونسل کے ایجنڈے پرآئے ہو چھ سال ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اس کے پر امن اور حتمی حل کے لیے کوشش کرچکی ہے ، جس میں اس کو کامیابی نہیں ہوئی۔اس سلسلے میں ہونے والی تمام کوششیں رائیگاں گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کے لیے یہ مسئلہ ثالثی تک محدود رہا ہے۔ اور اب بھی یہ مسئلہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہے ، جو اس مسئلے کے فریق ہیں۔
گزشتہ اگست میں پاکستان اور بھارت نے اس تنازعے کا پر امن حل نکالنے کا عندیہ دیا تھا۔ یہ بات آزاد دنیا کے لیے باعث اطمینان تھی۔ پنڈت جواہر لال نہرو اور پاکستانی وزیر اعظم محمد علی کے درمیان چار دن کی گفتگوکے بعد دونوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے حکمران دہلی میں کئی ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ یہ ملاقاتیں اس بات چیت کا تسلسل تھیں، جو تین ہفتے قبل کراچی میں ہوئی تھی۔ ان ملاقاتوں میں کشمیر سمیت دوسرے تمام معا ملات پر کھل کر بات ہوئی تھی۔دونوں وزرائے اعظم نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ دونوں ممالک کے مفاد میں اس مسئلے کا حل نکالیں گے۔ یہ ان کی پختہ رائے تھی کہ یہ مسئلہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ان کے بہترین مفاد میں کچھ اس طرح حل کیا جائے کہ اس کی وجہ سےان کی موجودہ زندگی میں کوئی بڑی پریشان کن تبدیلی نہ ہو۔ عوام کی رائے کا اظہار کا سب سے زیادہ قابل عمل طریقہ استصواب رائے ہے۔
اس طرح کا استصواب رائے چند سال پہلے تجویز کیا جاچکا ہے۔لیکن کچھ ابتدائی مسائل کی وجہ سے اس سمت میں پیش قدمی نہ ہو سکی۔ وزراَ اعظم نے اتفاق کیا ہے کہ ان ابتدائی مسائل پرا تفاق کے لیے کو براہ راست بات چیت کی جائے۔ اور اس اتفاق پر عمل کیا جائے اور اگلے قدم کے طور پر استصواب رائے کے لیے ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا جائے۔ ایک عارضی ٹائم ٹیبل کے لیے یہ طے کیا گیا کہ ایڈ منسٹریٹرکا تقرر اپریل 1954کے آخر سے سے پہلے کیا جائے۔ اس سے پہلے جن ابتدائی مسائل کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، ان کا حل نکالا جائے اور اس پر عمل درآمد کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے فوجی اور سول کمیٹیاں بنائی جائیں جو وزرائےاعظم کی معاونت کریں ، ایڈمنسٹریٹر کی نامزدگی اور جموںو کشمیر حکومت کی طرف سے اس کے تقرر کے سلسلے کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کی جائے۔اور اس سلسلے میں دیگر اقدامات کے لیے تجاویز پیش کی جائیں گی۔
اس سرکاری اعلامیے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ دونوں وزرا ئے اعظم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ جموں کشمیر کے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے پوری ریاست میں استصواب رائے کرایا جائے۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے ایڈ منسٹریٹر کے تقرر پر غور کیا ہے ، جو استصواب رائے کے لیے تجاویز دے گا۔ تیسرا یہ کے تقرر کے لیے جو عارضی ٹائم ٹیبل بنایا گیا ہے، اس کا دارومدار ابتدائی مسائل کے حل پر ہے۔ یہ ابتدائی مسائل کیا ہیں ؟ اقوام متحدہ کی ثالثی کی تاریخ سے یہ سامنے آتا ہے کہ ان ابتدائی مسائل میں پہلا مسئلہ فوجوں کا انخلا ہے، جس کے بغیر استصواب رائے ممکن نہیں ہے۔ یہ ابتدائی مسئلہ گزشتہ چھ سال سے ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے۔ لیکن دوستی کے نئے جذبے کے تحت، اور نئے معاشی مسائل کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کی حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کا عزم کیا ہے۔
سیکورٹی کونسل میں کشمیر ایشو جنوری 1948 میں آ گیا تھا۔ اس دن بھارت نے پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل چونتیس اور پینتس کے تحت شکایت درج کی ہے۔ سیکیورٹی کونسل نے باب چھ کے تحت اس مسئلے پر غور و فکر شروع کیا، جو مسائل کے پر امن حل کی بات کرتا ہے۔ یہ باب سیکورٹی کونسل کے اختیارات کوسفارشات تک محدود کرتا ہے۔ اس باب کے تحت جارحیت کا تعین نہیں کیا جاتا، یا پابندیوں کا اطلاق نہیں کیا جاتا۔اس درخواست کے جواب میں سیکورٹی کونسل نے اکیس اپریل1948 کو ایک قرار داد پاس کی۔
اس قرار داد میں پاکستان اور بھارت سے کہا گیا کہ وہ کشمیر میں لڑائی کو روکنے کے لیے پوری کوشش کریں۔ کونسل نے پانچ رکنی کمیشن کا تقرر کیا، جو قیام امن کے لیے دونوں ممالک کی معاونت کرے گا۔ کمیشن نے تجویز کیا کہ دونوں ممالک اپنی افواج کو نکال کر کم از کم سطح پر لائیں، اور سیکرٹری جنرل ایڈمنسٹریٹر کو نامزد کریں، جو استصواب رائے کا بندوبست کرے۔ پاکستان اور بھارت دونوں نے اس قرارداد پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔ پاکستان کے نزدیک یہ قرارداد ناکافی تھی، کیوں کہ یہ استصواب رائے کی ضمانت نہیں دیتی تھی۔ بھارت کے نزدیک یہ قرادار ضرورت سے زیادہ تھی کیوں کہ یہ پاکستان کو جو بنیادی طور پر مدعا علیہ تھا اس کو بھارت کے مقابل کھڑا کرتی ہے۔ اور یہ قرار داد پاکستان کی جارحیت کی مذمت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
تاہم دونوں ممالک نے کمیشن کی ثالثی قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ کمیشن کے لیے صورت حال خوشگوار نہیں تھی۔ کمیشن کی آمد سے پہلی ہی پاکستانی پریس نے خبردار کر دیا تھا کہ ان کا سیاہ جھنڈوں سے استقبال کیا جائے گا۔ دوسری طرف بھارتی اخبارات نے لکھا کہ بھارت کمیشن سے مشروط تعاون کرے گا۔اس طرح دونوں طرف سے کمیشن کے لیے شک کا اظہار کیا گیا۔ کمیشن کے لیے یہ افسوسناک صورت حال تھی، چونکہ کمیشن کا کام محض تجاویز دینا اور اپنی شفارسات پیش کرنا تھا، اور ایسا تب ہی ممکن ہو سکتا تھا، جب دونوں ممالک کی طرف سے اس کو اعتماد حاصل ہو۔ اس لیے کمشن نے بڑی احتیاط سے آگے بڑھنا تھا۔پاکستان اور بھارت کے نمائندوں سے طویل ملاقاتوں کے بعد کمیشن کو مسئلہ کشمیر کی پیچیدگیوں کا بہتر اندازہ ہوا۔
جوزف کاربل کے بعد کشمیر کا نیا حل کون لے کر آیا اس کا احوال کسی آیندہ کالم میں بیان کیا جائے گا۔
♣