بیرسٹر حمید باشانی
حماس کیاہے ؟اس میں کون لوگ شامل ہیں ؟ اسرائیل حماس تصادم کے تناظر میں یہ سوال ہر کوئی اٹھا رہا ہے۔ اگر تاریخ میں دیکھا جائے توحماس کی ابتدا 1928 میں مصر میں اخوان المسلمون کی بنیاد سے جا کر جڑتی ہیں ۔تاریخ کے اس دور میں اخوان المسلمون بنیادی طور عرب اور اسلامی ریاستوں میں ایک ایسی اسلامی تحریک کے طور پر منظم ہوئی تھی، جس کا مقصد اسلامی اقدار کو مسجد سے باہر نکال کر سیاسی و سماجی زندگی تک پھیلانے کی کوشش کرنا تھا۔ اپنے ابتدائی اعلامیہ میں اس تنظیم نے اس وقت کے بنیادی مروجہ سماجی، سیاسی، نظریاتی خیالات، قوم پرستانہ جزبات اور معاشی نظام کو چیلنج کیا۔
سنہ 1935 میں اس تنظیم نےفلسطین میں رابطے قائم کرنے شروع کیے۔ اگلے دس سالوں میں 1945 میں اس نے یروشلم، اورغزہ میں اپنی شاخیں کا قائم کیں ۔1948 میں نکبہ کے بعد کےحالات نے فلسطینی معاشرے کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔ اس کے رد عمل میں اخوان المسلمون پہلی تنظیموں میں سے ایک تھی، جس نے خود کو فلسطینیوں میں متعارف کرایا اور بطور تنظیم اپنے آپ کو منظم کیا۔ اس کے بعد یہ تنظیم فلسطین میں سماجی اور فلاحی کاموں میں متحرک کردار ادا کرتی رہی۔ جب اسرائیل نے 1967 میں فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا تو اخوان المسلمون کے ارکان نے مزاحمت میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ تنظیم نے یہ موقف اختیار کیا کہ اس کا مقصد سماجی مذہبی اصلاحات اور اسلامی اقدار کی بحالی پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔۔ اس کے بعد طویل عرصہ تک اس تنظیم نے اپنی سرگرمیوں کو سماجی و مذہبی اصلاحات کے کام تک محدود رکھا۔
یہ نقطہ نظراور موقف 1980 کی دہائی کے اوائل میں بدلنا شروع ہو گیا ۔اس تبدیلی کے پیچھے محرک احمد یاسین تھے، جو الجورا سے تعلق رکھنے والے ایک فلسطینی پناہ گزین تھے۔ ایک غریب پس منظر رکھنے، اور جسمانی طور پر معذور ہونے کے باوجود، وہ مختصر عرصے میں غزہ میں اخوان المسلمون کے رہنماؤں میں سے ایک بن کر سامنے آئے۔ ان کے کرشمہ اور یقین نے ان کے ارد گرد پیروکاروں کا ایک وفادار گروہ جمع کیا، جس پر، وہ ہر چیز کے لیے انحصار کرتے تھے– یہ پیروکار انہیں کھانا کھلانے سے لے کر، عوامی اجتماعات تک پہنچانے تک ہر قسم کا کام کرتے تھے ۔
سنہ1973میں، احمد یاسین نے اخوان المسلمین کی شاخ کے طور پر غزہ میں سماجی مذہبی خیراتی ادارے المجامع الاسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ اسرائیلی حکام نےاحمد یاسین کے اس خیراتی ادارے کی سپورٹ کرنے کی پالیسی اپنائی کیونکہ ان کے خیال میں یہ تنظیم سیکولر فلسطین لبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کے ساتھ توازن قائم کرنے کے کام آسکتی تھی۔یاتیزک، جو اس وقت غزہ کے اسرائیلی فوجی گورنر تھے، نے اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ انہوں نے اس خیراتی ادارے کو فنڈز فراہم کیے تھے۔اسی طرح غزہ میں اسرائیل کے مذہبی امور کے عہدیدار ایونر کوہن نے افسوس کے ساتھ لکھا کہ حماس کو بد قسمتی سے اسرائیل نے بنایا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنے اعلیٰ افسران کو خبردار کیا تھا کہ وہ سیکولر پی ایل او کے مقابل اسلام پسندوں کی پشت پناہی نہ کریں۔ لیکن اسرائیل نے یہ عمل جاری رکھا کیوں کہ حماس کے لیے اسرائیل کی حمایت اس کے سیکولر حریف، فلسطین لبریشن آرگنائزیشن پی ایل او کو محدود کرنے اور اس کی طاقت کم کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔
سنہ1984میں احمد یاسین کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب اسرائیلیوں کو پتہ چلا کہ اس کے گروپ نے اسلحہ جمع کرنا شروع کر دیا ہے،لیکن بعد میں مئی 1985 میں قیدیوں کے تبادلے کے طور پر ان کو رہا کر دیا گیا۔ رہائی کے بعد انہوں نے غزہ میں اپنے خیراتی اداروں کی رسائی بڑھانے کے لیے اپنی سرگرمیوں میں تیزی لائی۔ اپنی رہائی کے بعد، انہوں نے المجد (مناظم الجہاد و الدعوۃ کا مخفف) قائم کیا، جس کی سربراہی سابق طالب علم رہنما یحییٰ سنوار اور راوی مشتاحہ نے کی، جسے اندرونی سلامتی سے نمٹنے اور اسرائیلی انٹیلی جنس کے مقامی مخبروں کا مقابلہ کرنے کا کام سونپا گیا۔
تقریباً اسی وقت، اس نے سابق طالب علم رہنما صلاح شیہدے کو المجاہدین الفلسطینون (فلسطینی جنگجو) قائم کرنے کا حکم دیا، لیکن اس کے عسکریت پسندوں کو اسرائیلی حکام نے جلد ہی پکڑ لیا اور ان کے ہتھیار ضبط کر لیے۔حماس کے قیام کا بنیادی خیال 10 دسمبر 1987 کو اخوان المسلمون کے اجلاس میں زیر بحث لایا گیا۔ یہ اجلاس اگلے دن ہونے والےاس واقعے کے جواب میں ہوا تھا، جس میں غزہ کی ایک چوکی پر اسرائیلی فوج کا ایک ٹرک ایک کار سے ٹکرا گیا تھا جس میں 4 فلسطینی دیہاڑی دار مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔یہ اجلاس احمد یاسین کے گھر پر منعقد ہوا اور اس میں فیصلہ کیا گیا کہ انہیں بھی کسی نہ کسی طریقے سے رد عمل کا اظہار کرنا چاہیے، کیونکہ پہلے انتفادہ کو جنم دینے والے احتجاجی فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
اس طرح14 دسمبر کو جاری کردہ ایک کتابچہ میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا مطالبہ کیا گیا، اور اسے ان کی پہلی عوامی مداخلت کا نشان قرار دیا گیا۔ اس پیش رفت کے باوجود خود حماس کا نام جنوری 1988 تک استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ احمد یاسین کا تنظیم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن اس نے اسے اپنی آشیرواد دی تھی۔لیکن آگے چل کرفروری 1988 میں اردنی اخوان المسلمین کے ساتھ ایک میٹنگ میں انہوں نے بھی اس کی منظوری دی تھی۔ بہت سے فلسطینیوں کے لیے یہ اقدام ان کی قومی توقعات کے ساتھ زیادہ میل کھاتا دکھائی دیتا تھا، کیونکہ اس تنظیم نےپی ایل او کے منشور کا ہی ایک اسلامی ورژن فراہم کیاتھا، اور قومی آزادی کے سوال اوردیگر سیاسی مطالبات کو مذہبی تقدس دے کر پیش کیا تھا۔
حماس کو اخوان المسلمون سے الگ ایک تنظیم کے طور پر بنانا ایک عملی ضرورت سمجھا گیا تھا۔کیوں کہ اخوان المسلمون نے اسرائیل کے خلاف تشدد اور جہاد میں ملوث ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ اس طرح انتفادا میں شرکت کیے بغیر، اس سے منسلک اسلام پسندوں کو خدشہ تھا کہ وہ اپنے حریف تنظیموں یعنی فلسطینی اسلامی جہاد اور پی ایل او کے مقابلے میں عام لوگوں کی حمایت کھو دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی امید ظاہر کی کہ وہ اپنی فلاحی سرگرمیوں کو عسکری کاروائیوں سے الگ رکھیں گے، جس کی وجہ سے اسرائیل ان کے سماجی کاموں میں مداخلت نہیں کرے گا۔
اگست 1988 میں حماس نے اپنا باقاعدہ چارٹر شائع کیا، جس میں اس نے خود کو اخوان المسلمین کے ایک چیپٹر کے طور پر پیش کیا، اور پہلی بار واضح طورپر “فلسطین میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کی خواہش” کا اظہار کیا۔آگے چل کر اسرائیلی پالیسی سازوں کی خواہش اور تجزیے کے عین مطابق حماس کا پی ایل و سے ٹکراو شروع ہوا۔ اور رفتہ رفتہ اس نے اسلام پسندوں کی حمایت سے پی ایل او کو پسپا کرنے پر مجبور کر دیا۔
سنہ2004میں یاسر عرفات کی موت کے بعد حماس اورالفتح کے درمیان تصادم خونی شکل اختیار کر گیا۔ فلسطین کے خود مختار کمیشن برائے شہری حقوق کی ایک رپورٹ کے مطابق 2006اور 07 میں حماس اور پی ایل و کی الفتح کے درمیان تصادم کی وجہ سے چھ سو سے زائد فلسطینی مارے گئے۔ دو ہزار چھ کے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں حماس نے کامیابی حاصل کر لی۔ دو ہزار سات میں حماس کی طرف سے غزہ کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اس نے اپنے ممبران پر مشتمل حکومت قائم کردی، اور الفتح سمیت فلسطین کے دیگر تمام سیاسی دھڑوں کو باہر کر دیا۔ حماس کو امریکہ ، کینیڈا،یوپین یونین اور دیگر کئی ممالک کی طرف سے دہشت گرد بنیاد پرست تنظیم قرار دیا گیا۔ اس کا اظہاراس وقت اسرائیل کے ساتھ حماس کے موجودہ تصادم پر ان ممالک کے موقف سے ہوتا ہے۔
♠