بیرسٹر حمید باشانی
ہمارا دور بیانیہ کا دور ہے۔ افراد، گروہ اور سیاسی جماعتوں کا اپنا اپنا بیانیہ ہے۔ ملک میں خواہ کتنی ہی بڑی سیاسی جماعت کیوں نہ ہو ۔ اس کا با قاعدہ تحریری آئین و منشور بھی ہو ۔ ہر سطح پر لیڈر شپ بھی موجود ہو، جو وقتا فوقتا پارٹی پروگرام اور منشور بیان کرتی رہی ہو۔ مگر پھر بھی اب لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ پارٹی کا بیانیہ کیا ہے؟ یہی بات سیاسی رہنماؤں پر بھی صادق آتی ہے۔ جیسے حال ہی میں یہ سوال مقبول عام ہوا کہ نواز شریف کا بیانیہ کیا ہے؟نواز شریف کو بنفس نفیس اپنے پہلے جلسہ عام میں اس سوال کا جواب دینا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ میرا بیانیہ کیا ہے ؟ میٹرو بسیں،اورنج ٹرین اور موٹرویز ہمارا بیانیہ ہے۔ یعنی تعمیرو ترقی، انفراسٹریکچر اور سہولیات کی فراہمی کو انہوں نے اپنا بیانیہ قرار دیا۔
کوئی بھی سیاسی پارٹی ملک میں تعمیر و ترقی یا عوامی خدمت کو اپنا بیانیہ قرار دے سکتی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ تعمیر و ترقی یا عوامی سہولیات کی فراہمی کسی جماعت یا شخصیت کے بیانیہ کا ایک حصہ تو ہو سکتا ہے، مگر پورا بیانیہ نہیں ہو سکتا۔ ہماری سیاست میں “بیانیہ ایک نسبتا نئی اصطلاح ہے۔ یہ حال ہی میں ہماری سیاست میں متعارف ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ اصطلاح ہماری سیاست کے لیے بالکل اجنبی تھی۔ بیشتر اصطلاحوں کی طرح بیانیہ بھی یونانی زبان کی اصطلاح ہے، جس کا سادہ مطلب کہانی بیان کرنا ہے۔ پوری بات بیان کرنا ہے۔ روایتی طوراس لفظ کا استعمال علم، ادب، آرٹ، ڈرامہ وغیرہ میں ہوتا رہا ہے۔ مگر حالیہ برسوں میں یہ سیاست کی ایک مقبول اصطلاح بن گئی ہے، جس کا مطلب اپنے موقف کو تمام جزیات اور دلائل کے ساتھ پیش کرنا ہے۔
نواز شریف نے مختلف موضوعات اور مسائل پر جو اظہار خیال کیا ہے، اس کی تفصیل میں جایا جائے تو ایک بیانیہ ضرور ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اگرچہ اس کو مکمل بیانیہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ مکمل کہانی نہیں ہے، اورمکمل بیانیہ ایک مکمل کہانی کا نام ہے۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان میں آج تک کوئی سیاست دان اپنی مکمل کہانی یا مکمل بیانیہ عوام کے سامنے نہیں رکھ سکا۔ اس کی وجہ ملک کا سیاسی کلچر روایات اورمختلف قوتوں کا توازن یا کبھی کبھی عدم توازن بھی رہا ہے۔ اس ماحول میں سیاست دانوں کو بہت ساری باتیں خفیہ رکھنی پڑتی ہیں، یا پھر ان باتوں کو رازاداری سے صرف “سٹیک ہولڈرز” کے ساتھ شئیر کرنا پڑتا ہے۔ آدھا سچ بولنا پڑتا ہے۔ عوام کو تمام اہم معاملات سے آگاہ رکھنا تو ایک طرف یہاں پارلیمان جیسے اہم ترین اور آئینی اعتبار سے مقتدر ادارے کو بھی بسا اوقات اعتماد نہیں لیا جاتا، اور بہت سارے قومی مسائل پر کھلے عام بحث و مباحثے سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ بہت سارے اہم معاملات کو قومی راز قرار دیا جاتا ہے۔
لیکن وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان معاملات میں قومی راز یا حساسیت والی کوئی بات نہیں تھی، بلکہ یہ ایسے معاملات تھے، جن پر پارلیمان میں کھلے بحث و مباحثے کے علاوہ عوام کو بھی اعتماد میں لانا ضروری تھا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ یعنی عوام سے حقائق چھپائے جاتے رہے۔ جھوٹ بولا جاتا رہا۔ یا پھر آدھا سچ بولا جاتا رہا ۔ ان سب تلخ حقائق کے باوجود نواز شریف کی تقریر سے بیانیہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان کی تقریر کے مختلف حصوں کو آپس میں جوڑ کر پڑھا یا سنا جائے تو ایک اچھا خاصہ بیانیہ بن جاتا ہے۔
اس بیانیہ کا پہلا اہم عنصر یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں، ریاستی اداروں اور ستونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا، اس کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ یہ بیان نواز شریف کے ان سابقہ بیانات سے مختلف ہے، جن کی وجہ سے ان کی اداروں کے ساتھ تصادم کی کیفیت پیدا ہوئی، جو بالاخر ان کے اقتدار کے خاتمے پر منتج ہوئی۔ اس وقت نواز شریف کا بیانیہ یہ تھا کہ تمام اداروں کو اپنی اپنی حدود و و قیود کے اندر رہ کر کام کرنا چاہیے، یعنی ان کے الفاظ میں ان کو اپنی “ڈومین” میں رہنا چاہیے۔ ڈومین میں رہنے کا مطلب یہ ہے جس ادارے کا آئین کے اندر ایک دائرہ کار متعین کیا ہوا ہے، وہ اس کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض سر انجام دے۔ اور اس ڈومین سے باہر نکل کر سیاسی معاملات اور سیاسی فیصلہ سازی میں مداخلت نہ کرے۔ ظاہر ہے ہر ادارہ آئین کی طرف سے متعین کردہ حدود کے اندر رہ کر دوسرے اداروں سے تعاون کر سکتا ہے۔
نواز شریف نے اس دفعہ جو بیانیہ دیا ہے وہ تعاون کی درخواست تو کرتا ہے، مگر اپنی ڈومین میں رہنے کی تلقین نہیں کرتا، اور یہ سابقہ بیانیہ اور موجودہ بیانہ میں واضح فرق کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے لیے یہ کہنا زیادہ مناسب ہوتا کہ تمام ریاستی ادارے آئین کی حدود میں رہتے ہوئے مل جل کر کام کریں۔ انہوں نے اپنے بیانیہ میں کشکول توڑنے کی بات کی، مگر اس کشکول کو توڑنے کے لیے جس روڈ میپ یا معاشی منصوبے کی ضرورت ہے، اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس روڈ میپ یا ٹھوس معاشی منصوبے کے بغیر کشکول توڑنے کی بات محض ایک خواہش رہ جاتی ہے۔گزشتہ حکومت نے شاید پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ کشکول توڑنے کی بات کی، مگر عملی طور پر اس دور میں جو بیرونی قرضے لیے ان کا حجم ماضی کے سارے ریکارڈ توڑتا ہے۔ بلکہ گزشتہ پچس سالوں میں ہر حکومت کشکول توڑنے کا بیانیہ لے کر آتی رہی، مگر عملی طور پر ملک کے بیرونی قرضوں میں نا قابل برادشت اضافے کو موجب بنتی رہی ہے۔
نواز شریف کے بیانیہ کی تیسری اہم بات یہ تھی کہ “ہمیں ایک با وقار اورفعال خارجہ پالیسی بنانی ہوگی۔ اپنے ہمسایوں اور دنیا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پڑیں گے۔ ہم اپنے ہمساِیوں کے ساتھ لڑائی کر کہ دنیا کے ساتھ اچھ تعلقات سے ترقی نہیں کر سکتے۔ ہمیں سب کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔ کشمیر کے حل کے لیے با وقار تدبیر سے آگے بڑھنا ہوگا۔ اگر مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ نہ ہوتا تو آج مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان معاشی راہداری بن گئی ہوتی، جس کو بھارت بھی راہ دیتا اور پاکستان مل کر ترقی کرتا۔ لیکن ہم نے کہا کہ یہ کون لوگ ہیں مشرقی پاکستان کے رہنے والے، یہ تو پٹ سن اگاتے ہیں، یہ تو بوجھ ہیں، اور اس بوجھ کو اتار کر زمین پر دے مارا۔ دیکھ لیں آج وہی مشرقی پاکستان ترقی میں ہم سے کئی آگے نکل گیا ہےاور ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمیں یہ منظور نہیں ہے“۔ یہ خارجہ پالیسی پر نواز شریف کا بیانیہ ہے۔ اگرچہ یہ نیا بیانیہ نہیں ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے نواز شریف اپنے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے کچھ عملی اقدامات بھی اٹھائے تھے۔اٹل بہاری واچپائی اور نریندر مودی کی لاہور آمد اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ مگر ان اقدامات کو نواز شریف کی کامیابیاں یا کارنامے قرار دینے کے بجائے ان کے خلاف استعمال کیا گیا، جس کی وجہ سے وہ ان بڑے اقدمات کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات یا تجارت کے لیے راہ ہموار نہیں کر سکے۔
اب نواز شریف یہی بیانیہ بالکل نئے حالات میں لے کر سامنے آئے ہیں، اور دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس بیانیہ کو لیکر بر صغیر میں قیام امن، مسئلہ کشمیر کے حل یا دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے باب میں کوئی قابل زکر پیش رفت کر سکیں گے یا نہیں؟۔
♠