افغان مہاجرین اور سندھ کے تحفظات

بصیر نوید

سندھ ملک کا واحد صوبہ جہاں غیر ملکی باشندوں کی سب سے زیادہ تعداد رہتی ہے نیز دوسرے صوبوں سے بھی بڑی تعداد میں باشندے روزگار کیلئے سندھ خاص کر اس کے دارالحکومت کراچی میں بس جاتے ہیں جن کے باعث امن و امان کے ساتھ یہاں کی شہری سہولیات پر بھاری اثرات پڑتے ہیں۔ سندھ میں غیر ملکی باشندوں اور دوسرے صوبوں سے آمد کی وجوہات میں دو بڑے فیکٹرز ہیں۔ اول یہ کہ سندھ کی مقامی آبادی لوگوں کے روزگار و کفالت کے کسی بھی طور پر مخالف نہیں ہوتے بلکہ انکی طبیعت کی عجز و انکساری انہیں فخر مہیا کرتی ہے کہ ان کی دھرتی لوگوں کیلئے رزق و کفالت کا ذریعہ بنتی ہے وہ اسے صوفیوں کی دھرتی کے کرشموں کا سبب قرار دیتے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ سندھ کا موسم ہے جو کاروبار و روزگار کیلئے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہتر ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔

لیکن سندھ کے باشندوں کو ہمیشہ خود کے اقلیت میں تبدیل ہونے یا ریڈ انڈین بن جانے کا خوف رہتا ہے جس کا اظہار وہ مختلف مواقع پر کرتے رہے ہیں۔ان تمام خدشات کے باوجود غیر ملکیوں اور دیگر صوبوں سے آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 1972 کے بعد سے سندھ کی آبادی میں مسلسل تین فیصد سالانہ کے تناسب سے اضافہ ہورہا ہے۔ سندھ کے مستقل باشندوں میں جہاں ڈیموگرافک صورتحال کے تبدیل ہونے کے خدشات تھے وہاں انہیں غیر ملکی باشندوں کی آمد اور دوسرے صوبوں سے بڑی تعداد میں منتقل ہونے والوں کے سبب یہ خدشات نمایاں تھے کہ یہ صوبہ تشدد کے واقعات اور دہشت گردی کا مرکز بن جائے گا جو سو فیصد درست ثابت بھی ہوا۔ بالآخر بنگلہ دیش وجود میں آنے کے بعد آبادی میں اچانک سے اضافے کے باعث سندھ کئی دہائیوں تک خون میں نہاتا رہا مگر یہاں پر صوفیانہ طرز زندگی کے اثرات اور مقامی آبادی کی عجز و انکساری، مہمان نوازی اور پرخلوص طبیعت کے باعث سندھ چار دہائیوں کے خون وخرابے، ٹارگٹ کلنگز، بھتہ خوری اور بوری بند لاشوں پر مبنی سیاست حتیٰ کہ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران فوج کشی اور فضائی بمباری جیسے واقعات کے باوجود تمام سانحات کو برداشت کرگیا۔

جب افغانستان جنگ کی وجہ سے پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد شروع ہوئی تو سب سے زیادہ سندھ متاثر رہا جس میں شہری سہولیات و روزمرہ کی زندگی کی متاثر ہونا قابل ذکر ہیں۔ یہ واقعات کسی سے پوشیدہ نہیں رہے جب 1980 کی دہائی کے اولین برسوں کے دوران افغان مہاجرین کی لاکھوں کی تعداد میں آمد شروع ہوگئی تھی اور ان میں سےجو پیسے والے مہاجرین جن میں خاص کر نادرن الائنس یا فارسی اسپیکنگ افغانی تھےان کی خاصی بڑی تعداد نے کراچی پر یلغار کردی۔ کراچی کے نواح میں پہلے ہی سے پشتون آبادی موجود تھی جن کی وجہ سے پشتو بولنے والے افغان مہاجرین کو لاکر سہراب گوٹھ اور لانڈھی و قائد آباد میں بسایا گیا۔ سہراب گوٹھ کا فوجی حکومت نے خوب استعمال کیا کیونکہ سہراب گوٹھ کراچی کو جو پاکستان کے قیام سے لیکر افغان مہاجرین کی آمد تک ایک سندھی گوٹھ تھا جس کا نام وہاں کے ایک مقامی سردار سہراب کے نام پر تھا یہ گوٹھ پورے ملک سے جوڑنے والے راستوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا رستہ بنتا ہے یوں سمجھیں یہ کراچی کی شہ رگ کا کردار ادا کرتا ہے۔

اچھا یہ بھی بتادوں کہ پشتو اسپیکنگ اور نادرن الائنس کے افغانیوں کے درمیان مراعات کے حصول کی جنگ شروع ہوگئی تھی جو نچلی سطح پر رہی۔ چونکہ اس زمانے میں بیرون ملک جانے کیلئے ویزوں کی عام طور پر پابندی نہیں ہوتی تھی جس کا فائدہ اٹھا کر فارسی اسپیکنگ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد پاکستان چھوڑ کر یورپ و امریکہ نکل گئ جہاں ان کی پذیرائی بھی ہوئی مگر جب ببرک کارمل کی حکومت ختم ہوئی اور افغان مجاہدین کے نو جنگجو گروہوں کی حکومت قائم ہوئی جو مجاہدین کی حکومت بھی کہلاتی تھی اس نے پورے افغانستان میں جی بھر کےآپس میں جنگ کرتےرہے۔ ایسی خونریز لڑائیوں پر قابو پانے کیلئے پاکستان ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے پھر ان سے زیادہ طاقتور اور انتہائی بنیاد پرست عقیدوں پرچلنے والی تنظیم طالبان بنائی اور افغانستان ا ن کے حوالے کردیا جس کے نتیجے میں پشتو اسپیکنگ مہاجرین کی پاکستان آمد ہوئی جو بہت پرتشدد تھے ان کا مسکن بھی سندھ بنا۔ اس سلسلے میں خاص کر کراچی میں جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت نے افغان مہاجرین کے ذریعہ سہراب گوٹھ پر اسلحہ کی منڈی قائم کی جہاں سے سندھ کے ہر متحارب کو اسلحہ کی بےدریغ بلکہ کسی رنگ نسل و مذہب کے بغیر فراہمی کی جاتی تھی حتیٰ کہ متحارب طلبہ تنظیموں کو ادھار پر بھی اسلحہ فراہم کیا جاتا تھا۔
کراچی افغان مہاجرین کی سرگرمیوں کا مرکز ہونے کے باعث اچانک سے زمینوں پر قبضے، مساجد و مدرسوں کی تعمیرات، منشیات و اسلحہ کی عام فراہمی نے شہر کی ایک پر امن و کاروباری زندگی میں خون کی آمیزش شروع کردی ۔ایم کیو ایم اور پنجابی پختون اتحاد یا اسی قسم کی تنظیموں کے اسلحہ کے گودام بھرنا شروع ہوگئے تھے۔ منشیات کی نئی نئی قسمیں بھی متعارف ہوئیں جس نے نوجوانوں کو تعلیم اور دیگر صحت مند سرگرمیوں سے دور کردیا اور اسلحہ کے زور پر ڈگریوں کا حصول عام ہوگیا۔

افغان مہاجرین نے کراچی سمیت بڑے شہروں کے نواح میں اپنی بستیاں قائم کیں اور شہروں کو جانے والی پانی کی بڑی بڑی لائنوں کو توڑ کر شہروں میں پانی کا بحران پیدا کیا، سیوریج کی لائنیں تباہ کرکے تمام لائنوں کو بند کرکے شہر میں گندگی کے ڈھیر لگا دئیے، بجلی کے نہ صرف غیر قانونی کنکشنز سے کام چلائے گئے اور بجلی کے بلز کو اپنا دشمن جانا، ٹرانسپورٹ سمیت تمام شہری سہولتوں کو تباہی تک پہنچا دیا۔

صرف ایک ہی صوبہ میں باہر سے آنے والی آبادی چاہے وہ ملکی ہو یا غیر ملکی، وہ مقامی وسائل پر بوجھ بن جاتی ہے، مثلاً صحت، روزگار، معیشت، تعلیم، شہری سہولیات اور سماجی زندگی جن میں آپس کا رہن سہن، آس پڑوس، اجتماعی سوچ اور تہذیب و تمدن خاص طور پر شامل ہوتے ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر ڈیموگرافی میں تبدیلی کا سنگین خطرہ ہوتا ہے جو مقامی آبادی کی نسلی و قومی شناخت کیلئے چیلنج بن جاتے ہیں۔ باہر سے آنے والی آبادیاں مقامی ڈھانچے میں ضم ہونے کی بجائے علیحدہ سے اپنی شناخت رکھتی ہیں اور میزبان سماج سے مخاصمانہ رویہ رکھتی ہیں اوران کیلئے بہت سارے مسائل پیدا کرتے ہیں نیز زرعی پیداوار پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ اگر تاریخ کا جائزہ لیں تو دیکھا جاسکتا ہے کہ مہاجرین یا ترک وطن کرنے والی آبادیاں ہمیشہ سامراج دوست اور فکر و سوچ میں رجعت پسند ہوتی ہیں۔

جو لوگ افغان مہاجرین کی افغانستان واپسی کی مخالفت کررہے ہیں وہ اس سلسلے میں کچھ انسانی حقوق کے ایشوز کو سب سے اولیت دےکر لاکھوں افغانیوں کی واپسی کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین میں اسماعیلی، شیعہ، بہائی، عیسائی اور دیگر فرقوں کے لوگ شامل ہیں نیز ان میں موسیقار، گلوکار و گلوکار آئیں، رقاص، اور فنکار، آرٹسٹ و مجسمہ ساز وغیرہ بھی ہیں جن کی طالبان نے زندگی تنگ کی ہوئی ہے تھی اگر وہ واپس چلے گئے تو وہ مار دیئے جائیں گے۔

یہ واقعی ایک انسانی حقوق اور ہمدردی کا ایشو ہے۔ ایسے افغان مہاجرین کی تعداد لاکھوں میں نہیں ہزاروں میں ہوگی یعنی زیادہ سے زیادہ بیس تیس ہزار یا اور مزید بڑھائیں تو 50 ہزار ہوگی مگر اس کی آڑ لیکر لاکھوں افغان مہاجرین کو روک کر ملک کے کروڑوں لوگوں کے روزگار، معیشت، تعلیم، صحت، فلاح بہبود اور شہری سہولیات کو تباہ و برباد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ البتہ جن اقلیتی گروہوں و خواتین کی جانوں کو خطرہ ہوسکتا ہے یا جنہوں نے پاکستان میں انسانی حقوق کی بنا پر پناہی کی ہوئی ہے ان کے کیسز کا جائزہ لیا جائے، ان کو تحفظ فراہم کیا جائے نیز خاص کر ایسے تمام لوگوں کیلئے پنجاب یا کے پی صوبہ میں قابل رہائش مکانات تعمیر کرکے کیمپ آباد کئے جائیں اور ایران کی طرح وہاں سے باہر شہروں میں جانے پر پابندی لگائی جائے۔ حکومت پاکستان ایسے افغان مہاجرین کی دوسرے ملکوں میں آبادکاری کیلئے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لائے۔ اس طرح جن صوبوں کے وسائل اور ڈیموگرافی کو خطرات لاحق ہیں ان کے مفادات کا تحفظ ہوسکے۔

سندھ کے عوام میں افغان مہاجرین کے بارے جن خدشات کا اظہار کرتے ہیں ان میں کراچی کی صوبہ سے علیحدگی سرفہرست ہے۔ اس سلسلے میں مختلف کتابیں اور مضامین سامنے آرہی ہیں، بے شمار سیمینارز اور اجتماعات منعقد ہورہے ہیں۔ اس ضمن میں یہ کہا جاتا ہے کہ جو طاقتیں کراچی کو صوبہ بنانا چاہتی ہیں ان کیلئے افغان مہاجرین مدد گار بن سکتے ہیں۔ گزشتہ 75 سالوں سے ایسی لگاتار کوششیں کی گئیں کہ کراچی کو وفاق کے تحت کردیا جائے یا علیحدہ صوبہ بنادیا جائے۔ پاکستان کے قیام کے بعد کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرکے ملک کا دارالحکومت بنایا گیا، اس طرح سندھ یونیورسٹی اور سندھ سے متعلق اداروں کو کراچی سے نکال حیدرآباد منتقل کرکے کراچی مکمل طور پر وفاق کے حوالے ہوگیا۔یوں کراچی میں دیگر صوبوں سے ابادی منتقل ہوتی چلی گئی پھر یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے کیونکہ دوسرے صوبوں کی اشرافیہ کو ایک اچھا بہانہ ہاتھ آگیا اور انہوں نے وفاق سے محصولات میں اپنا حصہ لیتے رہے لیکن روزگار کے ذرائع پیدا کرنے کی بجائے آبادی کو سندھ کی جانب بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا، عالمی بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک، اور دیگر عالمی اداروں کے قرضوں پر اپنا حق جتا کر صوبہ سندھ کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ سابقہ مشرقی پاکستان سے منتقل ہونے والوں کو ملک بھر میں آباد کرنا تھا مگر انہیں خاص منصوبہ کے تحت وہاں سے مجبور کیا گیا کہ وہ کراچی جاکر آباد ہوں۔ اس طرح ارادی طور پر انہیں کراچی میں اکٹھا کیا گیا جس کا شاخسانہ کئی دہائیوں تک کراچی سمیت دیگر شہروں میں پرتشدد و خونی واقعات ہوتے رہے۔

ایک بہت ہی پرانے سرکاری اعداد و شمار کے تحت بتایا جاتا ہے کہ سندھ میں صرف پانچ لاکھ افغان مہاجرین آباد ہیں جبکہ اخبارات کے مطابق 17 لاکھ افغانی رہتے ہیں۔

کراچی میں سندھی آبادی اقلیت میں ہے جبکہ غیر سندھی آبادی اکثریت میں ہے مگر مختلف قوموں اور زبان بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ افغان مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد ان طاقتوں اور سندھ دشمن حلقوں کیلئے ایک مؤثر ہتھیار ہیں جو کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں، اسی کوشش میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کو بھی متحرک کیا جارہا ہے، کیونکہ افغان مہاجرین کسی قانون و مقامی روایات کو نہیں مانتے ہیں۔ نیز جسمانی طور پر بھی مقامی لوگوں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہیں اس لئے سندھ کی وحدانیت کو توڑنے میں ایک اہم کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس کام میں تیزی پیدا کرنے کیلئے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ 8 فروری کو طے شدہ انتخاب سے قبل دہشت گردی کے واقعات کروا کر انتخابات کو ملتوی کروایا جائے گا پھر سندھ کی تقسیم کا عمل شروع ہوگا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس مقصد کیلئے کچھ لسانی و سیاسی گروہوں کے درمیان اتحاد بھی تشکیل دیئے جارہے ہیں۔

2 Comments