بصیر نوید
عورت مارچ سے وابستہ یا ہمدردی رکھنے والے افراد کی طرف سے مجھے بتایا گیا کہ وہ افغانیوں کی واپسی کی اس لئے مخالفت کررہے ہیں کہ وہ اس کو انسانی پہلو سے دیکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مہاجرین میں اسماعیلی، شیعہ، بہائی، عیسائی اور دیگر فرقوں کے لوگ شامل ہیں نیز ان میں موسیقار، گلوکار و گلوکار آئیں، رقاص، اور فنکار، آرٹسٹ و مجسمہ ساز وغیرہ بھی ہیں جن کیلئے طالبان نے زندگی تنگ کی ہوئی ہے اگر وہ واپس چلے گئے تو مار دیئے جائیں گے۔ میرا ان سے یہی کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کی پاکستان میں کئی دہائیوں سے موجودگی یہاں کے مقامی لوگوں کیلئے ایک بڑا سنجیدہ مسئلہ ہے اسکے ساتھ یہ بہت ہی حساس مسئلہ بھی ہے۔ خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کیلئے جہاں کی ڈیموگرافی کو براہ راست خطرہ ہے۔ علاوہ ازیں شہری زندگی اور اس سے جڑے ہوئے معاشی، ثقافتی و لسانی اور رہن سہن کے بھی سنگین مسائل نے جنم لیا ہے خاص کر کرائمز میں اضافہ ہوگیا ہے۔
اس حساس مسئلے پر کسی تنظیم یا چند تنظیموں نے بغیر بحث و مباحثے کے سب سے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جو فیصلہ کیا ہے وہ صحیح ہے ” بے شک ہم صحیح سوچتے ہیں” کے مصداق۔۔ مجھے یہ بھی کہا گیا کہ وہ اتوار کو احتجاج تو ہر صورت کریں گے، ٹھیک ہے بالکل کریں لیکن میرا کہنا تھا کہ اس روز ہی اعلان کردیں کہ ہم دوسروں سے اس بارے بات کریں گے اور کوئی متفقہ سوچ ابھاریں گے۔ لیکن اس کا کوئی مثبت جواب نہیں آیا ۔میں نے انہیں بتایا کہ بہت سارے پاکستانی ایکٹویسٹ، جرنلسٹ اور سیاسی کارکن پختون خوا اور خاص کر بلوچستان میں فوجی آپریشنز، جبری گمشدگیوں وغیرہ کے سبب غنی حکومت کے دوران افغانستان میں پناہ کیلئے گئے تھے لیکن اب وہ وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ خاندان اپنے گھروں میں قید ہیں، گلی کے نکڑوں پر طالبان کی گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں اور انکی سخت نگرانی ہوتی وہ کہیں نہیں جاسکتے ان کے پاس وائی فائی بھی مشکل سے راشن کی صورت میسر آتا ہے۔ میرا ان سے اب بہت کم رابطہ رہتا ہے پہلے میں ان کے حق میں کبھی خطوط لکھ دیا کرتا تھا اب وہ رابطہ بھی ختم ہے۔
میرا کہنا تھا ان کی نہ صرف واپسی کا مطالبہ ہو بلکہ پاکستان سے بھی کہا جائے کہ کہ ان کو واپس بلائے اور ان پر قائم تمام مقدمات واپس لئے جائیں۔ ابھی تک تو میری اس گذارش کا کوئی جواب نہیں آیا۔ خیر اب میں اب یہ تجاویز دیتا ہوں کہ پاکستان کے مختلف سول سوسائٹیز میں باہمی رابطے کیلئے اس موضوع پر ڈیبیٹ شروع کرائی جائے، حکومت پر زور دیا جائے کہ یا سول سوسائٹیز اپنے بحث و مباحثے کے بعد جو متفقہ طور پر طے کریں اس کے تحت ایسے عمل کی نشاندھی کریں جس کے تحت افغان مہاجرین کی واپسی میں ایسے افغان مہاجرین کے کیسز کا جائزہ لیں جن کی جانوں کو واپسی کے بعد سخت خطرات لاحق ہوں ان کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
نیز حکومت پاکستان ایسے افغان مہاجرین کی دوسرے ملکوں میں آبادکاری کیلئے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لائے اور پنجاب یا اسلا آباد میں مہاجرین کے کیمپ بنا کر انہیں وہاں آباد کیا جائے تاکہ جن صوبوں کے وسائل اور ڈیموگرافی کو خطرات لاحق ہیں ان کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ اور افغان مہاجرین بھی پاکستان سے چلے جائیں۔ یہ سوچا جائے کہ جو افغان گروپس ہیں جن کو افغانستان میں جان ومال کے خطرات ہیں انہیں کیسے بچایا جائے، بجائے اس کے کہ تمام افغان مہاجرین کی واپسی کو روک کر اپنے لئے خطرناک قسم سنگین مسائل پیدا کئے جائیں اور ملک کے متاثرہ صوبوں میں لسانی، معاشی اور کرائمز کے اضافے کے مسائل کو خطرناک بلکہ خونی حد تک بڑھائے جائیں۔
♣